رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان ایک خواب تھا جو بر صغیر کے طول و عرض میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں نے اپنی آنکھوں میں سجایااور دل کی گہرائیوں میں بسایا اور اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے قربانیاں دیں۔ زبانیں اور علاقائی ثقافتی رنگ مختلف مگر ایک ہی تہذیبی رشتے میں پروئے ہوئے تھے۔ اجتماعی شناخت کا رنگ غالب تھا‘اگرچہ سیاسی امور میں اختلافات نمایاں تھے۔ مساوی حقوق‘ مناسب نمائندگی اور اقتدار کے کچھ سوال ایسے تھے کہ مسلمان اشرافیہ یکجا نہ ہو سکی۔ خواب تو ہر خطے میں دیکھا گیا مگر اس کی تعبیر صرف مسلم اکثریتی علاقوں میں ممکن تھی۔ جو کچھ ملک بننے کے بعد یہاں اور وہاں کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہوا‘ اس کا اب ذکر کیا کریں۔ ہزاروں جاں بحق ہوئے اور لاکھوں بے گھر۔ جو واہگہ کے اس پار لٹے پٹے آسکے‘ اور جو اپنے آبائی وطن چھوڑ کر بھارت چلے گئے‘ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا اور جو آبادیوں پر بیتی‘ وہ جدید تاریخ کی ہولناک داستانوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے صرف تاریخ کے اوراق نہیں پلٹے‘ ادھر اور اُدھر کچھ ایسے لوگوں سے ملاقاتیں بھی رہیں‘ اب وہ آہستہ آہستہ ہم سے بچھڑ کر کسی اور وطن کو جا چکے ہیں لیکن ذاتی طور پر ان اکابرین‘ دانشوروں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ فلسفیوں اور اساتذہ سے متاثر ہوں جو اپنے ہر ے بھرے کھیت‘ سونا اگلتی زمین‘ سرسبز باغات‘ کاروبار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر پاکستان میں آبسے کہ جو اُن کا خواب تھا اور جس کے لیے دو نسلوں تک اُنہوں نے مختلف اندازاور کئی شعبوں میں جدوجہد کی۔ وہ اس خواب کے ساتھ زندہ رہے اور اگلی نسلوں تک اسے منتقل کرنے میں ہم نے وہی جذبہ اور جنوں ان کے کلام اور کردار میں پایا۔ وہ سچے تھے اور امانت دار بھی اور وفا کے پکے۔ اُن کے لیے سرحد اور ادھر کا راستہ اور دروازے کھلے تھے۔ کوئی گلہ نہیں‘ جو اُنہوں نے بہتر سوچا‘ وہی کیا اور ہم ایسی آزادیوں کا احترام کرتے ہیں۔
کچھ کو تو شروع میں ہی معلوم ہوگیا تھا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو اُن کا خواب تھا۔ آزادی کے بعد جب ریاست کے مقاصد کا تعین ہونے لگا تو عوام کی نظروں سے اوجھل پارلیمان کے اندر ایک مخصو ص دھڑے نے دھڑلے سے یہ کیا تو پھر قائد اعظم کا پاکستان نہ رہا۔ ان کی تصویریں کرنسی نوٹوں اور سرکاری دفاتر کی دیواروں پر نمایاںرہیں‘ ان کے آئین اور قانون کی حکمرانی کے فلسفے اور عملی جدو جہد کے نظریے سب ہوا میں اُڑ کر خاک میں تحلیل ہوگئے۔ ان کے جاتے ہی کھوٹے سکے سیاست میں چلنے لگے اور ریاستی اقتدار پر حاوی ہوگئے۔ آج دیکھیں کہ اس وقت سکہ رائج الوقت میںکتنے کھرے اور کتنے کھوٹے ہیں۔ ہم تو یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ چھاپوں اور قید کا ڈر ہے‘ مگر کل شام ایک غیر ملکی چینل شد و مد کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ موجودہ وفاقی کابینہ میں ساٹھ فیصد وہ حضرات ہیں جنہیں مختلف جرائم میں عدالتوں سے سزا ہو چکی ہے یا سنگین مقدمات ہیں ا ور ضمانتوں پر رہا ہیں۔ کھوٹے کھرے کا فیصلہ ہم کریں گے تو جانب داری قرار پائے گا‘ عدالتیں فیصلہ کریں گی تو ظاہر ہے کہ اور بات ہوگی۔ ہم کچھ معلوم ہونے سے پہلے ہی اپنا راستہ گم کرچکے تھے۔ کارواں کے سالار گوری سرکار کے سابق ملازم تھے۔ جو ہم میں سے اُٹھ کر آئے تھے ان کا زیادہ تر تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ تھے تو اکثریت میں مگر ہماری اشرافیہ اُنہیں کمتر خیال کرتی تھی۔ مختلف حیلے بہانے کیے گئے کہ مشرقی پاکستان کی سرزمین سے اُٹھ کر آنے والوں کو لگام کیسے دی جائے ؟ کسی کو یاد ہے کہ 1954 ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات ہوئے تو جگتو فرنٹ نے جھاڑو پھیر دیا تھا۔ ان کے مطالبات بھی وہی تھے جو بعد میں عوامی لیگ کے چھ نکات کی صورت میں سامنے آئے۔ ہمارے مہربانوں نے جگتو فرنٹ کا اسی طرح” ضمیر‘‘ جگائے تھے جیسے حال ہی میں تحریک انصاف میں جگائے گئے ہیں۔ جوڑ توڑ کرنے والے زردار تب بھی کم نہ تھے‘ صرف قیمتِ خرید میں فرق تھا۔ اب شاید افراطِ زر کا مسئلہ ہے اور پھر منڈی میں خریدار بھی زیادہ ہیں اور باوسائل ہیں۔
ابتدائی برس کسی بھی ریاست کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاسی بنیاد بنتی ہے‘ اصولِ حکمرانی طے ہوتے ہیں۔ اختیارات کی تقسیم‘ نمائندگی اور قومیت کی تشکیل کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ ہم بازی انہی برسوں میں ہار بیٹھے۔ اکھاڑ پچھاڑ اور اقتدار کی رسہ کشی کا یہ حال تھا کہ آئے روز وزارتیں اور حکومتیں تبدیل ہوتی رہتیں۔ کیسے کیسے بدحواس‘ اخلاقی طور پر پست‘ خود پسند اور اقتدار کے لیے ملک وقوم کا مستقبل دائو پر لگانے والے پاکستان کی ریاست پر قابض ہوگئے۔ گورنر جنرل غلام محمد‘ اسکندر مرزا تو بدنام ٹھہرے‘ مگر کچھ اور پردہ نشینوں کے نام لیں تو تاریخ میں قائم بھرم کا پردہ چاک ہو جائے۔ پاکستان کا حال ان ابتدائی برسوں میں وہی ہوا کہ منزل اُنہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان 1951 ء میں امریکا کے دورے پر گئے تو جنہوں نے تقریریں لکھیں اور پاکستان کی خارجہ اور سلامتی کی پالیسی پر جو رنگ چڑھایا‘ اُن کا اب نام لینا یہاں مناسب نہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ کھاتے وہ ہمارے ہاں سے تھے‘ سوچتے کسی اور کے لیے تھے۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ہم ابھی تک اپنی منزل نہیں طے کر سکے۔ راہ گم کردہ‘ پریشان‘ خوفزدہ‘ بحرانوں کا شکار قافلہ ہیں جس کے سردار پچھتر سال سے آپس میں برسر پیکار ہیں۔ ایسے میں قافلہ کیسے آگے چل پاتا ؟ منزلیں اور نشانِ منزل کیوں تبدیل نہ ہوتے ؟ اور پھر رہبروں کے نام پر رہزن ہمارے قافلے کو کیوں نہ مسلسل لوٹتے ؟ گزشتہ چوالیس سال سے قائم و دائم‘ پھلتے پھولتے‘ خود ترقی کرتے اور قوم کو پستیوں کی طرف دیکھتے رہبروں کو دیکھیں تو غلام محمد‘ اسکندر مرزا اور ایوب خان فرشتے معلوم ہوتے ہیں۔ اقتدار کی جنگیں جاری رہیں۔ چلیں جنگیں نہیں سیاسی کشمکش کہہ لیتے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں اختیارات کی تقسیم‘ عسکری اور سول حکمرانوں کے درمیان بنیادی سوال‘ سیاسی وڈیروں کی دھڑے بندی اور جمہوریت کے نام پر جبر اور لوٹ کھسوٹ اور سیاسی مقابلہ بازی‘ اور فرقہ واریت کی سیاست‘ جسے کچھ لوگ مذہبی جماعتوں کی نظریاتی سیاست کا لبادہ پہناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بات یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور مذہب کے درمیان کیا رشتہ ہوگا اور کیا ہونا چاہیے‘ سیاسی کشمکش کا ایک اور رخ پیش کرتا ہے۔ آ پ کے خیالات اور جذبات اس بابت جو بھی ہوں‘ ہمیں ان کا احترام ہے مگر یہ ابھی حل طلب ہے۔ گمان ہے کہ جہاں بھی یہ مسئلہ اُٹھا ہے‘ حل ہو ہی نہیں سکا۔ ہم ان تضادات کے ساتھ آج بھی ایک زندہ قوم ہیں۔ کوئی ہم درویشوں سے پوچھے کہ کیا حال ہے‘ تو کہتے ہیں کہ ”زندہ ہیں‘یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔‘‘ ہر سال کی طرح چھت پر جھنڈا لہرا دیا جاتا ہے۔اسے ہوا میں پھڑپھڑاتا دیکھ کر خوش ہوتا ہوں کہ اب ایک نئے قافلے نے اسے سنبھال لیا ہے۔ وہ آزادی اور خواب اب بھی زندہ ہیں۔ کچھ قدم اُٹھے ہیں۔ ولولہ‘ جوش اور جنون اپنی جگہ پر موجود‘ لیکن رہزن اور رہبر کی پہچان ابھی باقی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر