نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چارلس سوبھراج کی سرگزشت||مبشرعلی زیدی

چارلس سوبھراج کی سرگرزشت سسپنس میں تاریک سفر کے نام سے چھپی تھی۔ میرا خیال ہے کہ احمد اقبال صاحب نے اسے ترجمہ کیا تھا۔ بعد میں اسے کتابی صورت میں چھاپا گیا۔ آج میں وہی پیش کررہا ہوں۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارلس سوبھراج ایک لیونگ لیجینڈ کا نام ہے، زندہ ولن، جسے بکنی کلر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
میں 1985 میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب سسپنس ڈائجسٹ میں چارلس سوبھراج کی سرگزشت سلسلہ وار چھپی۔ میں انچولی کی نورانی مسجد میں قائم اقبال لائبریری سے سسپنس ڈائجسٹ لے کر پڑھتا تھا۔ یہ کہانی بہت دلچسپ تھی۔ لیکن یہ فکشن نہیں تھا۔ سب کچھ سچ تھا۔ اس وقت سرگزشت نہیں چھپتا تھا ورنہ شاید اسے وہاں شائع کیا جاتا۔
میں نے بعد میں سسپنس اور سرگزشت شائع کرنے والے ادارے میں کچھ عرصہ کام کیا۔ وہ قصہ بھی کبھی لکھوں گا۔
چارلس سوبھراج کی سرگرزشت سسپنس میں تاریک سفر کے نام سے چھپی تھی۔ میرا خیال ہے کہ احمد اقبال صاحب نے اسے ترجمہ کیا تھا۔ بعد میں اسے کتابی صورت میں چھاپا گیا۔ آج میں وہی پیش کررہا ہوں۔
احمد اقبال ساری زندگی ڈائجسٹوں کے لیے لکھتے رہے اس لیے اردو کے ادیبوں اور نقادوں نے ان پر توجہ نہیں دی۔ وہ بہت بڑے ادیب اور مزاح نگار ہیں۔ ان کی سیریز بھورے ماموں کالے خاں بھی سسپنس میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا شمار اردو کے اعلی ترین مزاح میں کیا جانا چاہیے۔
بات چارلس سوبھراج کی ہورہی ہے۔ آپ نے فلم ڈان میں امیتابھ بچن کا ڈائیلاگ سنا ہوگا، ڈان کا انتظار گیارہ ملکوں کی پولیس کررہی ہے۔ یہ ڈائیلاگ چارلس سوبھراج کے لیے بالکل درست تھا۔ اس نے کئی ملکوں میں جرائم کیے، سیاحوں کو لوٹا، انھیں قتل کیا اور گرفتار کیا گیا تو جیل توڑ کے بھاگا۔ خیال ہے کہ اس نے تیس قتل کیے۔
میں جو کتاب اپ لوڈ کررہا ہوں، یہ 1985 تک کی کہانی ہے۔ چارلس سوبھراج زندہ ہے اس لیے بعد میں اور بہت کچھ ہوا۔ اس پر اب تک چار کتابیں، تین دستاویزی فلمیں، ایک انڈین فلم اور ایک نیٹ فلکس سیریز بن چکی ہے جس کا نام سرپینٹ ہے۔
چارلس سوبھراج 78 سال کا ہوچکا ہے، اس کے دل کے کئی آپریشن ہوچکے ہیں اور وہ نیپال کی جیل میں قید ہے۔ شاید زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے، لیکن اس کا نام طویل عرصے تک بھلایا نہیں جاسکے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author