رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ملک کا حکمران طبقہ ہوتا ہے‘ ترقی پذیر ملک ہو یا ترقی یافتہ۔ مغربی جمہوریتوں کی بات اور ہے۔مقتدر طبقات سیاسی کھیل کے پیچھے بیٹھ کرصنعت‘ معیشت اور موجودہ دور میں ثقافت‘تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو اپنے گروہی مفادات کے مطابق متاثر کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بڑی حد تک جمہوری رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ کوئی شخص انہیں اپنی خاندانی کارپوریشن کے طور پر نہیں چلاتا۔ پارلیمان‘ مقننہ‘ صدر‘ گورنر اور دیگر بے شمار سیاسی ادارے موجود ہوتے ہیں۔ مقامی ریاستی اور وفاقی اداروں کے انتخابات کیلئے حلقوں کے اندر سیاسی جماعتوں کے مقامی ممبر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ امیدوار کون ہوگا۔ایک ہی جماعت کے اندر انتخابی معرکہ سجتا ہے اور اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے۔ پارٹیوں کی ہر سطح پر تنظیموں کے عہدیداروں کیلئے انتخابات ہوتے ہیں۔ پارٹی سسٹم سے بل کلنٹن اور باراک اوباماجیسے امیدوار نکل کر امریکا کے صدر منتخب ہوئے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی صدر کا بیٹا صدر منتخب ہوا مگر اپنے باپ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی مقبولیت‘ سیاست‘انتخابی مہم اور منشور کے زور پر۔ آج کل برطانیہ میں اگلے وزیراعظم کے چناؤ کا عمل جاری ہے۔ دو امیدوار کنزرویٹو پارٹی نے میدان میں اتارے ہیں۔ ایک کا انتخاب ستمبر میں ملک کے طول و عرض میں پارٹی کے ممبران کریں گے۔برطانیہ کی پارلیمنٹ میں پاکستان‘ افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے علاقے سے وہ لوگ منتخب ہوتے ہیں جو اگر یہاں ہوتے تو شاید مقامی یونین کونسل کے رکن بھی منتخب نہ ہو پاتے۔لندن کے مئیر محمدصادق کو دیکھ لیں جو عام طبقے سے اٹھے اور اپنے ارب پتی حریف کو واضح شکست سے دوچار کیا۔ کون کون سی مثال دوں اورکس کس ملک کی جمہوری روایات کی بات کروں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ لارڈز گئے۔ اب عام آدمی ووٹ کے زور پر اقتدار میں آتے ہیں۔ دوبارہ حلقے سے تائید ملتی ہے تو رہتے ہیں‘ ورنہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ چیدہ چیدہ نوابی خاندان نہیں‘ عوام راج کرتے ہیں۔اور انہی میں سے جمہوری نظام کی شاہراہ پر چلنے کیلئے سیاسی رہنما پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے جیسے ملک میں جمہوریت‘ سیاست اور سیاسی جماعتیں موروثی خاندانوں کی جاگیر ہیں۔کسی نے آمریت کا کچھ مطالعہ کرنا ہو تو کوئی کتاب کھولنے کی ضرورت ہے نہ کسی دانشگا ہ میں فلسفیانہ بحثوں میں الجھنے کی زحمت کرنا پڑے گی۔ دو مشہور و معروف چوالیس سال تک باری باری اقتدارمیں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں۔ہمارے ہاں لسانی‘ علاقائی اور مذہبی جماعتوں میں بھی خاندانی آمریت ہے۔فرق یہ ہے کہ ہمارے قبائلی اور جاگیر دارانہ معاشرے میں جدی پشتی نوابیت کو سلام کرنے کی روایت ہے۔ مغرب میں‘ جہاں انسانی برابری اور آزادی کے اصول چلتے ہیں‘ وہاں سوال اٹھتا ہے کہ جنابِ عالی !آپ کون ہیں‘ آپ نے یہ حاصل کیا ہے‘آپ کی قابلیت اور ذاتی حیثیت کیا بنتی ہے؟وہاں ذاتی کاوش‘کامیابی اور محنت و لگن سے مقام اور کسی بھی شعبۂ زندگی میں نام بنانے والے کی عزت کی جاتی ہے۔ کسبِ حلال کا احترام ہے۔ہمارے معاشرے میں کوئی نچلے طبقوں سے اٹھ کر بلندیوں کے سفر اپنے زورِ بازوپر کرلے تو اس پرجو کچھ کہاجاتا ہے اس کا ذکر بھی مناسب نہیں۔
ہماری سیاست پر ابھی تک تین سو کے قریب خاندانوں کا غلبہ ہے۔اپنے اپنے حلقوں میں نظر دوڑائیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ انتخابی معرکے انہی خاندانوں کے درمیان ہوتے ہیں۔تبدیلی اس حد تک ضرور نظر آتی ہے کہ لوگ موروثیوں کے غلبے سے خوش نہیں‘ شہری حلقوں میں ذات اور برادری کا عمل دخل تو ہے مگرفیصلہ کن عنصر اب سیاسی جماعت بنتی نظر آرہی ہے۔ خود ہی اندازہ کر یں کہ کراچی کے اندر لیاری کا حلقہ نواب شاہ والوں کا ورثہ خیال کیا جاتا تھا۔وہاں تحریک انصاف کے ایک عام امیدوار نے ہمارے محترم وزیرخارجہ کو شکست سے دوچار کردیا۔لاہور‘ کراچی اور بڑے حضرات کے ڈیروں میں اب کس کے ڈیرے ہیں۔ پتا نہیں کون ایک طویل عرصے سے بڑے مجمعوں میں کہہ رہا ہے ”تبدیلی آگئی ہے‘‘۔ ہمارے جیسی ریاستوں کی تاریخ گواہ ہے کہ تبدیلی کا پہلا مرحلہ عوام سے شروع ہوتا ہے۔ریاست بھی معاشروں اور ملکوں کی قسمت بدلتی ہے مگر جب اقتدار لی کون یو‘ مہاتیر اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس ہو۔ہماری جمہوریت کے لبادے کے اندر کردار تو آپ کو معلوم ہی ہیں۔جدی پشتی تو حکمرانی کی گدی نشینی اپنے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے سپرد کیوں نہیں کریں گے۔
کیا مقابلے ہوا کرتے تھے‘ کل ہی کی تو بات ہے۔دولت کے انبار لگانے کے‘ ریاستی اداروں کو بگاڑنے کے‘ اپنے بندے مناسب جگہوں پر فٹ کرنے کے۔ زبان و کلام کے ماہر زرخرید کارندوں کو خلعت ِدرباری پہنا کر اسمبلیوں اور کابینہ میں جگہ دے کر معتبر بنانے کے۔ بہت سے ایسوں کے بارے میں‘جو غالب نے داغ کے بارے میں کہا تھا‘ صادق آتا ہے۔ ان کی سیاست‘ لوٹ مار اور باریاں لینے کے خلاف کوئی بھی اٹھنے کی ہمت نہ رکھتا تھا۔ کوئی کہیں سے زوردار دھڑا اٹھتاتو وہ بھی اسے اپنے ٹولے میں شامل کر لیتے ہیں۔
عمران خان کو بھی شریف بھائیوں نے رام کرنے کی بہت کوشش کی۔ترغیبات کوئی کم نہ دیں۔ مجال ہے کہ یہ بھلا آدمی ان کے قابو میں آ سکے۔ ہمارے مبصرین اور سیاسی ثقافت کے رنگوں کو برقرار رکھنے والے کپتان کو کسی کھاتے میں نہیں لکھتے تھے۔ اچھا کھلاڑی کسی بھی کھیل سے تعلق رکھتا ہو‘ آخری بال اور لمحے تک مقابلہ کرتا ہے۔ کئی مضامین میں ذکر کرچکا ہوں کہ ملک کے طول وعرض میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ کوئی مثال پاکستان کی تاریخ میں دکھائیں کہ کسی ایک فرد نے انتھک جدوجہد سے سیاست کا پانسہ یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہواور موروثی خاندانوں کی سیاست کا ایسا کباڑہ کیا ہو جو ان کے چہروں پر جلی حروف میں پڑھا جا سکتا ہے۔ خوف ان کا ہمالیہ کی بلندیوں کو چھونے لگا تو شریف اور زرداری صاحب‘ قوم پرست‘نسل پرست اور زر پرست نئے سیاسی بھائی چارے میں بندھ گئے۔عافیت اور بقا اس میں بھی نہیں۔سہارے وہاں ملے جن کے خلاف عرصہ سے ووٹ کی عزت کا سوال کر رہے تھے۔ مقابلے میں اب بھی کم پڑ رہے ہیں‘ بلکہ زیادہ کمزوری دکھا رہے ہیں۔ زور اور طاقت خان کی بڑھی‘عوام اور پاکستان کپتان کے ساتھ ہیں۔عوام اور پاکستان کپتان کے ساتھ ایسے جڑے ہیں کہ اب اس مثلث کو توڑنا مزید حماقتوں کا موجب ہو گا۔ بوکھلاہٹ واضح ہے کہ بوگس الزامات‘ مقدمات اورکھیل سے باہر کرنے کی تیاریاں۔مگر یہ الزام کم ہے کہ سارے ملک کو بیدار کر کے مورثی لو گوں کی چھٹی کرا دی ہے۔بیساکھیاں کب تک کام آئیں گی؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر