مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور خان پور||ظہور دھریجہ

وزیر اعلیٰ کے منصب پر کون فائز ہوتا ہے ؟ اس کا فیصلہ آج ہو جائیگا تاہم جو بھی وزیر اعلیٰ بنے ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ خان پور ضلع بحالی کا مطالبہ ہر صورت جائز ہے اور نئے آنے والے وزیر اعلیٰ کو نا صرف خان پور بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل کے حل کیلئے صوبے میں کم از کم بیس نئے اضلاع اور چار نئے ڈویژنوں کی ضرورت ہے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز میرا کالم پنجاب کے سیاسی بحران کے حوالے سے شائع ہوا تو خان پور سے میرے عزیز زاہد چوہدری صدر خان پور ضلع بحالی تحریک اور حبیب اللہ خیال نے کہا کہ آپ تو صوبے کی بات کرتے ہیں مگر ہمارا ضلع بحال نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ خان پور نے ہمیشہ (ن) لیگ کو مینڈیٹ دیا ، ایم این اے اور ایم پی اے (ن) لیگ کے ہی بنتے آ رہے ہیں مگر (ن) لیگ کی خان پور کی طرف توجہ نہیں ہے۔ میں یہ سطور لکھ رہا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آ گیا کہ حمزہ شہباز کا بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انتخاب کالعدم قرار دیدیا گیا ہے اور عثمان بزدار قائم مقام وزیر اعلیٰ کے عہدے پر بحال کر دئیے گئے ہیں، آج یکم جولائی کو نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے اور اقتدار نومنتخب وزیر اعلیٰ کے پاس چلا جائے گا۔ بہرحال پنجاب کے سیاسی بحران کے حوالے سے میری رائے وہی ہے جو کل میں نے بیان کی تھی کہ مقتدر سیاسی قوتوں کو سرائیکی صوبہ کی طرف توجہ دینا ہوگی تاکہ وفاق متوازن ہو سکے اور آئے روز کے جھگڑوں سے نجات مل سکے۔ وزیر اعلیٰ کے منصب پر کون فائز ہوتا ہے ؟ اس کا فیصلہ آج ہو جائیگا تاہم جو بھی وزیر اعلیٰ بنے ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ خان پور ضلع بحالی کا مطالبہ ہر صورت جائز ہے اور نئے آنے والے وزیر اعلیٰ کو نا صرف خان پور بلکہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل کے حل کیلئے صوبے میں کم از کم بیس نئے اضلاع اور چار نئے ڈویژنوں کی ضرورت ہے۔ خان پور کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے خان پور کو ریاست بہاول پور کا برمنگھم کہا جاتا تھا، خان پور کی تجارت براہ راست دہلی سے تھی اور خان پور کے کسی ایک سیٹھ کا ’’ٹیبھوں‘‘ آج کا ٹریول چیک تھا اور ایک ’’ٹیبھوں‘‘ کے ذریعے دہلی سے لاکھوں کا مال مل جاتا تھا ، خان پور سے ریلوے ٹرین براستہ سمہ سٹہ ، بہاولنگر ، امروکہ وبٹھنڈہ دہلی تک جاتی تھی ‘ خان پور کے لوگ بہت خوشحال اور مالدار تھے مگر قیام پاکستان کے بعد خان پور سے سب کچھچھن گیا آج خان پور کے امیر لوگ کراچی میں مزدوری کررہے ہیں۔ خان پور سرائیکی وسیب کا زرخیز اور مردم خیز خطہ ہے ‘ اس خطے نے حضرت خواجہ غلام فریدؒ جیسی عظیم ہستی کو جنم دیا ، انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کا سب سے بڑا مرکز بھی خان پور تھا اور تحریک آزادی کے عظیم ہیرو مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے یہیں سے انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی ،حضرت سندھی آج اسودہ خاک بھی خان پور میں ہی ہیں، خان پور کی سر زمین نے عظیم روحانی پیشوا حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری،مولانا عبدالہادی ،مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ، حضرت سراج اہلسنت مفتی واحد بخش، مولانا عبداللہ درخواستی ، مولانا عبدالشکور دین پوری ،مولانا یار محمد دھریجہ، بابا امان اللہ دھریجہ ، مولانا عبدالغنی جاجروی ،مولانا خورشید احمد فیضی ، خواجہ محمد یار فریدی ، خواجہ دُر محمد کوریجہ ،حضرت جیٹھہ بھٹہ سرکارؒ ، حضرت شیخ عبدالستار ، حضرت بابا رنگیلا شاہ ، مغل بادشاہ کے مشیر بیربل۔ اسی طرح دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مشاہیر کوخان پور کی ماں دھرتی نے جنم دیا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے قبل 1932 ء تک خان پور خوشحال ضلع تھا، نوشہرہ (موجودہ ضلع رحیم یار خان)اس کی تحصیل تھی،مگر تحریک آزادی میں حصہ لینے کے جرم میں خان پور کی ضلعی حیثیت ختم ہوئی ، اب جبکہ انگریز چلا گیا تو خان پور کی سزا ختم کرنے کے ساتھ ضلع بحالی کی صورت میں انعام ملنا چاہئے۔ خان پور کو تحریک آزادی کا مرکز ہونے کے اعزاز کے ساتھ یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلے سرائیکی وسیب کے حقوق کی تحریک شروع ہوئی اور یہاں کے ایک سپوت ریاض ہاشمی مرحوم نے بہاول پور صوبے کیلئے بہت کام کیا اور بعد ازاں بہاول پور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ کا روپ دیکر سرائیکی صوبے کی تحریک میں شامل کر دیا ‘ اسی طرح خان پور کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے سب سے پہلا اخبار ڈٖینھ وار ’’جھوک‘‘ سرائیکی شروع ہوا ۔ اخبار کے مدیران نے سرائیکی زبان ‘ ادب اور سرائیکی تحریک کیلئے جس طرح اپنا تن من دھن حتیٰ کہ اپنی زندگی تک وقف کر کے جو قربانی دی ہے وہ محتاج تعارف نہیں،اسی طرح دوسرا سرائیکی اخبار ’’ڈٖینھ وار ’’سجاک‘‘ جس شخصیت نے شروع کیا ان کا نام ارشاد امین ہے اور ان کا تعلق بھی خان پور کے قصبے چاچڑاں شریف سے ہے ۔ خان پور کو انگریزوں نے خان پور ، چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر بہت بڑا جنکشن بنانے کا پروگرام بنایا تھا مگر ایسا نہ ہوا ۔ گزشتہ روز خان پور پریس کلب میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندہ اجلاس میں خان پور ضلع بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ (ن) لیگ کے رہنما خواجہ محمد ادریس نے کہا کہ خان پور ضلع تھا، اب بھی آبادی ، ریونیو اور تاریخی پس منظر کے حوالے سے خان پور ضلع کی بحالی بہت ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خان پور ترقی کی بجائے اس کی تنزلی ہوئی ہے۔ ہماری گزارشات ہیں کہ خان پور کی محرومی کی طرف توجہ دیتے ہوئے مسائل حل کئے جائیں۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ خان پور چاچڑاں ریلوے لائن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ چاچڑاں اور کوٹ مٹھن کے درمیان ریلوے پل بنا کر اسے ایک طرف براستہ ڈیرہ غازی خان ،کوٹ ادو ،کندیاں ،میاں والی ،گولڑہ،پنڈی سے پشاور تک ملایا جائے دوسر ی طرف براستہ کوٹ مٹھن جیکب آباد سے کوٹ مٹھن تک ملایا جائے اور ریلوے کے ابتدائی منصوبے کے تحت خان پور کو ــ’’ریلوے ہب‘‘ کا درجہ دے کر اسے بڑا جنکشن بنایا جائے اور مغل پورہ لاہور کی طرز کی یہاں ورکشاپس قائم کی جائیں، خان پور میں صحافی کالونی اور وکلا کالو نی بنائی جائے۔ خانپور کو ٹیکس فری زون قرار دے کر یہاں ٹیکس فری انڈسٹریل سٹیٹ قائم کی جائے، شوگر فارم خانپور کے سینکڑو ں ایکڑ رقبہ پر زرعی یونیورسٹی قائم کی جائے ۔منظو ر شد ہ خانپور کیڈٹ کالج کی تعمیر فوری مکمل کرانے کے ساتھ خان پور میںانجینئرنگ کالج کی بھی منظوری دی جائے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: