مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائيکی وسیب میں سیلاب کی تباہی ریاست خاموش تماشائی||عبدالہادی بلوچ

پاکستان میں ایریگیش ڈیپارٹمنٹ موجود ہے ہیڈ اور بیراج موجود ہیں محکمہ موسمیات بھی موجود ہے جو کہ ہر وقت پانی کو مونیٹر کر آ رہا جب کے ہر لمحہ کی خبر دے رہا ھے کب کہاں سے کتنا پانی گزرے گا کہاں کہاں انسانی بستیوں کوں خطرہ کیا ریاست نے کوی اقدامات اٹھاے ؟ اس سارے عمل میں ریاستی کردار صرف خاموش تماشائی کا تھا . نوٹ میکوں پتہ ہے جو میڈی ایں پوسٹ دے بعد جہرا رد عمل آونڑے

عبدالہادی بلوچ

………………………

ایک ہی لفظ ذد عام ہے کہ وسیب پر قدرتی آفت آ پڑی ایک بات واضح کرتا چلو یہ کوی قدرتی آفت نہیں .
دامان میں بارشوں کا پانی ندی نالوں سے گزرنا کوی نٸی بات نہی یہ وہ پانی ہے مسلسل کی صدیوں سے یہاں سے گزر رہا ہے دامان کے واسی تو رواتی طریقے سے اس پانی کو جمع کر کے سارا سال پینے اور فصل کاشت کرنے کے لیے استمعال کرتے تھے آخر کیا ہوا اس برساتی پانی کو جو سیلابی شکل اختیار کر گیا اور تباہی مچا دی.صاف ظاہر ہے جب پانی کے قدرتی راستوں کو رکا جاے گا تو پھر پانی اپنا راستہ خود بناے گا بلکل یہی صورتحال 2010 کے سیلاب کی کوی جب بھی کبھی معمول سے تھوڑی ذیادہ بارش ہو ندی نالوں میں پانی سیلابی صورت اختیار کر جاتے ہے دراصل مسلہ ریاست کا ہے جو مقامی لوگوں کی راۓ اور ضرورت کا خیال نہی رکھتی بس بند کمرے میں چند بندے بیٹھ کر فیصلے کر تے ہیں اور نتجہ بھر عام لوک ہی بھگتے ہیں اور ریاست پھر انہے اپنانے کوں تیار نہی ہوتی
ذیادہ دور کی بات نہی بنگلہ دیش بھی اس طرح کی سیلابی صورتحال سے ہم کنار تھا اور ریاست نے بے حسی دیکھای اور نتجہ اپ کے سامنے ہے ان کوں الگ وطن بنا کے دینا پڑا یہ ملک عام لوگوں کا ملک ہیں انہوں نے اس کے لیے قربابیاں دی اور حکمرانی کا بھی انہیں کا حق ہے یہ لوگ ہیں توں ریاست ہے یہ نہ ہو توں کس پے حکمرانی کرے گے.
میری تحصیل تونسہ کے چند اشخاص سے گفتگو ہوی جو میں سمجھتا ہو اس سنگھڑ نالے کا اور یہاں سے گزرنے والے پانی کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اج کی اس تباہی کی ایک وجہ سابقہ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو ٹھرایا جاے تو غلط نہ ہوگا انہوں نے جو ترقی کا جال کوہ سلمیان میں بجھایا اس کو سب سے بڑی وجہ سیلاب کی قرار دیا جا رہا سابق صدر مرحوم سردار فاروق لغاری کے نقش قدم پر چلتے ہوے اپنے گھر بارتھی کے لیے متعدد راستے بناے جن میں سے ایک تونسہ سے بستی منگھروٹھہ سے ہوتا ہوا بارتھی جاتا ہے اس راستے سے سنگھڑ کے مقام پر ایک پل تعمیر کی گٸ اس پل میں اعلی درجے کی نالاٸق کا مظاہرہ کیا گیا اس طرح پل کے شمال جنوب سے بندھ باندھے گے کے سنگھڑ کی چوڑای کو مذید جھوٹا کیا گیا تاکہ پل کی لمباٸ کم ہو اور مال ذیادہ بنے جو کے سابق وزیراعلی کے بھای کی زیر نگرانی بنی گی جیسے ہی رود کوہی کا پانی اس پل سے گزرا اور اس کو مطلوبہ راستہ نہ ملا تو اس اعلی پاۓ کی بنی ہوی پل کو بہا لے گیا اور چند روز پہلے اسی سنگھڑ نالے کے بند کو بااثر زمینداروں نے توڑا اور رود کوہی کا پانی چشمہ راٸٹ بینک کنال میں ڈالا گیا رودکوہی کے پانی کو راستہ تو پہلے سے ہی بنا کے دے چکے تھے جسے ہی بارشیں معمول سے تھوڑی ذیادہ ہوی یہ پانی مقامی آبادیوں کو بہا کے لے گیا جس میں متعدد موضے مکمل زیر آب آ گے تقریبن ایک ہزار ایکڑ رقبہ پر کاشت فصل تباہ ہو گی جس سے سات ہزار کے قریب گھر مکمل طور پر تباہ ہوے درجنوں لوگ اس پانی میں بہے گے کٸ کی لاشیں ابھی تک نہیں ملیں اور پجوں کی لاشیے بہتے پانی سے ملیں متعدد جانور اس پانی کی ذد میں اے مگر محفوظ رہے تو وہ اشخاص جو اس کا سبب بنے یہاں سوال تو بنتا ہے ان کے خلاف تحقیقات کون کرے گا ؟ ان کو سزا کب ملے گٸ؟اور ان کو سزا کون دے گا؟ یہ تو صرف سنگھڑ نالے کی تباہی کا منظر نامہ جو کہ موضع گونا, موضع چٹ پانی,موضع جٹ گاڈی اور گاڈی شمالی سے ہوتا ہوا چوکیوالا پے آ پہنچا وگرنہ کب ادھر سیلابی پانی آے
شادن لنڈ کے علاقے سوری لنڈ سے گزنے والے رود کوہی کی صورتحال سنگھڑ سے مختلف نہی ڈیرہ غازی کا موضع چٹ سرکانی بھی مقامی سرداروں کی تاب نہ لاتے ہوۓ زیر آب آگیا وڈور نالے کا پانی بجاے مقامی آبادی کو پچانے کے آبادی کے قریب سے بند کو توڑا گیا کیونکہ اگر چٹ سرکانی کی آبادی کو بچایا جاتا تو مقامی سرداروں کے فارم اور فصل زیر اب آتی تھی انہیں بچانے کے لیے انسانی بستیوں کو ڈبو دیا گیا. کیا قدرتی آفات اس طرح ہوتی ہیں ؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں انہیں قدرتی آفات تو نہیں کہ سکتے البتہ سردار آفات,حکومتی اور ریاستی آفات کہ سکتے ہیں.
پاکستان میں ایریگیش ڈیپارٹمنٹ موجود ہے ہیڈ اور بیراج موجود ہیں محکمہ موسمیات بھی موجود ہے جو کہ ہر وقت پانی کو مونیٹر کر آ رہا جب کے ہر لمحہ کی خبر دے رہا ھے کب کہاں سے کتنا پانی گزرے گا کہاں کہاں انسانی بستیوں کوں خطرہ کیا ریاست نے کوی اقدامات اٹھاے ؟ اس سارے عمل میں ریاستی کردار صرف خاموش تماشائی کا تھا .
اج ڈیرہ اسماعیل خاں سے لے کر راجن پور تک سرائيکی وسیب میں دامان کا علاقہ تقربن سات لاکھ ایکڑ رقبہ زیر آب آ چکا ہے تقربن پانچ سو کے قریب بستیاں زیر آب آ چکی ہیں سیکنڑوں جانور پانی میں بہ گے متعدد لوگوں اور بچوں کی لاشیں پانی میں تیرتی ملی اگر اسے سرائيکستان کی کربلا سے تشبیع دیا جاے تو غلط نہ ہوگا دل دہلا دینے والہ منظر نامہ اج دامان کا ہے آ کے دیکھے کوی کس طرح لوگوں کی جمع پونجی پانی میں بہ گٸ !! آ کے دیکھے کوی کس طرح لوگوں کے گھر مسمعار ہوے کیسے ماوں بہنوں کے پردے پل پھر میں لٹ گے اور وہ بے یار مددگار سٹرکوں پر کسی مسیحا کو تک رہی ہیں کوی آ کے اس باپ کی داد رسی تو کرے جس کا جوان سال بیٹا پانی میں بہ کے لقمہ اجل بن گیا کوی آ کے اس ماں کی حالت دیکھے جو اج بھی اپنی بیٹی کی لاش کے انتظار میں بیٹھی ہے کب کوی مسیحا اس کی بیٹی کی لاش تلاش کرکے دیا گا کوی آ کے پوچھے اس بھای کا حال جس کو اپنے معصوم بھای کی لاش ایک پرجھی پر تیرتی ہوی ملی کوٸ آ کے اس باپ کا حال پوجھے جس کا پورا خاندان پانی میں بہ گیا جو اج خود موت کی دعاٸیں مانگ رہا ہے کہتہ ہے میں کس کے لیے زندہ رہوگا؟ کاش میں بھی اپنے خاندان کے ساتھ لقمہ اجل بن جاتا کوٸ آ کے پوچھے اس بہن سے جس کا جہیز پانی کی نظر ہوگیا ہو کٶٸ آ کے پوچھے اس ماں باپ سے کتنا پسینہ بہا تھا بیٹی کا جہیز بنانے میں کوی آ کے پوچھے اس کسان کا حال جس کی امیدیں اس کی فصل سے وابستہ تھی جو کہ پانی میں بہ گی کوی آ کے پوجھے اس بچے کا حال جس کے والدین کے مال مویشی پانی میں بہ گے جسے فروخت کر کے اس بچے نے اپنی جوتی اور کپڑے لینے تھے.
افسوس افسوس صد افسوس ان کا حال پوچھنے والا کوی نہیں ۔اگر چند شخص موجود بھی ہیں تو اپنے فوٹو سیشن سیر وتفریح اور چینل کی ریٹنگ کے لیے . ریاست ماں ہوتی ہے کیا کوی ماں اس طرح اپنے بچوں کو تڑپتا دیکھے گی؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں
تاریخ اپنے اندر یہ لمحات ضرور قلمبند کرے گی جب میرا وسیب ڈوب رہا تھا تخت لاہور میں اقتدار کی جنگ لڑی جارہی تھی تاریخ اپنے اندر یہ الفاظ ضرور مخفوظ رکھے گی جب میرا ڈیرہ غازی خان ڈوب رہا تھا منتخب نماٸندے شہر میں تخت لاہور کی فتح کا جشن منا رہے تھے تاریخ اپنے اندر یہ لمحات ضرور محفوظ رکھے گی جب دامان ڈوب رہا تھا ریاست خاموش تماشائی تھی آۓ کاش اس ریاست کے کان اتنے بڑے ضرور ہوتے وہ میرے وسیب کی چیخ و پکار سن سکتے آۓ کاش میری ریاست کی آنکھیں اتنی تو تیز ہوتی وہ میرا وسیب ڈوبتا دیکھ سکتی آے کاش اس کا ضمیر اتنا سا تو ذندہ ہوتا وہ میرے وسیب کا دکھ درد محسوس کرسکتے.
آو وسیب واسیوں !! اپنی مدد اپ کرو
آخر میں ایک شعر

وقت دے حاکم
فرش دے لوکو
مٹی جائیں دے پاسے ڈیکھو
رلدیاں لاشاں
لڑھدے بچے
رو رو کے ارداساں ڈیندن
وسبہ بڈ گۓ
ھوش سنبھالو
اندھے لوکو
اکھیں بھالو

تہاڈا نیازمند انجینر عبدالہادی خان گاڈی مرکزی صدر یوتھ ونگ پاکستان عوامی سرائيکی پارٹی

.

طلبہ یونين بحال کرو۔۔۔عبدالہادی بلوچ

سرائيکی صوبہ ناگزیر کیوں۔۔۔عبدالہادی بلوچ

ہادی بلوچ دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: