سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہویں شب کا چاند آسمان پر تیرتی سفید رنگ کی چھوٹی چھوٹی آوارہ بدلیوں سے کھیل رہا تھا۔ اگست کا حبس فضا کا دَم گھونٹے ہوا تھا اور ہوا بھی دم بخود تھی۔ میرے بدن کا پور پور پسینہ اگلتا تھا اور کانوں میں مہدی حسن، فراز کی غزل کا یہ شعر الاپ رہے تھے "پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو.. رسم و راہِ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ” میرا خیال اور توجہ مہدی حسن کے سَروں کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے تھے کہ یک بہ یک جیسے بھونچال آگیا. کوئی شے میری داہنی پنڈلی سے ٹکرائی پھر کچھ کھرچے جانے اور ہلکی سی چبھن کا احساس۔ اس کے ساتھ ہی میرا خود کار حفاظتی نظام فعال ہوگیا اور بے اختیار میں نے دائیں ٹانگ کو زور سے جھٹکا۔ کوئی غْراتی ہوئی شے ٹانگ سے چپکی تھی۔ دوسرے تیسرے جھٹکے میں ایک بلی دور جا کے گری اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔ بلی تو بھاگ گئی مگر میرے دل کی دھڑکن اور گھبراہٹ کتنی ہی دیر قابو میں نہ آئی۔ اچانک افتاد پر دَر آنے والی گھبراہٹ۔ پسِ منظر اس تمہید کا یہ ہے کہ میں باقاعدہ تو نہیں مگر ہفتے میں دو تین دن واک کرنے جایا کرتا ہوں۔ ساٹھ کی دہائی میں ملتان امپروومنٹ ٹرسٹ نے جو شہر میں چار پانچ جدید آبادیاں بسائی تھیں، انہی میں سے ایک آفیسرز کالونی بھی ہے. چار، چھ اور آٹھ کنال کے ان گھروں میں اب کوئی آفیسر نہیں رہتا سوائے ہمارے اے سی سٹی خواجہ عمیر کے۔ دو چار صنعت کار ہیں اور باقی گھروں میں سکول کھلے ہیں۔ کالونی کا جو رْخ بوسن روڈ سے لگتا ہے، وہ سارا کمرشل ہوچکا۔ بینک، پٹرول پمپ، ریستوران آفیسرز کالونی کا چہرہ ڈھک چکے ہیں۔ بہرحال اس کے بیچوں بیچ ایک گول پارک ہے جس میں چار سو میٹر کا واکنگ ٹریک بھی بنا ہے۔ یہیں یہ کالم نگار دو چار کلومیٹر چلنے کو جایا کرتا ہے۔ ٹریک کی چوڑائی پانچ اور گیارہ بارہ فٹ کے درمیان کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ میں بالکل اوپر والے کنارے پر حاشیہ بناتے ہوئے واک کرتا ہوں۔ ٹریک کے اندرونی سمت تو گھاس کے تختے ہیں جبکہ اوپری کنارے اور بیرونی دیوار کے درمیان ایک پانچ چھ فٹ کی کیاری ہے جو کہیں کہیں تو بالکل جنگل کا سماں دیتی ہے۔ گھنے پودے کہ جن کے اندر نظر بھی نہیں گھس پاتی۔ گھاس کے تختوں پر درخت کھڑے ہیں اس کے سائے ٹریک پر کئی جگہ تاریکی کر دیتے ہیں۔ ایک تو واک کرتے ہوئے میں عینک اتار لیا کرتا ہوں کہ پسینہ اس کے شیشوں پر گر کے منظر دھندلا دیتا ہے۔ دوسرا جائے وقوعہ پر اندھیرا تھا، تیسرے میں مہدی حسن کی جادوئی آواز میں گم اپنی ڈگر پہ چلا جا رہا تھا۔ ایک بلی کہیں جھاڑیوں سے نکل کے ٹریک کے کنارے محوِ استراحت تھی۔ میں بھی اسی کنارے پر رواں تھا. پتہ نہ چلا اور بلی کی دْم پر پاؤں آگیا۔ بلی کی جوابی کارروائی اور اپنی حالت کی روداد آپ کو سنا چکا ہوں۔ خیر! حواس بحال ہوئے تو مجھے احساس ہوا کہ کسی کی دْم پر پیر آجائے تو رد عمل کیسا سخت ہوسکتا ہے۔ اگر دْم پر پاؤں دانستہ رکھا جائے تو رد عمل اس کا بھی ہوتا ہے مگر تب پیر رکھنے والا ہوشیار ہوتا ہے اور اپنے بچاؤ کی تدبیر کر کے اس حرکت کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اگر میری طرح بے خبری میں کسی کی دْم پر پاؤں رکھ دیا جائے تو ردِ عمل، اچانک افتاد کی صورت میں وارد ہو کر آپ کا ہارٹ فیل کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ سرائیکی کا ایک پلوتا (بددعا، دشنام) ہے، "ونج اوئے شالا مْشکی تے پیر آوی” یعنی اللہ کرے تمہارا کالے ناگ پر پیر پڑ جائے۔ ایک بے ضرر سی بلی کی دْم پہ پاؤں آگیا تو اس نے میری جان نکال دی اور اگر میں نے جینز کے بجائے کوئی پتلا کپڑا پہنا ہوتا تو شاید زخمی بھی ہو جاتا۔ تصور کیجئے کہ اگر جو کہیں سانپوں کے بادشاہ پر بے خیالی میں پیر پڑ جائے تو کیا حشر ہو۔ زبانیں اور ان سے وابستہ لوک دانش دیہات میں پرورش پاتے ہیں، شہر، زبانوں کے دشمن ہوتے ہیں کہ وہاں بھانت بھانت کے لوگ اک دوجے کی زبان پر اثر انداز ہوکر زبانوں کی شکلیں بگاڑ دیتے ہیں، چنانچہ زبانیں زندہ بھی دیہات میں رہتی ہیں۔ شہری علاقوں کے عرب اپنے بچوں کی زبان اور شین قاف درست کرنے کو انہیں بادیہ نشینوں کے ہاں بھجوایا کرتے تھے۔ اپنے زمانے کے یہ بورڈنگ سکول جہاں صحراؤں میں بسنے والوں کی روزی روٹی کا سبب تھے وہاں عرب کے باسیوں کو دیگر خطہ ہائے ارض میں بسنے والوں کو عجمی یعنی گونگا کہنے کا غرور بھی بخشتے تھے۔ یہی فارمولا سرائیکی زبان پر بھی لاگو ہوتا ہے. سرائیکی خطے کا زیادہ رقبہ صحرا پر مشتمل ہے۔ تھل اور روہی (چولستان) سرائیکی خطے کے دیہات بناتے ہیں۔ یہاں سانپوں سے آمنا سامنا معمول کی بات ہے کہ صحرا سانپ جیسے کولڈ بلڈڈ جانور کے لئے رہنے کی آئیڈیل جگہ ہیں۔ گوگل بتاتا ہے کہ صحرا کے سانپوں میں سب سے خوفناک اور ہیبت ناک صحرائی کوبرا ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی پندرہ سے بیس فٹ کے درمیان ہوسکتی ہے۔ جب غصے میں ہوتا ہے تو یہ مارِ سیاہ (مْشکی) اپنی دم پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ مْشکی کے اسی مہلک پن کی بنا پر سرائیکی لوک زندگی نے یہ گھمبیر قسم کا پلوتا ایجاد کیا. اب آپ سوچئے کہ صحرا کی رات بھیگ چکی ہے، ریت نے شب سے ٹھنڈک کشید کر فضا میں ہلکی خنکی پھیلا دی ہے۔ آپ اپنی مستی میں چلے جا رہے ہیں. اْدھر دس بارہ فٹ لمبا مْشکی ٹھندی ریت پر لیٹا انجوائے کر رہا ہے اور بے خیالی میں آپ کا پیر اس کی دم پہ آگیا ہے. بس پھر آپ جانیں اور مْشکی جانے۔ کسی کی دْم پر پاؤں آجانا ایک حادثہ ہے اور کسی کی دْم پر پیر رکھنا ایک محاورہ. مؤخرالذکر کا مطلب ہے جان بوجھ کر کسی کو تنگ کرنا، زچ کرنا. جب آپ کسی کو تنگ کریں گے تو وہ پلٹ کے جواب تو دے گا۔ چنانچہ گذارش یہ ہے کہ حادثہ ہو یا محاورہ، دونوں کا نتیجہ اچھا نہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کی دْم پر پاؤں نہ رکھا جائے اور نہ نادانستگی میں آنے پائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر