نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل جمہوریت ||مبشرعلی زیدی

مجھے اسپارٹیکس کے سوا تاریخ میں کوئی ایسا کردار پسند نہیں جس نے ہتھیار اٹھایا ہوا۔ اسپارٹیکس نے کسی مذہب یا نظریے کی ترویج کے لیے نہیں، غیر انسانی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے ہتھیار اٹھایا تھا۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابد میر، فہد رضوان اور ڈاکٹر علی شاذف محض فیس بک فرینڈ نہیں، میرے دل کے قریب ہیں، حالانکہ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ شاذف بھائی سے ایک بار سامنا ہوا تھا لیکن اسے ملاقات نہیں کہہ سکتے۔
یہ تینوں دوست مارکسسٹ یا سوشلسٹ ہیں۔ میں ایسے خیالات رکھنے والے تمام دوستوں کا پرستار ہوں۔ اس بے رحم دنیا کو ٹھیک کرنے کے لیے سوشلزم نظریے کی ضرورت ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے، نہایت معذرت کے ساتھ اپنی انتہائی ناقص رائے عرض کررہا ہوں کہ اسلام، مسیحیت، ہندوازم، صہیونیت، کمیونزم، دنیا میں کچھ کامیاب نہیں ہوا۔ عملی طور پر سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل جمہوریت ہی کامیاب ہے۔
میں کسی کو درست یا غلط قرار نہیں دے رہا، برآمد ہوئے عملی نتائج کی بات کررہا ہوں۔
سوویت یونین کا حشر ہم سب جانتے ہیں۔ جمال نقوی کی مختصر سی کتاب پڑھ لیں۔ کوئی ان سے زیادہ نظریاتی ہوگا؟ چین کا حال دیکھ لیں جو نام کو سوشلسٹ ہے لیکن اب وہاں امریکا جتنے ارب پتی سرمایہ دار پائے جاتے ہیں۔
یہ تو ایک بات ہوئی، دوسری بات چے گویرا کی ہے جس پر اصل اختلاف ہوا۔ وجاہت بھائی نے گویرا سے متعلق کچھ باتیں لکھیں جو بھائی عابد میر کو زیادہ بری لگ گئیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وجاہت بھائی کے اپنے خیالات ہیں، آپ کے اپنے۔ گویرا کے بارے میں ہر طرح کی بات کتابوں میں لکھی ہے۔ میں نے دونوں طرف کی کتابیں پڑھی ہیں۔ ایک میں وہ انقلابی فرشتہ ہے اور دوسری میں دہشت گرد۔
سوشلزم کے بارے میں اچھی رائے رکھنے کے باوجود میں گویرا اور اس جیسے کسی شخص کو پسند نہیں کرتا۔ مجھے گاندھی اور نیلسن منڈیلا پسند ہیں جو عدم تشدد کے علمبردار تھے۔
مجھے اسپارٹیکس کے سوا تاریخ میں کوئی ایسا کردار پسند نہیں جس نے ہتھیار اٹھایا ہوا۔ اسپارٹیکس نے کسی مذہب یا نظریے کی ترویج کے لیے نہیں، غیر انسانی غلامی سے آزاد ہونے کے لیے ہتھیار اٹھایا تھا۔
اگر آپ گویرا یا کسی بھی نظریے کے حامی کے ہتھیار اٹھانے کی حمایت کرتے ہیں تو ط ا ل ب ا ن کی مخالفت کا جواز نہیں رہتا۔
مارکس نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ اگر اسٹالن اور گویرا جیسوں کو فراموش کردیں تو مارکس کا درجہ پیغمبروں جیسا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہم لوگوں کو شخصیات کے بجائے عظیم خیالات کا وفادار ہونا چاہیے اور مذہبی شدت پسندوں جیسا رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author