مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان جس چیز کے بارے میں جانتا نہ ہو، اس سے خوف کھاتا ہے۔ اس خوف سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ میں اس لیے شیعی فکر، تاریخ اور رسوم کے بارے میں لکھتا ہوں تاکہ اکثریتی فرقے کے لوگوں میں علم بڑھے، لاعلمی سے پیدا ہونے والا خوف کم ہو اور نتیجے میں نفرتیں ختم ہوجائیں۔
میں یہاں دو نکات پر بات کرنا چاہتا ہوں، جن سے شیعی فکر سے لاعلمی واضح ہوتی ہے۔
علامہ ضمیر اختر نقوی نے ایک نظم کہی تھی اور مجلس بھی پڑھی تھی جو نپولین کے امام حسین کے نام خط پر مبنی تھی۔
میرے پاس اس کا حوالہ نہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسا کوئی خط وجود رکھتا ہے یا نہیں۔
لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ امام حسین کا زمانہ ہزار سال پہلے کا تھا۔ نپولین بعد کے زمانے کا تھا۔ وہ انھیں خط کیسے لکھ سکتا تھا؟
ایسے خط آج بھی لکھے جاتے ہیں۔ انھیں عریضہ کہا جاتا ہے۔ یہ امام کے نام عرضی ہوتی ہے کہ ہم مشکل میں ہیں، مشکل کشائی کیجیے۔ نپولین کے مبینہ خط کا مضمون بھی یہی تھا۔
دوسری بات انقلابی مزاج لوگ کہتے ہیں۔ علی شریعتی نے بھی کہی۔ جوش صاحب نے بھی مرثیے کو نیا رنگ دیا تو کربلا کو انقلاب سے ہم آہنگ کیا۔ اس مزاج کےلوگ کہتے ہیں کہ عزاداری محض رسم اور کتھارسس بن کر رہ گئی ہے جبکہ کربلا کو سماج میں انقلاب لانے کا ذریعہ ہونا چاہیے۔
یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ لیکن شیعوں میں امام کی غیبت میں جہاد ساقط ہے۔
جب تک امام کا ظہور نہیں ہوگا، عزاداری کو زندہ رکھنا ہی جہاد ہے۔ یہی انقلاب کا راستہ ہے۔
میں شیعی فکر کا مبلغ نہیں۔ مجھے روایتی مذہبی فکر سے اختلاف ہے۔ لیکن ہمیں درست رائے رکھنے اور بات سمجھنے کے لیے تمام فریقوں کی فکر سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد نقد کیا جاسکتا ہے۔ لاعلمی کی تنقید اپنا مذاق اڑواتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر