اکتوبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کہیں تو ’’زنجیرِ عدل ہلا دیں‘‘؟||حیدر جاوید سید

عمران خان جس سابق جنرل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہتے تھے خود اس نے کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت کرلی۔ کمیٹی ان سے معذرت کی وجوہات تحریری طور پر بھجوانے کا کہتی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈپٹی سپیکر (سابق قاسم سوری) کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے ایک سے زائد نکات غور طلب ہیں۔ عدالت کا مکمل فیصلہ آچکا اب یہ پبلک پراپرٹی ہے۔ اہل علم اور قانون دانوں کے ساتھ ساتھ اہل سیاست بھی اس پر اپنی آراء دیں گے۔ حست روایت فیصلے سے جن کے موقف کو تقویت ملی وہ انصاف کا بولا بالا ہوا کہیں گے۔

جن کے موقف کو دھچکا لگا ان کی رائے ویسی ہی ہوگی جیسی کچھ دن قبل سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد حسین چودھری نے ’’پاکستانی نظام عدل‘‘ اپنے تبصرے میں کہی۔

حالیہ فیصلہ "تاریخ ساز” بنتا ہے کہ نہیں؟

اس سوال سے زیادہ ہم ایسے طالب علموں کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ سپریم کورٹ کب اور کس دن اس فیصلے سے رجوع کرے گی جو جنرل پرویز مشرف کو آئینی ترمیم کا حق دینے کے حوالے سے ہے۔

وضاحت کے ساتھ عرض کئے دیتا ہوں۔ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے قابض سرکار کا یہ موقف تسلیم کیا تھا کہ اگر اکتوبر 1999ء میں حکومت نہ گرائی جاتی تو ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے قابض سرکار کا قبضہ 2سال کے لئے جائز قرار دیا اور اسی فیصلے میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو آئین پاکستان میں ترامیم کا شخصی حق عطا کردیا۔

یہ درست ہے کہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جنرل مشرف آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ترمیم نہیں کریں گے اس فیصلے کے وقت بھی ہم جیسے قلم مزدوروں کی یہی رائے تھی کہ شخصی ترمیم کا حق ہی دستور کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔

لگ بھگ 21سال بعد یہی رائے ہے کہ آئین میں شخصی ترمیم کا حق غلط اور تجاوز تھا۔

ایک یہی فیصلہ نہیں اور بہت سارے فیصلوں پر بات ہوسکتی ہے۔ پانامہ میں بلاکر اقامے میں سزا دینے یا اس سے قبل سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت میں 5سال کے لئے نااہل قرار دینے کے ساتھ سپیکر (اس وقت) قومی اسمبلی کی رولنگ کو اڑانے والا فیصلہ بھی ہمیشہ زیربحث رہے گا۔

تاریخ سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا خیال یہی ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں پر سنجیدہ مکالمہ ہونا چاہیے۔ مثال کے طورپر جناب ثاقب نثار کا بنی گالہ والے کیس میں یونین کونسل کے جعلی این او سی کو نظرانداز کرکے عمران خان کی پراپرٹی کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کا فیصلہ بھی ان فیصلوں میں شامل ہے جن پر سوال اٹھتے رہیں گے۔

ہمارے ہاں پچھتر سال میں 4 بار فوجی مداخلت ہوئی۔ نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار پائی۔ آئین کی مرحومہ دفعہ 2/58بی کے تحت منتخب حکومتوں کو بھونڈے الزامات میں برطرف کیا گیا۔

جونیجو حکومت کی برطرفی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا چونکہ اب عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جونیجو حکومت کی برطرفی غیرقانونی تھی مگر انتخابات مقررہ وقت پر ہونے دیئے جائیں۔ جونیجو حکومت کی برطرفی کے خلاف اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چٹھہ عدالت گئے تھے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کی برطرفی کو تحفظ دیا گیا۔ میاں نوازشریف کی پہلی حکومت کی برطرفی کو سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے بحال کردیا۔

یہ وہی فیصلہ ہے جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے کہا تھا

’’سجاد علی شاہ نے سندھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کو تحفظ دیا۔ میں نے اپنے کشمیری بھائی کی حکومت بحال کردی ”

طالب علم کے خیال میں جناب نسیم حسن شاہ کے اس بیان کے بعد ہر دو فیصلوں سے رجوع کیا جانا بہت ضروری تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ سے ہوئی سزائے موت کے معاملے پر بھی جسٹس نسیم حسن شاہ کی آراء تاریخ کا حصہ ہیں۔ دنیا اس فیصلے کو ’’عدالتی قتل‘‘ کا نام دیتی ہے۔ یہ فیصلہ کبھی کسی مقدمے میں بطور نظیر پیش ہوا نہ کسی نے اسے اس قابل سمجھا کہ بطور نظیر پیش کرے۔

حق یہ ہے کہ اس فیصلے سے بھی رجوع واجب تھا۔ یہ فیصلہ ہمارے نظام انصاف پر بدنما داغ ہے۔ جب تک دھویا نہ گیا موجود رہے گا۔

کیا ہی اچھا ہو کہ کسی دن مولوی تمیزالدین والے کیس کے فیصلے سے لے کر ہر اس فیصلے پر نظرثانی ہو جس سے سیاسی، آئینی، قانونی بگاڑ پیدا ہوئے۔ اور راہ چلتے چائے خانوں اور تھڑوں پر بیٹھے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’’نظریہ ضرورت کی چھتری فراہم کردی گئی ہے‘‘۔

ہونا تو بہت کچھ چاہیے لیکن عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ کوئی حکومت دستور سازی کے عمل کے ذریعے ’’وفاقی دستوری عدالت‘‘ قائم کرے اور مولوی تمیزالدین سے آج تک کا ہر وہ فیصلہ جو متنازعہ ہوا اس عدالت میں بھجوائے۔ وقت بھی مقرر ہونا چاہیے۔ دستوری عدالت کا فیصلہ حتمی ہو۔

کم از کم مجھے یہ لگتا ہے کہ اس طرح ہم اپنی تاریخ کے ان سیاہ گھٹالوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جو نظریہ ضرورت کی بدولت ہوئے۔

بہرطور یہ ہماری خواہش ہے یقیناً ہم جیسے اور بہت ہوں گے جو یہ چاہتے ہیں کہ ماضی کے جن فیصلوں (سیاسی حوالوں سے) پر تحفظات ہیں اور انہیں نظام انصاف پر بدنما داغ قرار دیا جارہا ہے۔ ان فیصلوں کا آئینی قانونی حساب کتاب واجب ہے تاکہ ہماری اگلی نسلیں یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے پُرکھے صرف بگاڑ پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اصلاح احوال کی ان میں صلاحیت کیا ہوگی۔

اس بارے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

مثلاً جج راشد ملک والا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ جج کو تو مس کنڈکٹ کے جرم میں برطرف کردیا گیا لیکن اس کا فیصلہ درست ہے۔ یہ نہ صرف ابہام بھرا فیصلہ ہے بلکہ اس سے بھی نظریہ ضرورت کو تقویت ملی۔ پانامہ کیس میں نوازشریف کے خلاف اقامے کا فیصلہ آیا۔

ایک سادہ سوال ہے وہ یہ کہ پانامہ میں جن دوسرے سینکڑوں افراد کے اسمائے گرامی تھے ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟

حق تو یہ تھا کہ ان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانے کے لئے بھی ایک نگران جج کا تقرر کیا جاتا۔

ایک درخواست اور ہے وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس نے اپنے دور میں ڈیم فنڈ قائم کیا تھا۔ عوام جاننا چاہتے ہیں اس میں کل کتنی رقم جمع ہوئی اور وہ کہاں ہے کیونکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اس رقم سے کچھ اداروں (سپریم کورٹ نہیں) کے یوٹیلٹی بلز ادا کئے گئے۔

ابتدائی سطور میں یہ عرض کرچکا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ اب پبلک پراپرٹی ہے۔ یہ فیصلہ بہت اہم ہے اور بالخصوص جسٹس مظہر عالم میاں خیل کا اضافی نوٹ بھی۔ یقیناً اس پر سنجیدہ مکالمے ہوں گے اور سوالات بھی۔

اس پورے فیصلے میں جو اہم بات ہے کہ وہ یہ کہ عدالت نے کہا ہے کہ ’’بیرونی مداخلت پر دلیل سے مطمئن نہیں، عدالتیں حقائق پر فیصلہ کرتی ہیں قیاس آرائیوں پر نہیں، مبینہ مراسلے کا مکمل متن عدالت کو فراہم نہیں کیا گیا۔ اور یہ کہ جن پر (اپوزیشن اس وقت کی) بیرونی مداخلت میں شریک ہونے کا الزام ہے ان کی بات کہیں نہیں سنی گئی ” ۔

یہی بات تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ اگر سفارتی مراسلے کے حوالے سے سابق وزیراعظم اور ان کے ہمنوا (ہمہ قسم کے) سچے تھے تو وفاقی کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی سربراہوں کو بلاتے تاکہ کمیٹی ان کا موقف جان پاتی۔

عمران خان جس سابق جنرل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنا چاہتے تھے خود اس نے کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت کرلی۔ کمیٹی ان سے معذرت کی وجوہات تحریری طور پر بھجوانے کا کہتی۔

حرف آخر یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس معاملے میں کیا کرسکتی ہے یہ ہے تو بہت واضح لیکن کیا آئین کو بلڈوز کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوسکے گی؟

کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author