حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا بالآخر 8سال بعد گزشتہ روز فیصلہ سنا ہی دیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق عمران خان کا بیان حلفی جھوٹا ثابت ہوا، 8اکائونٹس ظاہر کئے، 13چھپائے، 34غیرملکی شہریوں اور عارف نقوی کی کمپنی سمیت 351 کاروباری اداروں سے ممنوعہ فنڈز لئے گئے۔
اطلاعات کی دنیا میں منگل کی صبح سے طوفان برپا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے دلائل اور تایلات ہر دو پر نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ ہر نئی جماعت اور عقیدے کے حامی اس طرح کے دلائل دیتے ہیں۔ ان کی تاویلات بھی ’’حقانیت‘‘ سے عبارت ہوتی ہیں۔
مخالفین کا اپنا بیانیہ ہوتا ہے۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء اور الیکشن کمیشن کے فیصلے میں اٹھائے گئے قانونی نکات ہر دو پر لمبی چوڑی بحث ہوسکتی ہے ۔
اس سارے قصے میں میرے لئے اہم ترین عارف نقوی کا معاملہ ہے۔ ابراج گروپ والے عارف نقوی کو خان صاحب نے چند دن قبل ’’ولی اللہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ لگے ہاتھوں انہیں آغا حسن عابدی ثانی بھی قرار دیا۔
سادہ سی بات یہ ہے کہ عارف نقوی ولی اللہ یا آغا حسن عابدی نہیں ایک سکہ بند پیدا گیر ہے۔ اپنی پیداگیریوں کی پردہ پوشی کے لئے اس نے بہت سارے ’’خول ‘‘ چڑھارکھے ہیں۔ کے الیکٹرک اسی کی کمپنی نے لیا تھا۔ اربوں روپے مالیت کی کاپر تاریں اس کے ہرکاروں نے کے الیکٹرک کی حدود سے اتاریں اور بیچ دیں۔ معاہدہ میں ایسا کچھ نہیں لکھا تھا اس کھلے فراڈ پر جنرل مشرف اور عمران خان اس کے حامی رہے اور ہیں۔
عارف نقوی پر امریکہ میں منی لانڈرنگ کے ساتھ کچھ مالیاتی گھپلوں کے الزامات ہیں۔ یہ کیس ہمارے مہاتما کے گلے میں بھی پڑسکتا ہے۔
ان کی حکومت کی رخصتی کے بعد امریکی سازش کے بیانیہ پر ان سطور میں عرض کیا تھا امریکی سازش کا بیانیہ پیشگی دفاعی حکمت عملی ہے اب بھی یہی رائے ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر پی ٹی آئی کے ناقد کی حیثیت سے دھمال ڈالی جاسکتی ہے لیکن ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا کے اپنے اکائونٹس پر اڑھائی تین سطری بات کی تھی یہاں د ہرائے دیتا ہوں۔ یہ وضاحت بھی کہ یہ اڑھائی تین سطریں طنزومزاح نہیں بلکہ زندہ حقیقت ہیں۔
” ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں دہائیوں سے مساجد و مدارس کی تعمیر، مدارس کے اخراجات کے لئے بیرون ملک سے چندے اکٹھے کئے جاتے ہیں۔ این جی اوز بیرونی فنڈنگ پر چلتی ہیں انتخابات کے دنوں میں بعض میڈیا ہائوس جمہوریت اور شہری آزادیوں کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں سے معقول معاوضہ پر اشتراک عمل کرتے ہیں۔ ہماری ریاست نے افغانستان میں لڑی گئی امریکہ سوویت جنگ کو جہاد افغانستان کا نام دیا۔ یہ پورا جہاد بیرونی فنڈنگ سے لڑا بھڑا گیا ککھ پتی کنگلے کروڑ و ارب پتی بن گئے ”
افغان جہاد کے برسوں میں کس نے کون سا کاروبار کیا۔ جوانی کے ماہ و سال میں توہم تڑاخ کے ساتھ ان افسروں، مولویوں، جہادیوں اور وچولوں کے نام لکھ دیا کرتے تھے جنہوں نے اسلحہ اور ممنوعہ اشیا کے دھندے کئے ان برسوں میں خوب مال کمایا غالباً پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کے پانچویں یا چھٹے سال میں ’’نیوزویک‘‘ نے دنیا کے سات امیر ترین جرنیلوں کی فہرست شائع کی تھی اس میں ہمارے بھی دو جنرل تھے۔
وہ کیسے امیر ہوئے نیوز ویک میں درج تھا۔ اب جوانی کب کی لد گئی بوڑھاپا مسلط ہے معاف کیجئے گا ستائیس تیس برس قبل لکھے پہ قائم تو ہوں لیکن مکرر عرض کرنے سے معذرت پہلے کون سا ستارہ جرات مل گیا تھا وہ سب لکھ لکھاکر جو اب ’’نشان حیدر‘‘ مل جائے گا۔
مختصراً یہ کہ ہماری دو رخی افغان پالیسی جہادی اور پھر انسداد دہشت گردی والی دونوں فارن فنڈنگ سے ہی عبارت تھیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتا کہ پی ٹی آئی یا عمران خان کی فارن فنڈنگ درست بلکہ ’’جائز‘‘ ہے۔ قانون کو اپنا راستہ خود بنانا چاہیے۔ میرا سوال تو فقط یہ ہے کہ جب اس ملک میں ریاست کی چھتری کے نیچے فارن فنڈنگ ہوتی رہی، بعض اقسام کی فارن فنڈنگ سے مالکان ریاست تک فیض یاب ہوتے رہے تب اس پر کتنی آوازیں اٹھیں؟
مجرموں کے ہجوم میں سے ایک شخص یا جماعت کو نشانہ بنانے سے کیا حاصل ہوگا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ تبلیغ و ترویج، دین و مسالک کے لئے فارن فنڈنگ حلال، جہادی کاروبار کے لئے سوفیصد حلال اور ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لئے سیاست کرنے والوں کی فارن فنڈنگ ممنوعہ، قابل گرفت، حرام وغیرہ۔ بات کچھ جچی نہیں۔
رہی انصافیوں کی تاویلات تو یہ ان کی اپنی تاویلات ہیں۔ پیسہ ملک میں آیا جرم کیسے۔ آیا تو ملک میں۔ لے کر تو نہیں بھاگا۔ یہ اور اس طرح کی بچگانہ باتوں پر تبصرے کے لئے وقت برباد کرنے کا فائدہ کوئی نہیں۔
چلئے میں ایک اور سوال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پچھلے 6ماہ کے دوران ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب ڈالر پاکستان سے افغانستان لے جائے گئے۔ یہ رقم کیسے گئی، اجازت سے، سمگل ہوکر، کمیشن خور کون ہیں۔ اس پر سوال جرم کیوں ہے۔
افغان معیشت کو سہارا دینے کے لئے اپنی معیشت کوبرباد کرنے کے ذمہ داران قانون کے سامنے جوابدہ بنائے جاسکتے ہیں؟
نہیں نا۔ تو بس یہی عرض کرنا تھا۔ ہمارے یہاں پچھتر برسوں کے دوران سب سے زیادہ محنت جھوٹ کو سچ اور فراڈ کو ایمانداری ثابت کرنے پر ہوئی۔
خیر چھوڑیئے ان باتوں پر مغز کھپانے کا کیا فائدہ، پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ والے معاملے پر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء کیا کہتا ہے۔ اچھا ویسے ہمارے انصافی دیوتا کے وکلاء نے پچھلے آٹھ برسوں میں الیکشن کمیشن میں زیرسماعت معاملے کو کھڈے لائن لگانے کے لئے کتنی بار عدالتوں سے رجوع کیااور عدالتوں نے ریلیف دیا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔
انصافی دوست اور دیوانے ناراض ہوں گے ان کے اس موقف کی حمایت نہ کرنے پر کہ ان کے ساتھ پی پی پی اور (ن) لیگ کے فارن فنڈنگ کیسوں کا فیصلہ بھی سنایا جانا چاہیے تھا۔
یہ درست اور جائز مطالبہ نہیں انہیں بھی حکم امتناعیوں اور دوسرے ہتھکنڈوں سے 8سال پورے کرنے دیئے جائیں۔ ہوسکتا ہے کہ 8سال پورے ہونے پر جب ان کے خلاف فیصلہ آنے لگے تو اس وقت کے چیف الیکشن کمیشن کو کوئی عسکری نابغہ فون کرکے کہے پی پی پی اور (ن) لیگ کے خلاف فیصلہ سنانے کی بجائے استعفیٰ دے کر گھر جائو۔
فقیر راحموں کہتے ہیں (ن) لیگ کے لئے تو عین ممکن ہے کسی ’’نابغے‘‘ کی محبت جوش مار جائے۔ پیپلزپارٹی کا نام سن کر صرف دانت پیسے جائیں گے۔
ایک تو یہ فقیر راحموں خود ازلی گمراہ ہے ہمیں بھی اپنے رنگ میں رنگنے کی کوششوں میں جتا رہنا ہے۔ ہم اس کے شر سے محفوظ رہنے کیلئے ہاتھ پاوں مارتے ہیں
ہم پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے پر بات کررہے تھے۔ گزشتہ 24گھنٹوں سے بیرون ملک مقیم چند خواتین و حضرات کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر دوڑ بھاگ رہی ہیں وہ الیکشن کمیشن کو کوس رہے ہیں۔
سچ پوچھیں ان کا کوسنا بنتا بھی ہے اور انہیں ” سجتا ” بھی ہے ، مجھے معاف کیجئے گا میں اس فیصلے پر حکمران اتحاد کی دھمالوں سے لطف اندوز ہوا نہ جیالے دوستوں کے دلائل سے متاثر ہوا۔
وجہ مکرر عرض کردیتا ہوں ’’جس ملک میں مساجد و مدارس کی تعمیر اگلے مرحلے کے اخراجات، این جی اوز کے کاروبار اور جہادی پروگرام کے لئے فارن فنڈنگ حلال رہی اور ہے اس میں اگر تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ لے لی تو جرم کیا ہے؟ ”
ہاں اگر یہ عمل گناہ ہے تو بندگان خدا
’’ایک گناہ اور سہی‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر