دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گڑبڑ گھٹالوں سے بھرا کالم ||حیدر جاوید سید

ایک دلچسپ بات بتائوں آجکل موروثی سیاست کے شدید مخالف وہ ہیں جن کی اکثریت پہلے بھٹو دے نعرے وجن گے پر بھنگڑے ڈالتی تھی آجکل انصافی ہوئی ہوئی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ریاست کے کسی محکمے، خفیہ ایجنسی، ان کے سربراہوں اور کسی اور پر تنقید ہوسکتی ہے کہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیسا بھی ہے اس ملک کا ایک دستور ہے۔ یہ دستور ہر شخص کی حدود فرائض اور حقوق طے کرتا ہے اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ امور مملکت چلانے والے پبلک سرونٹ کے اختیارات و حدود کیا ہوں گی ۔
عوام کے منتخب نمائندوں کے فرائض کیا ہیں۔ جغرافیائی سرحدوں کے محافظین کے فرائض کی حدود کیا ہیں۔
ہمارے ساتھ ہوا یہ (فقیر راحموں کے بقول ہاتھ یہ ہوا) کہ بٹوارے کی کوکھ سے جنم لیتی نئی ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ کچھ ان دیکھی نظریاتی سرحدیں بھی بنائی گئیں ان اَن دیکھی نظریاتی سرحدوں کا فسانہ قرارداد مقاصد سے پھوٹا۔ قرارداد مقاصد سے قبل ہمارے بزرگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ اسلامی ریاست ہے۔ اس میں اسلامی نظام قائم ہونا چاہیے۔ یہ ملک دنیا بھر کے مسلمانوں (امت مسلمہ) کی امیدوں کا مرکز ہے۔
قرارداد مقاصد کی بدولت جب یہ سارے بھید کھولے گئے تو پھر یہ ہوا کہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا بیڑا بھی جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں نے سنبھال لیا
وہ دن ہے اور آج کا دن کس کمال جذبہ حب الوطنی سے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہوئی اور کس کمال کے جٓذبہ ایمانی سے نظریاتی سرحدوں کی۔
دونوں کاموں کے لئے ہوئی انتھک محنت، قربانیوں، خدمات کی مثال ڈھونڈ کے لایئے تو۔ نہیں لاسکیں گے ایک طالب علم کے طور پر میں بٹوارے سے زیادہ قرارداد مقاصد کو اس ابتری کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
آپ کو اختلاف کا پورا پورا حق ہے۔ میرے بہت سارے دوست اکثر مجھے جناح صاحب قبلہ کے وہ اقوال و ارشاد دیکھاتے پڑھاتے سمجھاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر جنرل ضیاء الحق کے پرآشوب اسلامی دور میں کھوج کر نکالے گئے اچھا کھوج کو ’’کھود‘‘ اگر پڑھنا سمجھنا چاہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔
کسی آفت سے بچنے کے لئے میں ابھی لکھے دیتا ہوں ’’تحریر نویس کا مفسرین سے اتفاق ضروری نہیں ہر مفسر اپنی تفسیر کا بوجھ خود اٹھائے گا‘‘۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ فقیر راحموں کہہ رہاہے کہ نظریہ پاکستان کو کیوں نظرانداز کردیا۔ اب اس جھلے کو کون سمجھائے کہ یہ نظریہ پاکستان، دوسرے فوجی آمر جنرل آغا یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات میجر جنرل شیر علی خان پٹودی کا چائلڈ بے بی تھا۔ اس کے جنم پر عالمگیر انقلاب اسلامی کی علمبردار جماعت اسلامی نے ایک شاندار یوم شوکت اسلام بھی منایا تھا۔
معاف کیجئے گا، گرمی ہے، حبس بھی، مہنگائی بہت ہے ڈن ہل مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے اِدھر اُدھر بھٹک جائوں تو آپ نے برا نہیں منانا۔
میں اصل میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو تاریخ تقابلی مطالعے کے بعد ہمیں (ہم ایسوں کو) سمجھ میں آئی وہ صریحاً غلط تھی سچی اجلی حقیقی تاریخ وہی ہے جو مطالعہ پاکستان کی دیمک کے ذریعے اذہان میں موجود ہے۔
خیر بات یہ ہے کہ کتاب سے زیادہ پروپیگنڈہ اہم ہوتا ہے۔ اس ملک میں پروپیگنڈہ ہی اصل میں رزق ہوا۔ اب دیکھ لیجئے بھٹو صاحب نے پاکستان توڑا ہمیں معلوم ہی نہیں تھا۔ 1973ء کا آئین میاں طفیل محمد مرحوم نے لکھا یہ آپ یقیناً نہیں جانتے ہوں گے۔
جس نسخہ پر کاریگروں نے ایٹم بم بنایا وہ نسخہ قرارداد مقاصد ہے یعنی پاکستان اسلام کا قلعہ۔ اب قلعہ ہوگا تو مضبوط دیواریں وغیرہ ہوں گی ہی۔ بس ایٹم بم مضبوط دیوار اور میزائل برجیوں پر بیٹھے تیر انداز ہیں۔
آپ یقین کیجئے کہ اگر نظریاتی سرحدوں کی فولادی دیواریں نہ ہوتیں تو یہودوہنود اللہ جانے کیا کیا کر گزرتے
یہ تو شکر ہے دیواریں بھی فولادی تھیں اور محافظ بھی جواں عزم یہی وجہ ہے کہ جب چار بار انہوں نے فولادی دیواریں پگھلنے کا خطرہ محسوس کیا تو آگے بڑھ کر امور مملکت آہنی ہاتھوں میں لے لئے۔
یہ جو کہتے پھرتے ہیں نہ کہ 140سے زیادہ سابق عسکری بڑوں نے کینیڈا کی شہریت لے رکھی ہے کیا پچھتر سالوں میں یہی 140بڑے تھے؟ بندہ خدا ان کی اکثریت جذبہ حب الوطنی کی بدولت اب بھی ملک میں مقیم ہے بس بیٹے بہوئیں، بیٹیاں اور داماد وغیرہ اگر بیرون ملک ہیں تو یہ کوئی بری بات نہیں عمران خان کے بچے اپنی ماں کے باپ لندن میں رہتے ہیں۔ نوازشریف کے بیٹے برطانوی شہری ہیں۔
والدہ کے پاس رہنے اور شہریت لینے میں کیا برائی ہے کوئی بھی نہیں ، مجھ جیسے بے نوا شخص کے خاندان کے سات افراد امریکی شہری ہیں ایک کو ابھی گرین کارڈ ملا ہے۔ اب اگر بیرون ملک شہریت لینے والے عزیزوں کو شمار کروں تو یہ تعداد 100کے لگ بھگ ہوگی۔ عزیز جاں دوست اور محبتی اس کے علاوہ ہیں۔ اپنے آج اور بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق استعمال کرنے والوں پر تنقید اچھی بات نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر بچوں کی روزی روٹی کے لئے جنرل (ر) جہانگیر کرامت نے امریکی پینٹاگون کے تھنک ٹینک میں نوکری کی تھی یا جنرل (ر) شجاع پاشا نے دبئی کے امریکی ہسپتال کی سکیورٹی کی سربراہی سنبھال لی تو یہ غلط کیسے ہے۔
راحیل شریف سعودی قیادت کی اتحادی افواج کے سربراہ ہیں۔ سنا ہے کہ ایک اور صاحب کو بتادیا گیا ہے کہ راحیل شریف کے جانشین آپ ہوں گے۔ اب یہ پوچھنے نہ لگ جایئے گا، سوشل میڈیا مجاہدین کی طرح۔ کوئی بھی بات کہو لکھو جھٹ سے کہتے ہیں لنک دو۔
ارے خدا کے بندو تھوڑی سی محنت کرو، محنت میں عظمت ہے۔ ہم کیا بات کررہے تھے؟ معاف کیجئے گا میں بھول گیا۔ بوڑھا ہوگیا ہوں نہ غالباً۔ غالباً اس لئے لکھا ہے کہ اسٹک پکڑ کر چلتا ہوں۔
ورنہ اللہ کا کرم ہے دل اور دماغ جوان ہیں۔ ارے ہاں ہم نے بات یہاں سے شروع کی تھی کہ دستور نے ہر شخص، محکمے، ادارے ایجنسی وغیرہ وغیرہ کے حقوق، فرائض اور حدود طے کردی ہیں۔ ایک منٹ کے لئے رکئے مجھے یاد آیا کے اکثر پڑھنے والے اور سوشل میڈیائی مجاہدین یہ پھبتی کستے ہیں کہ میں اور فقیر راحموں موروثی سیاست کے حامی ہیں۔ میں آپ کو دینی موروثیت کی ایک ہزار شرعی مثالیں دے سکتا ہوں لیکن فتوے کا ڈر ہے اس لئے چار اور غور سے دیکھئے۔
مولوی صاحبان کے 99فیصد فرزند مولوی جی ہی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناتا ہے۔ ہمارے محبوب لالہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا خاندان کئی نسلوں سے فوج میں ہے۔ ایوب کے والد بھی فوجی تھے۔ ضیاء کے ابا جی فوج میں پیش نماز، اشفاق پرویز کیانی کے والد بھی فوجی تھے۔
لمبی فہرست ہے۔ عدلیہ کی طرف دیکھ لیجئے دفتری تعلق اور رشتہ داریاں دونوں جج بناتی ہیں۔ ہمارے ملتانی مامے مودی کی تیسری نسل دال مونگ بیچتی ہے۔ میڈیا ہاوسز کی ملکیت نسل درنسل چلتی ہے دیکھ لیجے خود ہی
کیا موروثیت صرف سیاست میں ہے۔
ایک دلچسپ بات بتائوں آجکل موروثی سیاست کے شدید مخالف وہ ہیں جن کی اکثریت پہلے بھٹو دے نعرے وجن گے پر بھنگڑے ڈالتی تھی آجکل انصافی ہوئی ہوئی ہے۔
کچھ براہ راست انصاف ہوئے کچھ بذریعہ مسلم لیگ (ن) و ق شین عین وہاں پہنچے۔ ایک بار پھر معذرت قبول کیجئے بات اِدھر اُدھر نکل جاتی ہے۔
کیا کریں مہنگائی ہی اتنی ہے بندہ کچھ دیر بھی سوچ نہیں سکتا فوراً یاد آجاتا ہے کہ تین دن قبل پیاز 120روپے کلو تھے آج 140روپے ہیں۔
تازہ مہنگائی عید کمائی کی وجہ سے ہے۔ عید کمائی تو آپ سمجھتے ہی ہوں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ ایک دوسرے سے اختلاف کیجئے لیکن اختلاف رائے کرتے وقت تاریخ کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کی کوشش نہ کیا کریں، باقی سب خیریت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author