ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجٹ پیش کیا جا چکا ہے۔ میں ماہر اقتصادیات نہیں ہوں جو اس میں سے کیڑے نکالتا پھروں البتہ یہ جو دوماہ میں گردشی قرضے کے پانچ سو ارب یعنی پانچ کھرب روپے ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے اسی سے ذہن میں شکوک و شبہات نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ تمام ذرائع کے مطابق پاکستان کے خزانے میں صرف چھ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ باقی بچ رہا ہے۔ گردشی قرضے کی جس رقم کی ادائیگی کیے جانے کی بات کی گئی ہے وہ زرمبادلہ میں پانچ ارب ڈالر سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔ یہ درست ہے کہ مقامی قرضہ جات زرمبادلہ کی شکل میں ادا نہیں کیے جانے ہوتے بلکہ مقامی کرنسی میں ہی دیے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی تھوڑا سا پڑھا لکھا شخص یہ بھی جانتا ہے کہ آپ اپنی کرنسی کا اتنا حجم چھاپ سکتے ہیں جو آپ کے محفوظ قیمتی ذخائر یعنی زرمبادلہ اور سونے کی قیمت سے دوگنا، تین گنا اور انتہائی صورت میں چار گنا سے زیادہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نوٹ چاہے سو روپے کا چھاپا جائے یا ایک ہزار کا یا پانچ ہزار کا اس پہ لاگت تقریبا” ایک سی آتی ہے۔ عندالطلب کو ادا کیے جانے والا فقرہ اصل میں مرکزی بینک سے حکومت کے لیے ہوئے قرض کی نشاندہی کرتا ہے اور اپنی کرنسی کو ظاہر ہے کسی سے متساوی و متقابل تو کرنا ہوتا ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ حکومت جتنا چاہے اتنے نوٹ چھاپ نہیں سکتی لیکن ان کی زرمبادل کے مقابلے میں قدر کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ یوں درآمدی اشیاء کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور برآمدات میں نقصان ہونے لگتا ہے نتیجتا” برآمد کم ہونے لگتی ہے۔ اس طرح افراط زر بڑھ جاتا ہے اور اندرونی منڈی میں اشیاء کی قیمتیں چڑھنے سے مہنگائی ہو جاتی ہے اور لوگ بنیادی ضروریات کی اشیاء خریدتے ہوئے بھی حساب کتاب کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسا صرف غریب یا متوسط ملکوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ امیر ملکوں میں بھی معیشت کے اتار چڑھاؤ کے یہی پیمانے ہیں۔
ملک پر چڑھے غیر ملکی قرضوں کی رقوم بھی ہر سال کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ نئے لائق وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لے لیے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جی ہاں کوئی مضائقہ نہیں صرف قرض مزید بڑھ جائے گا اور سود پہ مزید زیادہ رقوم دی جانی پڑیں گی۔ ویسے تو مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ دائیں بازو کی یہ مذہب پرست مقتدر جماعتیں سود پہ قرضے لے کیسے لیتی ہیں جنہیں یہ باقاعدہ پتہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ بہرحال ڈار صاحب سیاسی کی بجائے سفارتی زبان استعمال کر گئے ہیں کہنا دراصل وہ یہ چاہتے تھے کہ قرض اتارنے کے لیے قرض لیے بنا چارہ نہیں ہے۔ قرض پہ قرض لیے جانے سے غالب کا وہ معروف شعر یاد آتا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
بجلی کا مسئلہ سالوں میں حل نہیں ہو پائے گا۔ لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے کی سعی میں افراط زر بڑھ جائے گا ، اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ غریب مزید غریب ہو جائیں گے کیونکہ دس ہزار روپے ایک سو روپے فی ڈالر کے حساب سے ایک سو ڈالر کے برابر ہیں جب کہ 115 روپے فی ڈالر کے حساب سے یہ رقم چھیاسی اعشاریہ پچانوے ڈالر کے برابر ہوگی اور علٰی ہذالقیاس۔ لوگ تو پہلے ہی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ چکے ہیں،کیا انہیں مزید صبر کی تلقین درست اور کارگر ہوگی؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ گرمیاں ختم ہوتے ہی ستمبر کے اواخر میں ملک میں الاماں الحفیظ کا شور مچنے لگ جائے۔
اوپر سے ہمارے ہاں افسر شاہی کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی بھی ہے۔ لوگ ٹیکس دینے کا تصور ہی نہیں رکھتے جس کا ثبوت بہت کچھ سامنے آ جانے کے بعد مزید کیا چاہیے۔ ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ مفلوج ہے۔ تاجر، کاروبار سے وابستہ افراد اور زمیندار ٹیکس ادا کرنے کا سوچتے تک نہیں البتہ اول الذکر دونوں یہ ضرور سوچتے ہیں کہ ٹیکسوں سے جان کیونکر چھڑائی جائے۔ آخرالذکر یعنی زمینداروں پہ تو ٹیکس ہیں ہی نہ ہونے کے برابر۔ ملک کی آمدنی نہیں ہوگی تو اخراجات کہاں سے کرے گا۔ ایک ہی طریقہ بچ رہتا ہے یعنی بالواسطہ ٹیکس بڑھانے کا جس سے اشیاء اور حدمات مزید گراں ہو جائیں گی اور لوگوں کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا۔
ڈر لگتا ہے کہ کہیں لوگ پہلی حکومت کی بدتر کارکردگی کا نزلہ اس حکومت پر جلد ہی نہ اتار دیں اسلیے بدعنوانی کے خلاف اور بدعنوانی روکنے کے حق میں نعرہ بازی اپنی جگہ مگر حکومت کو سرکاری ڈھانچے میں ایک بنیادی تبدیلی کر دینی چاہیے۔ وزارتوں سے سیکریٹری کا عہدہ بیوروکریٹ کے لیے ختم کر دیا جائے اور وزیر کو ہی سیکریٹری قرار دے دیا جائے۔ ڈپٹی سیکریٹریز کو نائب وزراء مانا جائے اور یوں ان کی ذمہ داری بنا دی جائے کہ اپنی وزارت کو صاف، شفاف، مستعد اورتعمیری بنائیں وگرنہ جواب دہی کے لیے تیار رہیں۔ امریکہ میں وزیر خارجہ کو سیکریٹری آف سٹیٹ کہا جاتا ہے اور روس میں وزیر کو سربراہ وزارت اور ڈپٹی سیکریٹریز کو نائب وزراّ۔ اس چھوٹے سے ایک عمل سے ذمہ داریاں متوازن ہو جائیں گی یوں نہ تو سیاستدان بیوروکریٹ کو الزام دے سکے گا اور نہ بیوروکریٹ سیاستدان وزیر کو ہدف تنقید بنا سکے گا۔ اس عمل کی باریکیاں دیکھنے اور فرائض کا تعین کیے جانے کی خاطر ماہرین کی کمیٹی بنا دی جائے جو زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں مختلف ملکوں کے اس طرح کے نظاموں کا جائزہ لے کر فیصلہ کر دے۔ اس طرح بدعنوانی تو کم نہیں ہوگی لیکن ذمہ داری کا احساس یقینا” بڑھ جائے گا۔ تعمیر نو کا پہلا مرحلہ یہی ہونا چاہیے، اس کے بعد نچلے اہلکاروں کی تنخواہیں بڑھانا اور اعلٰی افسروں کی آمدنی پہ کڑی نگرانی رکھے جانے سے بدعنوانی کو کم کیے جانے کے عمل کا بھی آغاز کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ