رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلے وقتوں کے ایک پرانے گانے کے بول ذہن میں گردش کرنے لگے: ”سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا ‘‘۔ خیر پھر بھی ہوش میں آجائیں تو بڑی بات ہے۔ آدمی سنبھل جاتا ہے۔ جو کھو بیٹھے اس کے اسباب تلاش کرتاہے ‘ غلطیوں سے سیکھتا اورجو گزر گیا اسے زمین میں دفن کر کے آگے کی سوچتا ہے۔
دنیا کا کوئی کامیاب انسان اپنے نظریات ‘ معیار اور منصوبوں کے مطابق ایسا نہیں ہوگا جو یہ کہہ سکے کہ کہ کچھ وقت کے لیے نئی راہوں میں نہ کھو گیا ‘ شکوک و شبہات کا شکار نہ ہوا اور اسے زندگی میں ناکامیوں کا منہ نہ دیکھنا پڑا۔ ہر عقلمند آدمی دوسروں کے تجربات‘ مشاہدات اور سب سے زیادہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر گوہرِزندگی تلاش کرتا ہے۔ بے وقوفوں کی بات ہے کہ وہ تدبر سے خالی ہو جاتے ہیں اور زیادہ تر احساسِ زیاں رکھتے ہی نہیں۔ غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ وہی لوگ جنہیں عوامی زبان میں بڑے کہتے ہیں ‘ گرچہ وہ اخلاقی احساس اور عوامیت کے جذبے سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔ اپنے دیس میں تو اُنہیں کنویں کے مینڈک کی طرح محدود سیاسی اور سماجی دائروں میں زندگی گزارتے دیکھا گیا ہے۔ کچھ ایسے رویے انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں کہ اگر اُنہیں معروضی پیمانوں کی رُو سے دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کی پہلی ‘ دوسری کلاس سے آگے بڑھنے کی استعداد بھی ان میں پیدا نہ ہوسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرسی ابا اور دادا حضور کے سماجی چبوترے پر مضبوطی سے دھری ہو‘اور آپ کو اس پر بٹھا دیا جائے تو اس میں آپ کے دماغ‘ سیاسی سمجھ بوجھ‘ آزادی کی جدوجہد کا کیا تعلق ہے ؟ کنویں کے مینڈک کی طرح وہ بھی وہی کرتے ہیں جو ان کے بڑے کرتے آئے تھے۔ ذہن کھلتے نہیں‘ بند رہتے ہیں‘ شخصیت پروان نہیں چڑھتی‘ جھوٹ اور سچ کے پیمانے وراثت میں ملے تھے۔ انہی کو وہ اخلاقی معیار بنا لیتے ہیں۔ اس میں استثنا کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ہم سب کو ایک ہی زمرے میں شمار نہیں کرتے۔ بہت سے موروثی خاندانوں کے مرد و خواتین نے اپنا مقام بنایا‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کی‘ سیاسی جدوجہد بھی کی۔ ان کے نام گنوانا شروع کروں تو مضمون کسی اور طرف نکل جائے گا۔ بات تو ہم غالب اکثریت کی کر رہے ہیں جو اس وقت بھی خلقِ خدا پر راج کرنے کی آسمانی سند رکھنے کی دعوے دار ہے۔
تیرہ جماعتوں کے قائدین پر ایک نظر دوڑائیں تو بات واضح ہو جائے گی کہ کرسیاں انہیں وراثت میں ملیں اور ان سے چمٹے رہنے کے گر اُنہوں نے پاکستانی سیاست کے بازار سے سیکھ لیے ہیں۔اس بازار میں اور بکتا ہی کیا ہے ؟ سوائے کرسی کے اور ایسے فارمولوں کے کہ اسے قبضے میں کیسے لانا ہے اور اگر آجائے تو پھر اس کے زور پر اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی قسمت بدلنے کے لیے کیا کرنا ہے ؟ باقی عوام اور ملک جانیں اور ان کا کام۔ دس اپریل کی رات سے لے کر آج تک جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ملک سدھارنے کا وہ کون سا انقلابی نظریہ تھا؟ معیشت بحال کرنے کی کون سی منصوبہ بندی تھی؟ یا سماج بدلنے کا فارمولا کیا تھا؟ کیا ہوا تھا جس نے ماضی میں باہم دست وگریباں رہنے والوں کو یکجا کر دیا؟
دراصل تیرہ کو ایک کا خوف تھا کہ وہ موروثی کرسیاں‘ جو کپتان نے بیس سال سے ٹھوکریں مار مار کر ڈھیلی کردی تھیں ‘ کہیں ٹکڑے ٹکڑے ہوکر زمین بوس نہ ہوجائیں۔ جو اقتدار میں بار یاں لے کر اپنی قسمت بدلی تھی‘ ان کی پاداش میں کہیں قید نہ ہوجائیں۔
انسانی فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خطرہ بڑھ جائے تو بڑے اتحادوں میں عافیت تلاش کی جاتی ہے کہ اکیلے مقابلے میں تو مارے جائیں گے۔ نظریاتی‘ سیاسی‘ ذاتی اختلافات ‘ یہاں تک کہ ایک دوسرے کو انتقامی کارروائیوں اور تشدد کا نشانہ بنانے کی عام تلخیاں دور سمندر میں پھینک دیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے‘ اور انسانی تاریخ ایسی ہے کہ مخالف طاقتور ہو تو مل کر مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ماضی کی چھوٹی بڑی جنگوں اور سیاسی اور سماجی تحریکوں کا بھی یہی معاملہ ہے لیکن یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ کوئی طاقتور حریف ہے تو سہی اور آپ اکیلے‘ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اچھا کیا کہ مل کر پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مقابلہ کیا‘ مگر پھر بھی اس نے ایسا دھوبی پٹرا مارا کہ تیرہ جماعتی اتحاد کے ہوش ایسے اڑے کہ بحال ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
آج کی پاکستانی سیاسی تقسیم اور تصادم اور ماضی میں ایسے مقابلوں میں فرق ہے۔ اب ایک طرف موروثیوں کے جتھے ‘ان کی خدمت میں زبان چلانے والے سینکڑوں ہرکارے ہیں اور دوسری طرف کپتان‘ جو ایک طویل جدوجہد‘ ان سب کی ماضی کی سیاست اور اپنی قسمت سدھارنے کی پالیسیوں کے خلاف بیانیے اور تحریک کے دور میں سیاست میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد یہ سب پرانے کھلاڑی ایک کھلاڑی کے خلاف آصف آرا ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کی سیاسی دکان اور کاروبار‘ جس میں یہ مہارت رکھتے ہیں ‘دوبارہ نہیں چمک پائے گا۔ اگرچہ ان کی حکومت ہے ‘ لیکن اس نے اُنہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ کبھی عدالتوں کے دروازے‘ تو کبھی دھرنا ‘کبھی جلسہ ‘کبھی سڑکوں پر جلوس۔ 2018ء میں نتائج مکمل ہونے سے پہلے ہی خوف ایسا طاری ہوا کہ ابھی تک جانے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
عوام میں جانا یا اکثریت حاصل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ جوڑ توڑ‘ دھڑا بندی اور سیاسی منڈیوں کا کاروبار جو وہ ایک عرصہ سے کرتے آئے ہیں وہ بھی کپتان کی مقبولیت کے سامنے کارآمد نہیں ہوا۔ سیاست کا ماحول تبدیل ہوجائے تو پرانے حربے کام نہیں آتے۔ پنجاب کا انتخابی معرکہ پانی پت کی آخری لڑائی تھی۔ اب تو میدان ایک کھلاڑی کے قبضے میں آ چکا۔ قوم کی واضح اکثریت اس کے ساتھ ہے۔ نوجوان متحرک ہیں۔ وہ کال دیتا ہے تو لاکھوں لوگ پاکستان کے ہر قصبے‘ گاؤں اور شہر سے باہر نکلتے ہیں۔ موروثی سیاستدانوں کے پاس اب کچھ نہیں رہا۔ اگر ہے تو اندرونِ سندھ کی وڈیرہ شاہی‘ اسلام آباد کی سلطنت اور اس کا وزیر داخلہ جو ہمارے دور کی فلموں کے مظفر شاہ کی طرح بڑھکیں مار رہا ہے۔ پاکستان کی زمینی سیاست کا رنگ آپ کو اچھا لگے یا برا‘ اسے عمران خان نے تبدیل کر دیا ہے۔بیداری کی سماجی ساخت‘ اور اس کی داخلی حرکیات کی طا قت اور وسعت کا موروثی اور ان کے ہم زبان توپچی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پنجاب میں آپ نے صرف ٹریلر دیکھا ہے۔ جب پوری فلم ‘ اس سال ‘ یا اگلے سال چلے گی تو پتا چل جائے گا۔ جب تاریخ سے کچھ سیکھا ہی نہیں تو آپ کی مرضی! تیرہ مل کر بھی تاریخ کا پہیہ آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر