عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر عبدالحق کی آپ بیتی میں ‘تھل کی زمینوں’ کو اُن کے مقامی مالکان سے چھیننے جانے کا قصہ پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کالونیل دور میں برٹش سرکار کا بیوروکریٹک ڈھانچہ کس طرح سے مقامی باشندے کو بے سروسامان کرنے کی وہ بنیاد رکھ رہا تھا جس کی تکمیل پاکستان بننے کے بعد ‘تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ” کے زریعے سے ہوئی –
مہر عبدالحق جب’ ملتانی بولی ‘(سرائیکی) اور اس کے دیگر تمام لہجوں (اچوی، ڈیروی، ریاستی وغیرہ) کے درمیان اشتراک تلاش کرکے لسانیاتی اصولوں کی مدد سے کو ایک زبان ہونے کے سامنے لاتے ہیں اور پنجابی زبان سے اُسے الگ ثابت کرکے اردو سے اُس کا رشتا تلاش کرتے ہیں تو انھیں پنجابی بیوروکریسی لیکچررشپ دینے سے انکاری ہوجاتی ہے – لاہور کی ترقی پسند اشرافیہ اور درمیانے طبقے کے تنخواہ دار پرت کے پنجابی دانشور اُن کی تحقیق پر اُن کے دشمن ہوجاتے ہیں – لاہور کا پریس اُن کی لسانیاتی تحقیق کو اخبارات و رسائل میں جگہ تک نہیں دیتا –
مہر عبدالحق پنجابی بیوروکریسی کے شاؤنزم کو پہچان تو لیتے ہیں لیکن سرائیکی خطے کے لوگوں کو تخت لاہور سے آزادی دلانے کے لیے سرائیکی قومی سوال کے ترقی پسندانہ پہلوؤں کو لیکر سرائیکی قوم کی آزادی کے راستے کو دریافت کرنے کی بجائے علامہ اقبال، مولانا مودودی، مولانا عنایت اللہ مشرقی، پروفیسر غلام احمد پرویز کے نظریات کا ملغوبہ لیکر پین اسلام ازم پر مبنی ایک یوٹوپیا تشکیل دے کر ایک ایسا حل تلاش کرتے ہیں جس سے ‘سٹیٹس کو’ برقرار رہتا ہے – پاکستان کے غالب حکمران طبقات پر اس سے کوئی کاری ضرب نہیں لگتی-
………
بہاولپور صوبہ کے گرد سرائیکی لسانیاتی قوم پرستی کا مقدمہ تشکیل دینے والے ریاض ہاشمی ایڈوکیٹ اس کے برعکس راہ کی طرف سفر کرتے ہیں – اگرچہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیونل اپروچ کا ٹھیک تنقیدی جائزہ لینے کی بجائے اُسے جوں کا توں قبول کرتے جاتے ہیں مگر وہ اپنی جدوجہد کے سیاسی اور عدالتی میدانوں میں سفر کرکے یہ تجربہ ضرور حاصل کرلیتے ہیں کہ وہ ایک طرف تو پاکستان کے پنجابی – مہاجر بیوروکریت اشرافیہ کی دیگر اقوام کی طرف کالونیل اپروچ کو بے نقاب کرتے ہیں تو دوسری جانب وہ اُس زمانے کے پنجابی درمیانے طبقے /پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والے لیفٹ سیاسی دانشوروں کے شاؤنزم کے زیر اثر گریٹر پنجاب اور پنجابی توسیع پسندی کی حمایت کو بھی بے نقاب کرڈالتے ہیں – وہ بتاتے ہیں کہ نیپ میں لاہوری لیفٹ کی سرکردہ قیادت ( میاں افتخار الدین، محمود علی قصوری ایڈوکیٹ، سی آر اسلم، چوہدری فتح محمد وغیرہ) نیپ کے منشور سے صوبہ بہاولپور کی بحالی کے مطالبے کو خارج کراتی ہے اور چار صوبوں کی بحالی کے ساتھ ‘زائد صوبوں کی تشکیل’ کے الفاظ شامل کرنے کی سخت مزاحمت کرتی ہے اور بعد ازاں ان الفاظ کو بھی منشور سے خارج کرالیتی ہے – اور پنجابی لیفٹ اشرافیہ کا ایک حصہ بشمول محمود علی قصوری ایڈوکیٹ پیپلزپارٹی میں شامل ہوکر بھٹو کو قائل کرتا ہے کہ بہاولپور کی پنجابی لسانی ثقافتی شناخت کے علاوہ کوئی اور شناخت بنتی نہیں تو صوبہ بہاولپور کی بحال نہ کیا جائے بلکہ اسے پنجاب میں شامل کرکے پنجابی قوم کی جغرافیائی حدود میں سارے سرائیکی خطے کو شامل کرنے کی تبلیغ کرتی ہے – ریاض ہاشمی اس طرح سے سرائیکی قومی سوال کی طرف پنجابی لیفٹ کے دیوالیہ پَن کو بے نقاب کرتے ہیں –
وہ برطانوی کالونیل سامراج کی صوبوں کی تشکیل میں کہیں تو ‘لسانی ثقافتی’ بنیاد کو مدنظر رکھنے اور کہیں اسے بالکل نظر انداز کیے جانے کو بھی اچھے سے بے نقاب کرتے ہیں اور بعد ازاں پاکستان کے حکمران طبقے کی جانب سے صوبوں کے لسانی ثقافتی اکائی ہونے کی بجائے اُن کی انتظامی بنیاد پر تشکیل کے اصول کو عین نظریہ پاکستان قرار دینے کے سفر کو بے نقاب کرتے ہیں – اور بتاتے ہیں کہ برٹش کے سرائیکی علاقوں کو پہلے گریٹر پنجاب اور پھر پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبوں میں ضم کرنے اور بعد ازاں ون یونٹ کے اندر صوبہ بہاولپور کو ضم کرنے پھر ون یونٹ کو ختم کرتے وقت صوبہ بہاولپور کو بحال نہ کرنے سے پہلے سے پسماندہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کو اور زیادہ پسماندہ بنانے اور سب صوبوں سے زیادہ ترقی یافتہ و خوشحال بہاولپور ریاست کو پسماندہ بنانے کا سفر مکمل ہوتا ہے – وہ چولستان کی زمینوں اور بہاولپور ریاست کے وسائل کی لوٹ مار کرکے پنجابی علاقوں کو خوشحال بنانے اور ترقی یافتہ کرنے کے پروسس کو بھی بیان کرتے ہیں – اس سے سرائیکی قومی تناظر کی تشکیل ہوتی ہے جو تناظر آج تک خود سرائیکی قوم کے اکثر نوجوانوں کی نظر سے اوجھل ہے –
مہر عبدالحق کی آپ بیتی اور ریاض ہاشمی کا ‘بریف فار بہاولپور پرونس’ دو انتہائی اہم بنیادی تاریخی دستاویز ہیں جو سرائیکی قومی تناظر کی نظریاتی بنیادیں فراہم کرتی ہیں جسے سرائیکی خطے کے ہر نوجوان کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے –
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر