حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کہاں سے شروع کی جائے، بہت ساری باتیں ہیں اور مسائل بھی۔ مثلاً برسات کا موسم ہے۔ طوفانی بارشوں کا جہاں سے گزر ہوا یا جہاں ابھی سلسلہ جاری ہے وہاں شہری زندگی متاثر ہوئی ہے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا صرف کراچی کی صورتحال پر رپورٹیں نشر کررہا ہے۔
ایسا لگتا ہے ملک صرف کراچی ہے اور مجرم صرف سندھ حکومت۔ سما نامی چینل کی رپورٹر اینکر نے کہا ’’سندھ حکومت نے کراچی والوں کی عید برباد کردی‘‘۔
مجھے ایک دوست نے سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ پر مینشن کیا جس میں ایک شخص نام لے کر دو سیاستدانوں کو ننگی گالیاں دے رہا تھا۔ اس سے زیادہ ننگی گالیاں چار اور سے سنائی دے رہی ہیں۔
ایسا لگتا ہے 23کروڑ کی آبادی والے ملک میں 30کروڑ کے قریب ماہرین موسمیات بستے ہیں۔ ایسا ہی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پچھلے چند دنوں میں صوابی، دیر، راولپنڈی، گوجرانوالہ، مردان اور چند دوسرے ” غیرکراچی والے ” شہروں اور بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے جو تباہی مچائی وہ الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کی آنکھ سے اوجھل کیوں رہی۔
کیا الیکٹرانک میڈیا ” یک چشمی‘‘ ہے۔ اس کی صرف وہی آنکھ کام کرتی ہے جس سے کراچی دیکھائی دے۔
ایسا نہیں ہے کہ کراچی میں بارشوں سے صورتحال خراب نہیں ہوئی۔ بالکل ہوئی ہے لیکن موسمیات کے ’’ماہرین‘‘ اور الیکٹرانک میڈیا صرف کراچی کا سیاپا کیوں کررہے ہیں؟
یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کے جواب میں کچھ حقائق سوشل میڈیا پر عرض کئے تو ایک عزیز نے پھبتی کسی ’’لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتے ہو‘‘۔ بات وسوسوں کی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم سبھی اپنی اپنی پسند کے ناپسندیدہ لوگوں اور جماعتوں کی بھد اڑھاتے ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر محترمہ شیریں رحمن کی جانب سے لگ بھگ 15دن قبل موسم کے حوالے سے ریڈ الرٹ جاری کئے جانے کے باوجود صوبائی حکومتوں نے موثر انتظامات کیوں نہ کئے؟
دوسری بات یہ ہے کہ بارشوں سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوا۔ الیکٹرانک میڈیا کراچی تک کیوں محدود ہے؟ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بارشوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لئے مناسب انتظامات کرنے میں ناکام رہیں ایسے میں کسی ایک صوبائی حکومت کو دوش دینا نری جہالت اور تنگ نظری ہوگا۔
مثلاً خیبر پختونخوا میں صوابی اور دیر سب سے زیادہ بارشوں کے سیلابی پانی سے متاثر ہوئے، خبر ’’گم‘‘ ہوگئی ، راولپنڈی میں راجہ بازار میں 2فٹ پانی کھڑا ہوا خبر تلاش کیجئے۔ گوجرانوالہ میں کیا ہوا، اصل میں جس بات کو ہم سبھی نظرانداز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارا بلدیاتی نظام اس معیار کا نہیں کہ شہروں اور قصبوں میں موسموں سے پیدا ہوئی ابتری پر قابو پاسکے۔
ایک ادارہ این ڈی ایم اے کے نام سے ہے موجودہ صورتحال میں کہیں وہ دیکھائی دیا؟
اس لئے نہیں دیکھائی دیا کہ ابھی کھانے پینے کو کچھ نہیں ہے۔ کورونا وبا کے دنوں میں اس ادارے کی ساکھ خاک میں مل گئی تھی گو پہلے بھی یہ ساکھ فضا میں پرواز نہیں کررہی تھی مگر کورونا کے دنوں میں ثابت ہوا کہ ملک کا سب سے کرپٹ ادارہ این ڈی ایم اے ہے
کیا مجال کہ کوئی چینل پروگرام کرے کوئی صحافی سوال اٹھائے۔
اب آیئے کراچی کی بات کرلیتے ہیں۔ سندھ حکومت کو بری الذمہ قرار بالکل نہ دیجئے لیکن گزشتہ پچاس برسوں کا حساب کرتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ اس شہر کے بلدیاتی سربراہوں میں دو نام جماعت اسلامی کے ہیں پھر ایم کیو ایم، بلدیاتی اداروں میں بالادست رہی۔ پی پی پی نے ایک بار فہیم خان نامی شخص کو ایڈمنسٹریٹر بنایا تھا اب مرتضیٰ وہاب ایڈمنسٹرٹر ہے۔ پچھلے چالیس سال سے اس شہر کا اصل انتظام رینجر کے پاس ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بعد بنی ایپکس کمیٹی اس شہر کی وارث بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ پچاس برسوں میں غیرقانونی آبادکاریاں، جائنا کٹنگ اور دوسرے معاملات آپ انہیں گولی ماریں یہ دیکھیں کہ کراچی کا کتنا حصہ شہری حکومت کے اختیارات سے باہر ہے۔ 6 عدد کنٹونمنٹ بورڈ ہیں اور 2ڈی ایچ اے کل رقبے کا 62نہ سہی60فیصد تو ان کی تحویل میں ہے ٹیکس یہ لیں ہر قسم کی وصولی یہ کریں اور گالیاں سندھ حکومت کو۔
ڈی ایچ اے کا فیز 6-5 اور 7 کس جگہ واقع ہیں؟ خود جاتی امرا نیوز نیٹ ورک کے چینل کی بلڈنگ کہاں بنی ہوئی ہے۔
پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت کے نام پر گالی دینے والے تو ان سندھیوں کو بھی گالی دیتے ہیں جو کراچی روزگار کے لئے آتے ہیں کیا کہتے ہیں یہاں لکھا نہیں جاسکتا۔ سوا تین یا تین کروڑ کی آبادی میں 2کروڑ کے قریب پشتون، پنجابی، ہزارہ وال، سرائیکی، کشمیری، گلگتی اور دوسرے ہیں۔
ان پر بات کیوں نہیں ہوتی؟ اصولی طور پر نہیں ہونی چاہیے کوئی بھی کسی شہر میں رہے، محنت مزدوری کرے کاروبار یا ملازمت سب کا حق ہے۔ کس نے کس کا حق مارا یہ الگ بحث ہے ورنہ چار مارشل لاء لگے دو فوجی حکمران صوبہ سرحد کے تھے اور 2مہاجر تھے۔
میرے خیال میں یہ غیرضروری بحث ہوگی۔ اصل بحث اس پر ہونی چاہیے کہ جس شخص نے کمرہ عدالت میں زبردستی ٹھیکے دلوائے ایف ڈبلیو او کو کیاوہ شخص ذمہ دار نہیں۔
خود کراچی رجسٹری کی پارکنگ گندے نالے پر ہے۔ وزیراعلیٰ تو کہہ رہے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کی بلڈنگ گندے نالے پر بنی۔ یہ تو پیپلزپارٹی کے دور سے قبل بنی ہوئی ہے۔ بارشوں کے سیلابی اور نالوں کی گزرگاہوں پر تعمیرات ہوں گی تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ چلیں یہ بات دیجئے کہ 1984ء کی بارشوں میں ڈیفنس کراچی کیوں ڈوبا تھا اس وقت تو نیک و صالح جنرل ضیاء الحق کی ملک پر حکمرانی تھی اور تب کراچی کا میئر کون تھا؟
ہم بھی عجیب لوگ ہیں زمینی حقائق سے زیادہ پسندوناپسند پر کھیلتے اچھلتے ہیں۔ یہ کہنا کہ سندھ حکومت بے اختیار کیوں ہے۔ ارے بھائی اختیارات کراچی کے حوالے سے ایپکس کمیٹی اور رینجر کے پاس ہیں چند برس قبل رینجر کے معاملے میں سندھ اسمبلی کے ارکان نے مزاحمت کی تھی یاد کیجئے تب ایم کیو ایم، جماعت اسلامی دوسری سیاسی جماعتیں اور میڈیا کس کے ساتھ کھڑے ہوئے۔
سندھ کی منتخب اسمبلی کے یا پھر رینجرز کے؟
باردیگر عرض ہے کمزوریاں اور کوتاہیاں ہیں، ہوتی ہیں دو برس قبل نیویارک میں طوفانی بارشوں کے بعد کیا ہوا تھا ذرا نیٹ پر جاکر دیکھ لیجئے۔
سوشل میڈیا مجاہدین کی حالت یہ ہے کہ ایک صاحب نے ان مجاہدین کو الو بنادیا۔ چین میں سال بھر قبل ہوئی بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال کی ویڈیو یہ لکھ کر اپ لوڈ کردی کہ ’’کراچی میں بارش کے سیلابی پانی سے تباہی‘‘۔ یار لوگ نیچے سندھ حکومت کو ننگی گالیاں دے رہے تھے۔
عقل تو اتنی ہے کہ ویڈیو پر چینی اور انگریزی ترجمہ نہیں دیکھا۔ کرنے کہنے والی بات یہ ہے کہ موسمیات کی تبدیلی سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے ہم دنیا سے الگ تھلگ نہیں بستے۔
موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بچائو کے انتظامات میں غفلت ہوئی یا مجرمانہ غفلت۔
دوسری بات یہ ہے کہ کراچی کے 6کنٹونمنٹس اور 2ڈی ایچ ایز میں پیدا صورتحال کی ذمہ دار سندھ حکومت کیوں؟ یا کراچی کی شہری حکومت جس کی جگہ اس وقت ایڈمنسٹریٹر ہے وہ کیوں ہوں گے۔
آخری بات یہ ہے کہ تنقید اور اصلاح کے لئے تنقید دونوں آپ کا حق ہے لیکن زمینی حقائق ضرور مدنظر رکھیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ