نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وجود خدا کی سائنسی تصدیق||ڈاکٹر مجاہد مرزا

پھر طبیعیات میں بھی بہت سے معاملات ابھی حل طلب ہیں مثلا" جوہر کا ذرہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک بغیر سفر کیے پہنچ سکتا ہے یعنی ایک مقام سے غائب ہو کر دوسرے مقام پر نمودار ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے ناقابل سمجھ اعمال کو سمجھنے کے لیے تجربات کرنے کی خاطر خطیر رقوم صرف کی جاتی ہے جس کی ایک مثال سوئٹر لینڈ اور فرانس کے درمیان تعمیر کیا جانے والا "کولائیڈر" ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس کو مقبول عام بنانے کے جتن کرنے میں معروف مستقبل بین اور نامور نظری ماہر طبیعیات میچیو کاکو جنہوں نے طبیعیات کا تازہ ترین نظریہ "سٹرنگ تھیوری” پیش کیا تھا اور جو کچھ عرصہ پیشتر فرما چکے تھے کہ خالق جہان ریاضی دان ہے، نے تازہ ترین دعوٰی کیا ہے کہ وہ "یقینی ثبوت حاصل کر چکے ہیں جو تصدیق کرتا ہے کہ خالق ارض و سما موجود ہے” انہوں نے مزید کہا ” میں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم ایک ایسے جہان میں زندہ ہیں جو ذہین ہستی نے اصولوں کے تحت تخلیق کیا ہے” وہ آگے جا کر کہتے ہیں ” آپ میرا اعتبار کیجیے کہ ہر وہ چیز جسے ہم آج اتفاق کہتے ہیں اسے آئندہ اتفاق سے تعبیر کیا جانا بے تکا لگنے لگے گا”۔ "میرے لیے یہ واضح ہے کہ ہمارا وجود ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہے جو ان اصولوں کے تحت کام کر رہا ہے جنہیں ایک آفاقی ذہانت نے تخلیق اور متشکل کیا ہے نہ کہ یہ سب اتفاقی طور پر ہوا ہے”۔
ان کا یہ بیان کسی مشکوک اخبار یا رسالے میں نہیں بلکہ "جیوفلاسفیکل ایسوسی ایشن آف انتھراپولوجیکل اینڈ کلچرل سٹڈیز” نے اپنے جریدے میں ان کی وڈیو کے ساتھ شائع کیا ہے۔
کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ثبوت کی کیا ضرورت تھی، پیغمبران کرام، رشی، منی سب بتا چکے ہیں کہ خالق ارض و کائنات ہے جس کی عبادت کی جانی چاہیے مگر بات یہ ہے کہ سائنس دو جمع دو چار کو مانتی ہے البتہ اگر کہیں دو جمع دو پانچ یا تین ہو جائیں تو اس کو بھی ثابت کرنا پڑتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اگر ثابت نہ ہو تب ثبوت تلاش کرنے کا کام جاری رکھا جاتا ہے یا اس کو غلط ثابت کرنے کا ثبوت لانا پڑتا ہے۔ سائنس کسی بھی بات کو محض ہاتھ جھٹک کر رد نہیں کرتی۔ درست ہے کہ محترم ہستیوں نے محترم ترین ہستی کے امر ہونے کی تصدیق کی تھی مگر اس ہستی کے وجود کو ثابت کیا جانا ضروری تھا یا ابھی تک ہے کیونکہ میچیو کاکو تا حال ثبوت سامنے نہیں لائے، اس کے بارے میں محض اعلان کیا ہے۔ سائنسدان ایسا کیا کرتے ہیں کہ کسی مصدقہ نظریے کی توثیق نو کیے جانے کو مقدم جانیں، پھر ایک ایسی ہستی کے بارے میں نظریہ جس کا وجود ماننے والوں نے انسانیت کے خلاف بہت زیادتیاں کی ہوں بلاشبہ اس کا وجود نہ ماننے والوں نے بھی انسانیت کو کچھ کم پامال نہیں کیا۔
سائنس کے ضمن میں تمام پہلووں پر کام کیا جا رہا ہے۔ خیال کی حد تک تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماورائیات کا وجود نہیں مگر یہ حقیقت موجب حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ماسکو، روس کی باؤمن سٹیٹ یونیورسٹی آف ٹکنالوجی یا بوسٹن، ریاستہائے متحدہ امریکہ میں واقع میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی جیسے باوقار سائنسی اداروں مین ماورائیات پر تحقیق کے باقاعدہ شعبے وجود رکھتے ہیں۔
پھر طبیعیات میں بھی بہت سے معاملات ابھی حل طلب ہیں مثلا” جوہر کا ذرہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک بغیر سفر کیے پہنچ سکتا ہے یعنی ایک مقام سے غائب ہو کر دوسرے مقام پر نمودار ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے ناقابل سمجھ اعمال کو سمجھنے کے لیے تجربات کرنے کی خاطر خطیر رقوم صرف کی جاتی ہے جس کی ایک مثال سوئٹر لینڈ اور فرانس کے درمیان تعمیر کیا جانے والا "کولائیڈر” ہے۔
مذاہب خالق کے وجود کو ارضی شکل میں پیش کرتے ہیں جیسے وہ کسی بادشاہ کی مانند مہربان اور رحیم بھی ہے اور جابر و قاہر بھی، اس لیے اس کی عبادت کی جانی چاہیے یعنی اس کے آگے جھکنا چاہیے مگر سائنس جس خالق کے وجود کو ثابت کیے جانے کی سعی کر رہی ہے وہ محض قابل تعریف ہوگا یا موجب استعجاب۔ سائنس کسی چیز کو ثابت کرتی ہے جس کے بعد یہ لوگوں اور حکام کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس چیز سے مثبت استفادہ کریں یا اس کا منفی استعمال جیسے البرٹ آئن سٹائن نے "توانائی مساوی ہے کمیت ضرب روشنی کی رفتار ضرب روشنی کی رفتار” کا فارمولا پیش کیا تھا جسے جوہری توانائی کے حصول کے لیے بھی برتا جا رہا ہے اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم جیسے مہلک و تباہ کن ہتھیار بنانے کی خاطر بھی، یوں مہربان و رحیم یا جبار و قہار کے اوصاف انسان نے اپنے نام کر لیے ہیں۔
مگر بات یہ ہے کہ خالق ارض و سما کوئی "شے” نہیں ہے جسے استعمال کیا جا سکے یا جس کی صفات سے یونہی استفادہ کیا جا سکے۔ اس کے لیے انسانوں کو انسانوں بلکہ خالق کی تمام مخلوقات بشمول چرند و پرند، حیات و نباتات، ماحولیات اور فطرت کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کو شعار بنانا ہوگا جس کے بعد اجتماعی طور پر انسانوں پر اس کی تمام صفات کی لامتناہی بارش ہونا شروع ہو جائے گی اور ہمارا کرہ ارض جنت نظیر بن جائے گا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں خطہ ارض جیسے کریمیا یا کشمیر جنت نظیر ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہاں فطری حسن بشمول دریا، پہاڑ، سمندر، جھیلیں، آبشاریں، مرغزار، جنگل، پھول اور پھلوں کے ساتھ ساتھ انسان کے لیے تمام تر سہولتیں بشمول معیاری رہائش، اچھی غذا، سڑکیں، ٹرانسپورٹ، کمیونیکیش، ذرائع ابلاغ سبھی بدرجہ اتم موجود و میسّر و دستیاب ہیں۔
پر کیا کیا جائے کہ فلسفی و مرسلین کے کہے کو جس طرح لوگوں نے جانا اور جس طرح اس عوامی قبولیت سے حکمرانوں نے فائدہ اٹھایا اس کے بعد یہ امید کیا جانا ذرا مشکل لگنے لگا ہے کہ خالق کائنات کی سائنسی تصدیق ہونے کے بعد انسان کی حرص وہوس کی سوچ میں کوئی تبدیلی آنا ممکن ہو پائے گی۔ وہ جو ذرائع پیداوار اور وسائل پر قابض ہوتے ہیں وہ اس دنیا میں ہی عیش کوشی سے سرفراز رہنے کے متمنی ہوتے ہیں اور باقیوں کو امید فردا میں کھوئے رہنے یا بھٹکنے دینے کو بہتر جانتے ہیں۔
میچیو کاکو صاحب ثبوت پیش کر لیں اس کے بعد بھی سو پچاس سال انتظار کرنا ہوگا تاکہ سائنس کی اس پیش رفت کے پیش و عواقب کا اندازہ لگایا جانا ممکن ہو، ایسے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author