حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فواد حسین چودھری نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ ’’تحفے میں ملنے والی گھڑیاں عمران خان نے قانون کے مطابق خریدیں ، مالک اپنی ملکیت کی چیز رکھے یا فرخت کرے اس پر شور مچانے کی ضرورت نہیں، کرپٹ پارٹیوں کے لوگ بات کا بتنگڑ بناکر بلاوجہ الزام تراشی کررہے ہیں‘‘۔
پہلے جب سعودی ولی عہد والی گھڑی فروخت ہوئی تھی تب بھی فواد چودھری نے یہی کہا تھا۔ اس کے برعکس عمران خان نے کہا تھا کہ میں نے گھڑی فروخت کر کے بنی گالہ والی سڑک بنوائی تھی ۔ سی ڈی اے نے سڑک کے حوالے سے ابتدائی 18لاکھ کی رقم کی ادائیگی کا بتاتے ہوئے کہا تھا یہ رقم 2017ء میں ادا کی گئی باقی نہیں ملی۔
اب دو یا تین گھڑیوں کا معاملہ ہے جو خلیجی ریاستوں سے تحفہ میں ملیں۔ توشہ خانہ سے لی گئیں اور اسلام آباد میں فروخت ہوئیں۔ فروخت کی رسیدوں کے ساتھ تحقیقاتی کمیٹی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ توشہ خانہ میں رقم گھڑیاں فروخت کرکے جمع کروائی گئی۔
تحفے مقررہ قوانین کے مطابق خریدے گئے۔ قوانین ہر دور میں حکمران مرضی سے بناتے ہیں۔ کیا تحفہ فروخت کرنا اچھی بات ہے؟
اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان جن لوگوں پر عشرہ بھر سے 200ارب ڈالر کی کرپشن کے الزامات اچھالنے میں مصروف ہیں ان کے ہمدردوں کو چند کروڑ کے معاملے پر آسمان سر پر اٹھالینا زیب دیتا ہے؟
آپ دونوں سوالات پر غور کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ 200ارب ڈالر کی کرپشن کے تذکرے 2011ء سے شروع ہوئے تھے اس سے اگلے سات برسوں میں اس کہانی پر بنی فلم خوب چلی بلکہ سپرہٹ ہوئی۔
فلم کی کامیابی میں چھائونی "گرلز و بوائز ” کا تاریخی کردار تھا۔ 2018ء کا الیکشن اس سپرہٹ فلم کے شور میں مینج ہوا تھا ، کس نے کیا اسی نے جس نے 2013ء کے انتخابات کی شام کے بعد انتظامات کئے تھے ۔ آر اوز کے دفاتر میں خصوصی فوجی عدالتوں کا سماں باندھ دیا گیا تھا۔
سوا نو ساڑھے نو بجے شب کے لگ بھگ میاں نوازشریف نے ماڈل ٹائون میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’مسلم لیگ جیت رہی ہے لیکن ہمیں دو تہائی اکثریت چاہیے‘‘۔
یہاں پھر سوال یہ دوتہائی اکثریت کس سے مانگی جارہی تھی سوا 9بجے؟ کیونکہ ووٹر تو پانچ بجے تک ووٹ ڈال کر گھروں کو سدھارچکے تھے۔
سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’اس‘‘ سے مانگی جارہی تھی جس سے معاملات طے ہوئے تھے جن کی خاطر میاں صاحب کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے۔
2013ء کے انتخابات یاد کیجئے۔ انتخابی نتائج کے بعد اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے ان انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دیتے ہوئے کہا تھا پیپلزپارٹی ووٹوں سے زیادہ آر اوز کے دفاتر میں ہاری ہے لیکن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے سیاپا فروشوں نے زرداری اور پیپلزپارٹی کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔
معاف کیجئے گا بات گھڑی بلکہ گھڑیوں سے شروع ہوئی تھی لیکن جو عرض کیا وہ ہمارے سامنے ہوا۔ حلقہ انتخاب رکھنے والے سیاستدان جس طرح 2002ء کے انتخابات سے قبل ق لیگ میں لے جائے گئے تھے ویسے ہی 2018ء سے قبل تحریک انصاف کی طرف ہانکے گئے تھے
چودھری شجاعت حسین نے ایک سرکاری محکمے کا نام لے کر کہا تھا اس نے ہمارے لوگوں پر دبائو ڈالا اور انہیں پی ٹی آئی میں شامل کروایا۔
پی ٹی آئی سے یاد آیا چند دن قبل ضمنی الیکشن والے ایک حلقے میں دو برادریوں کی صلح کے بعد پی ٹی آئی کے زیرانتظام منعقدہ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے جنرل (ر) ظہیرالاسلام نے کہا ’’ہم 2پارٹیوں کی سیاسی بالادستی سے پریشان تھے پھر تحریک انصاف کو آگے لانے کا فیصلہ ہوأ۔
جنرل ظہیرالاسلام 2014ء کے دھرنے کے وقت ایک بڑی ملکی خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے۔ (ائی ایس آئی کے) آئی بی نے وزیراعظم کو رپورٹ دی کہ وہ حکومت کے خلاف سازباز میں مصروف ہیں۔
یہ وہی صاحب ہیں جن کے حوالے سے ایک سے زائد بار عمران خان سے سوال ہوا ’’کہتے ہیں کہ جنرل ظہیرالسلام نے وزیراعظم نوازشریف کو استعفیٰ دینے کا کہا تھا؟‘‘ عمران خان کا جواب تھا ’’وہ مجھے کہتا اور میں وزیراعظم ہوتا تو سیدھا گھر بھیجتا‘‘۔
ان صاحب پر ’’الزام‘‘ ہے کہ وہ 2014ء کے دھرنے کے گارڈ فادر تھے کچھ الزامات اور بھی ہیں۔ دھرنے والی بات چونکہ طے ہے خود ایک سول ایجنسی کی رپورٹ کے حوالے سے اس لئے دوسرے الزامات پر بات کیا کرنی۔
ویسے ہم یہ سوال نہیں پوچھ سکتے کہ جب تک سرکاری محکمے تحریک انصاف کی بُنت میں ساجھے دار، الیکشن جتوانے میں پیش پیش، بندے گھیر کے لانے میں سرگردا رہے وہ محب وطن کرپشن کے دشمن اور محافظ ملت و ملک رہے۔
10اپریل 2022ء کے بعد سے یہ کیا سے کیا ہوگئے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
نصف صدی ہوتی ہے ہم سے قلم مزدور ان سطور میں عرض کرتے آرہے ہیں پارٹیاں توڑنا بنانا ملکی محکموں کا کام ہرگز نہیں ان کا کام قانون کی حدود میں رہ کر فرائض ادا کرنا ہے۔ الحمدللہ اس پر کبھی توجہ دی نہ ضرورت محسوس کی گئی۔ کرپشن بیانیہ، سیاستدان چور اور ہر گرائی گئی حکومت بھارت نواز یہ پرانے سودے ہیں، خوب فروخت ہوئے۔
پاشا رجیم نے ایک محب وطن و پاکیزہ قیادت اور جماعت بنوائی اسے اقتدار دلوانے والوں نے دلوایا۔ اقتدار کیوں ختم ہوا؟ رخصت ہونے والے کہتے ہیں میر جعفر اور میر صادق نے امریکی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا۔ امریکی سازش ہوئی یہ اس میں مہرے تھے۔
اب سابق حکمران جماعت کے پ بیانیے میں ایک پرانی بات کہ 200ارب ڈالر کی کرپشن ہوئی یہ دولت باہر پڑی ہوئی ہے کے ساتھ امریکی سازش اور چند مزید سنگین الزامات ہیں۔
آئی ایس پی آر کے تراشے ہوئے سیاپا فروشں آجکل برس رہے ہیں۔ برسنے دیں یہ تراشنے والوں اور تراشے گئے ہوئوں کا باہمی معاملہ ہے۔
خان صاحب نے سات برس سے اوپر 200ارب ڈالر کی کرپشن کا سودا خوب بیچا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا 98فیصد حصہ ان کے بیانیے کی تبلیغ کرتا رہا کس کے کہنے پر سب کو معلوم ہے نام لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔
2018ء میں اقتدار ملنے کے بعد ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے اے آر وائی کے ایک پروگرام میں پوچھے گئے سوال پر کہ ’’ملک کے باہر پڑے کرپشن کے 200ارب ڈالر ملک واپس لانے کے لئے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے؟‘‘ جواب دیا ’’وہ تو سیاسی باتیں تھیں‘‘۔ پھر پونے چار سال تک اس پر بات نہیں ہوئی۔
2011ء سے 2018ء کے درمیان ہمیں بتایا گیا ملک میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے لوگ ایمان لے آئے مگر ان صاحبان ایمان میں سے کسی نے پونے چار سال کے دوران یہ نہیں پوچھا 12ارب روپے روزانہ کی کرپشن والی بچت کی رقم کہاں ہے؟
کرپشن کے بیانیہ پر سیاست کرنے والی جماعت کے دور اقتدار میں بھی کرپشن کے ریکارڈ قائم ہوئے لیکن ان کرپشن کہانیوں پر مبلغین تحریک انصاف کے فرمودات کرپشن سے زیادہ دلچسپ ہیں۔ خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل نے لندن والے 50ارب روپے کے سوال کے جواب میں رقم ملک ریاض کو واپس کرنے پر کچھ نہیں کہا البتہ سوال کے دوسرے حصے روحانی یونیورسٹی کے لئے دی گئی مفت زمین کے معاملے پر کہا
’’کسی نے ثواب کی نیت سے زمین دی ہے تو اس میں کرپشن کہاں ہے؟‘‘
فواد چودھری کی بات ابتدائی سطور میں عرض کردی۔ حرف آخر یہ ہے کہ 2پارٹی سسٹم سے خطرہ محسوس کرکے نیک و پاکیزہ محب وطن ایماندار قیادت اور پارٹی بنوانے والوں سے صرف ایک بات پوچھنی ہے، لالہ جی! مزے آرہے ہیں کہ نہیں؟.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ