مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگین ، خوفناک ، خطرناک ، جان لیوا جیسے جتنے بھی سخت سے سخت الفاظ ہیں اس مہنگائی کے سامنے بے اثر ہیں ۔ سمجھ نہیں آتی اردو لغت میں ایسا کون سا لفظ باقی ہے جو اس مہنگائی کے ساتھ لگایا جائے تاکہ اس کی شدت واضح ہوسکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لفظ وہاں اثر کرتے ہیں جہاں احساس باقی ہو۔ مگر جہاں احساس نام کی کوئی چیز باقی نہ ہو وہاں لفظ تو کیا چیختے چلاتے انسان بھی بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اور جہاں حکمران خود مہنگائی میں اضافہ کر کے کہہ رہے ہوں کہ وہ ملک کی معیشت بچا رہے ہیں ایسے میں معیشت بچے نہ بچے عام آدمی کا بچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ انہی تجربہ کار جماعتوں کے لوگ ہی تھے جو ہر روز ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دیا کرتے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر ملک کو معاشی بدحالی سے نجات دلائیں گے پیٹرول کی قیمتیں کم کریں گے ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم کریں گے۔ مگر ملک کی حالیہ معاشی صورتحال دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکمران ملک کے حالات بہتر کرنے نہیں بلکہ اپنے معاملات سیدھے کرنے آئے ہیں۔ قیمتوں کا ایک بار بڑھ جانا بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اگر قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی چلی جائیں تو یہ ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر یہاں تو حالت یہ ہے کہ صبح سے شام تک مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہورہا ہے کہ عام آدمی کے ہوش اڑا دیتا ہے۔
گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعت مریم اورنگ زیب نے بتایا کہ بچت مہم کے تحت بیرون ملک علاج ، بیرونی دوروں سمیت سرکاری اداروں میں کھانے ، فرنیچر کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ سرکاری اداروں میں نئی گاڑیوں کی خریداری پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ جبکہ گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں نے مارکیٹیں شام 8 بجے بند کرنے پر اتفاق پیدا ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں نے تاجر تنظیموں سے مشاورت کے لیے دو دن کی مہلت مانگ لی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے وفاقی کابینہ اور سرکاری ملازمین کے فیول کا کوٹہ کم کر کے 40 فیصد کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ اس بات کی شاہد کہ ہر حکومت آنے کے بعد سب سے پہلا کام یہی کرتی ہے کہ وہ بڑے بڑے اعلان کرتی ہے۔ خاص طور پر سادگی اپنانے کے بڑے بڑے دعووں کے ساتھ ساتھ غیر ضروری اخراجات کے خاتمے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں۔ اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ 90 کی دہائی سے لیکر مشرف تک اور مشرف سے لیکر خان تک تمام حکمرانوں نے سادگی اور کفایت شعاری اپنانے ناجائز پروٹوکول ختم کرنے کے اعلانات ضرور کئے مگر عمل درآمد نہیں کیا۔ آج ایک بار پھر عوام کو سادگی کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہا ہے دیکھتے ہیں یہ ٹرک عوام کو کہاں پہنچاتا ہے۔
مگر اس سے پہلے ایک غور طلب پہلو یہ ہے۔ ملک اس وقت معاشی ایمرجنسی کی صورت حال سے دوچار ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم کی شرائط پوری کرنے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ 60 روپے کا اضافہ کیا۔ جب کہ ابھی مزید اضافے کا خدشہ موجود ہے۔ مگر دوسری طرف سرکاری ملازمین اور وفاقی صوبائی کابینہ اور ممبران اسمبلی کھوہ کھاتے اور مفت کھابے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہے۔ مثال کے طور پر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں اور اداروں کے ملازمین سالانہ اربوں روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں گریڈ 4 سے 22 تک بالحاظ عہدہ ملازمین 300 سے 1300 یونٹ تک مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ جب کہ اس وقت پورا ملک بجلی کی کمی کا شکار ہے اور بجلی کی قیمتیں عوام پر بجلی گرا رہی ہیں۔
اسی طرح تمام ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کی سرکاری مصروفیات کے لیے آمد و رفت کے تمام اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم اور وزراء کے سفر کے لیے گاڑیوں کے فیول کی کوئی حد مقرر نہیں وہ لا محدود پیٹرول استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سینئر افسران کو گاڑیوں کے لیے ماہانہ 65 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ادا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ممبران اسمبلی اور سرکاری افیسران کے دیگر اخراجات الگ سے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں بھی ہورہا ہے جب ملک میں پیٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ اور ملک معاشی بدحالی کے خطرناک دور سے گزر رہا ہے۔
ایسی صورت حال میں جب حکومت سادگی اپنانے کے اعلانات کر رہی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اب بھی سادگی کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا یا اشرافیہ بھی کوئی قربانی دے گی۔ کیوں کہ عوام تو 74 سال سے قربانیاں دے رہے ہیں اور نہیں معلوم قربانیوں کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے۔ ویسے بھی حکومت جب چاہتی ہے جیسے چاہتی ہے جتنا چاہتی ہے عوام کی کھال نوچ لیتی ہے ۔ کبھی پیٹرول مہنگا کر کے ، کبھی بجلی ، گیس مہنگی کر کے اور کبھی یوٹیلی بلوں پر اور کبھی مختلف اشیاء پر ٹیکس لگا کر عوام سے قربانی لے لی جاتی ہے۔ لیکن کیا اس بار اشرافیہ بھی قربانی دے گی ؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمام ممبران اسمبلی کی تنخواہیں اور تمام تر مراعات 6 ماہ کے لیے ختم کر دی جائیں۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ تمام مراعات واپس لے لی جائیں۔ پیٹرول کا کوٹہ 40 فیصد کم کرنے کے بجائے 100 فیصد کم کر دیا جائے ۔ بجلی کی مفت فراہمی ختم کر دی جاۓ۔ اسی طرح دیگر فضول اخراجات کے ساتھ ساتھ ناجائز پروٹول ختم کر دیا جائے تو يقینا ملک کو در پیش بحران سے نكلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کیوں کہ جب تک عوام کے ساتھ ساتھ اشرافیہ بھی قربانی نہیں دے گی اس وقت حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔
چلتے چلتے ایک اور بات گزشتہ روز سوشل میڈیا پر پیٹرولیم مصنوعات میں تیسری بار اضافے کی ایک خبر سامنے آئی۔ تو لوگوں نے رات 12 بجے سے پہلے ایک دو لیٹر پیٹرول ڈلوانے کے لیے آندھی اور طوفان کی طرح پیٹرول پمپوں کا رخ کیا۔ جہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ ممکن ہے یہ خبر عوام کا رد عمل دیکھنے کے لیے پھیلائی گئی ہو ۔ مگر سچ تو یہ عوام سڑکوں پر نہیں پیٹرول پمپوں پر نظر آئے حلانکہ جتنے لوگ سستے تیل کے لیے پیٹرول پمپوں پر نکلے اتنے لوگ اگر مہنگے پیٹرول کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے تو آج ملک کے حالات یہ نا ہوتے۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی