حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئے پاکستان میں تختہ مشق بنے لوگوں کی پرانے پاکستان کی مشہور زمانہ تجربہ گاہ میں جو درگت بن رہی ہے اس پر سوا تین توپوں کی سلامی، ان تجربہ کاروں کو جن کا دعویٰ تھا کہ
’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔
پٹرول 248روپے 74پیسے لٹر اور ڈیزل 276روپے 54پیسے۔ دوسری پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔ پچھلے تین ماہ کے دوران مہنگائی کی مجموعی شرح 18فیصد سے بڑھ کر 28.3فیصد ہوگئی۔ یہ ادارہ شماریات کے حساب کتاب کے مطابق ہے ورنہ کڑوا سچ یہ ہے کہ مہنگائی میں تقریباً 35فیصد مجموعی اضافہ ہوا ہے۔
اضافے کی وجوہات پر فصاحت بھرے خطابات اور جوابی الزامات دونوں سے اگر پیٹ کا دوزخ بھرتا ہوتا تو کیا ہی بات تھی۔ پیٹ کا دوزخ ہو یا یوٹیلٹی بلز، یہ قصوں کہانیوں، الزامات تراشی سے زیادہ پیسہ مانگتے ہیں۔
وفاقی بجٹ پیش کئے جانے کے وقت ان سطور میں عرض کیا تھا یہ بجٹ اشرافیہ کے لئے ہے اس میں عام شہری کے لئے کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ روز بجٹ منظور کرلیا گیا۔ بجٹ پیش کرنے اور منظوری کے درمیانی دنوں میں ارباب حکومت کے پاس ہر سوال کا جواب یہ تھا کہ یہ سارے عذاب پچھلی حکومت کے معاہدوں اور پالیسیوں کی بدولت ہیں۔
تکرار کی معذرت، سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس سابق حکومت کی پالیسیوں اور معاہدوں کا ’’توڑ‘‘ نہیں تھا تو ’’پنگا‘‘ لینے کی ضرورت کیا تھی؟
وزیراعظم کہتے ہیں قربانی عوام کو دینا پڑے گی۔ حضور 75سال سے عوام ہی قربانی دے رہے ہیں وہ ایک تاریخی دن بتادیجئے جب خواص نے عوام کے لئے قربانی دی ہو؟
فی الوقت صورت یہ ہے کہ مہنگی ترین بجلی کے باوجود لوڈشیڈنگ کا عذاب گلے پڑا ہوا ہے۔ بڑے شہروں میں ’’ناک‘‘ رکھنے کیلئے لیپاپوتی ہورہی ہے چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہاتوں میں 18سے 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہے۔ ڈیزل کی قیمت بڑھتے چلے جانے سے سب سے زیادہ کسان متاثر ہوا۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے جو ڈیزل پر ٹیوب ویل چلاتا ہے ۔
پڑوس کے ملک بھارت یا یوں کہہ لیجئے بھارتی صوبے پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں کسانوں کو بجلی، زرعی ادویات، کھادوں اور زرعی معیشت میں معاون ہر چیز پر سبسڈی ملتی ہے بلکہ گزشتہ روز تو بھارتی پنجاب میں 300 سو یونٹ تک بجلی مفت دینے کا اعلان کردیا گیا ، یہاں کسانوں کے منہ سے نوالے چھیننے کا موقع کسی حکومت نے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
ذرا پچھلے دو تین ماہ کے دوران پبلک و گڈز ٹرانسپورٹ اور ریلوے کے کرایوں میں ہونے والے اضافے کو سامنے رکھیں۔ بجلی کی قیمت بڑھانے کا حساب ہر دو کی وجہ سے آنے والے مہنگائی کے طوفان کو دیکھئے پھر فیصلہ کیجئے اس ملک میں جس کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہی ہے لوگوں کا کیا حال ہے۔
حال کیا ہونا ہے ایک اوسط معیار کے 4سے 5 افراد پر مشتمل خاندان کے لئے ہفتہ بھر کی ضرورت کا لہسن، پیاز، ادرک، دھنیا، آلو، مرچ اور ایک آدھ سبزی وغیرہ تین ماہ قبل مجموعی طور پر 750روپے میں آتے تھے۔ اب 1340روپے میں اتنی ہی مقدار کا سامان ملتا ہے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ کے علاوہ اس پر لگے ٹیکسوں اور فیول ایڈجسٹمنٹ کا ماہوار بھتہ اور پھر استعمال شدہ یونٹوں کی درجہ بندی کے حساب سے نرخ۔ کیا یہ سب عام اوسط آمدنی والے گھرانے کے لئے قابلِ برداشت ہے؟
مہنگائی کے اس بدترین بلکہ ہولناک طوفان سے سب سے زیادہ ملازم پیشہ اور اوسط ماہانہ آمدنی والے گھرانے متاثر ہوئے۔ صرف اشیائے ضرورت مہنگی نہیں ہوئیں یا یوٹیلٹی بلوں کے بڑھنے کا شکوہ نہیں، مکانات کے کرایوں میں بھی پچھلے 6ماہ کے دوران بے پناہ اضافہ ہوا۔ قانون کرایہ داری 10فیصد سالانہ کرایہ بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔ مالکان نے اس کا بھی حل نکال لیا۔ مکان خالی کیجئے ذاتی ضرورت ہے۔ یہ محض فریب ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ایک عام مکان کا کرایہ سات سے دس ہزار روپے ہے تو 10فیصد کے حساب سے سات سو سے ایک ہزار کرایہ بڑھ سکتا ہے لیکن پراپرٹی ڈیلروں کے دیکھائے سبز باغوں کے نتائج اور ہیں۔
بہتر معیار کے رہائشی علاقوں میں دو کمروں اور دیگر لوازمات والا پورشن جو 6ماہ قبل 28سے 32 ہزار روپے کرائے پر تھا اب 40سے 45ہزار کرایہ مانگا جارہا ہے۔
صرف 6ماہ میں ملتان سے لاہور کے کرایوں میں ہوئے اضافے کو دیکھ لیجئے۔ زندہ رہنے کے سارے سامانوں کے ساتھ مہنگائی کے اثرات سے مرنے والا بھی نہیں بچ پاتا۔ 15سے 25ہزار میں قبر ملتی ہے۔ کفن وغیرہ کا خرچہ الگ ہے۔ دیگر رسومات کو رہنے دیجئے۔
مکرر عرض ہے وفاقی بجٹ کے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے پر ان سطور میں عرض کیا تھا مختلف غیرترقیاتی مدوں میں کٹوتیاں کرکے لگ بھگ 2ہزار ارب روپے بچائے جاسکتے ہیں ان 2ہزار ارب روپے سے شہریوں کو ریلیف دینے کا سامان ہوسکتا تھا۔ عوام کی بدقسمتی ہے کہ ہر جگہ ہر محکمہ اور ادارے میں اشرافیہ کے بیٹے، بھانجے بھتیجے وغیرہ بیٹھے ہیں اس لئے ’’خیر‘‘ کی ساری خبریں عزیزواقارب کے لئے ہیں۔
اسی عرصہ میں صدر مملکت نے جج صاحبان کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے حکم نامے پر دستخط کردیئے۔ کسی دن انصاف کی فراہمی میں پاکستان کے نظام انصاف کا نمبر تلاش کیجئے۔
اشرافیہ کی عیاشیوں، مراعات وغیرہ پر کوئی قدغن نہیں عوام قربانی دیں۔ لیکن عوام کی جو حالت ہے اس حالت میں تو ان کی ’’عید قربان پر بھی قربانی نہیں ہوسکتی‘‘۔
ہمارے وہ دوست جو یہ کہتے ہیں کہ نئی حکومت کو کچھ وقت ملنا چاہیے ان سے بصد ادب یہی دریافت کیا جاسکتا ہے کہ کتنا وقت، اتنا کہ لوگ اجتماعی خودکشی کرنے لگیں؟
باردیگر عرض ہے اے تجربہ کارو اس ملک کے عام شہریوں پر تجربے کرنا بند کردو ایسا نہ ہو کہ پھر تمہیں اپنی تجربہ گاہوں کے لئے ضروری لوازمات بھی میسر نہ آئیں۔
آسمان کو چھوتی مہنگائی ایک مثال ہے۔ معاملہ اس سے بھی گھمبیر ہے۔ اتنا گھمبیر ڈر لگنے لگا ہے کہ اگر اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں نہ ہوئیں تو سٹریٹ کرائم کی شرح بڑھ جائے گی۔
معافی کا خواستگار ہوں یہ کوئی جذبات بات ہرگز نہیں حالات جس بند گلی کی طرف دھمکیل رہے ہیں ان کا نتیجہ یہی نکلے گا جو عرض کیا ہے ، سانس لینے پر ٹیکس نہیں ہے باقی پیدا ہونے سے مرنے تک ہر چیز پر ٹیکس ہے (جنم پرچی اور وفات کا سرٹیفکیٹ فیس پر ہی ملتے ہیں)
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضے کی دو اقساط اکٹھی دینے کا عندیہ دیتے ہوئے جو میمورنڈم بھجوایا ہے اس پر ’’غلام ریاست‘‘ کے لئے عمل کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
کہا جاتا ہے خودانحصاری واحد حل ہے۔ صرف ایک سوال کا جواب دے دیجئے، خودانحصاری کے فروغ کے لئے وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں کیا رکھا گیا؟
حرف آخر یہ ہے کہ تجربہ کاروں کی ٹیم معاملات کو نہیں سنبھال سکتی تھی تو اس ساجھے داری کی کیا ضرورت تھی۔ لاریب حکومت تبدیل نہ ہوتی تو بھی حالات یہی ہونے تھے مگر اس صورت میں لوگ خودساختہ مالکوں کے گلے پڑ کر مرتے۔
آپ نے دو ظلم کئے اولاً اصل ذمہ داروں کو محفوظ راستہ دے دیا ثانیاً سارے عذاب عوام کے گلے ڈال دیئے۔
کم از کم مجھے تو آئندہ تین چھ ماہ کیا سال بھر میں حالات بہتر ہوتے دیکھائی نہیں دیتے اس لئے یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ اناڑیوں کے دور میں کم از کم کفن تو سستا تھا اب وہ نہ صرف مہنگا ہے بلکہ، خیر چھوڑیں ہم نے بھگتنا ہی ہے بھگت ہی رہے ہیں روئیں یا صبر کریں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ