حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبید خواجہ درست کہتے ہیں ’’جنم بھومی سے بچھڑے مسافروں کے نوحے کبھی ختم نہیں ہوتے‘‘۔ لوگ جنم بھومی سے خوشی کے ساتھ بھلا کب بچھڑتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی مجبوری وچھوڑے کی بنیاد بنتی ہے۔
زندگی کے سب سے خوبصورت ماہ و سال وہی تھے جب ہمزاد فقیر راحموں کے ساتھ امڑی کے شہر میں بستے تھے۔ قادرپور راواں کے مکان سے پاک دروازہ کے پاس استاد کمتر کے آستانے والی گلی میں کرائے کے گھر میں ، راواں والا مکان ایک ضمانت کی بھینٹ چڑھا۔ ایک دوست کے لین دین کے معاملات تھے۔
ہم سے چوتھائی صدی کا تعلق تھا۔ جذبات یا دوستی کے رشتے کے فخر میں ان کی ضمانت دے بیٹھے۔
وہ دوست مختلف محکموں میں حق خدمت کے عوض سرکاری ملازمتیں دلواتے تھے۔ بھروسہ اور تجربہ دونوں نے اعتماد دیا۔ ان کا ایک احسان بھی تھا وہ یہ کہ میرے ایک عزیز کو انہوں نے معمولی سے حق خدمت کے عوض ملازمت دلوائی تھی۔ تب عزیزم کے ساتھ بھرتی ہونے والے اسے بتاتے تھے کہ ہم پانچ یا چھ لاکھ روپے کے عوض بھرتی ہوئے ہیں۔
اسی اعتماد پر اس دوست سے ہوئے دو معاملات میں ضمانت دے بیٹھے۔ غلطی یہ ہوئی کہ دوستی کے اعتماد میں ضمانت کا چیک ہم نے دے دیا۔
یہ معلوم نہیں تھا کہ اس بار وہ ’’مار‘‘ پر ہیں اور مختلف لوگوں سے رقم لے کر پتلی گلی سے ملک چھوڑ جائیں گے ۔ ہم سمیت ان کے دو تین اور دوست سادگی، محبت، اعتبار یا بے وقوفی جو بھی کہیں بھروسے کے جال میں آگئے تب راواں والا مکان فروخت کرکے چیکوں والے تنازع سے جان چھڑانا پڑی اور ہم استاد کمتر کے آستانہ والی گلی میں ایک گھر میں کرایہ دار ہوگئے۔
تین چار برس وہاں گزرے۔ یہ وہ دن تھے جب تقریباً روزانہ کی بنیاد پر سید حسن رضا ( رضو شاہ ) شاہ بخاری سے پریس کلب میں، جناب مرزا گلزار بیگ سے ان کے دفتر میں، جسے فقیر راحموں نے ’’آستانہ عالیہ گلزاریہ‘‘ کا نام دیا تھا اور برادر عزیز امتیاز احمد گھمن سے ان کے دفتر میں ملاقاتیں رہیں۔
تب وسیب کی قوم پرست سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ قوم پرست سیاست میں فعال ہونے کی داستان بذات خود کالم کی متقاضی ہے۔ البتہ دو تجربے ضرور ہوئے اولاً یہ کہ ہم ایسے قلم مزدور جنہوں نے حرف جوڑ کر روزی روٹی کا سامان کرنا ہو، عملی سیاست کی دنیا کے لوگ ہرگز نہیں۔
باوجود اس کے کہ وسب کے لوگوں نے بھرپور اعتماد دیا تھا ان برسوں میں اور قوم پرستوں کا ایک مضبوط گروپ بھی بن گیا ، لیکن معاملہ وہی تھا کہ روزی روٹی کریں یا سیاست، یوں ایک دن قوم پرست سیاست کو خیرباد کہہ کر رخصت ہونا پڑا۔
قیام ملتان کے ان برسوں میں آستانہ عالیہ گلزاریہ سے نشستوں کی ابتدا ہوتی جہاں برادرم ملک امجد سعید، بابر چودھری، منیر شاہین (منیر شاہین کو میں محبت سے گورکھا رجمنٹ کا بریگیڈیئر کہتا ہوں) اور دوسرے مستقل عقیدت مندان آستانہ عالیہ گلزاریہ کے علاوہ وقفے وقفے سے حاضری دینے والے دوست روزانہ جمع ہوتے۔
دنیا جہان کے موضوعات خصوصاً اخبارات کی دنیا کے شب و روز اور کارکن صحافیوں کے مسائل پر بحثیں ہوتیں۔ بابا جی گلزار (مرزا گلزار بیگ) ایسے مہمان نواز تھے کہ پانی بھی شدید پیاس کے باوجود اس وقت تک نہ پیتے جب تک کوئی دوست نہ آجاتا۔ کبھی کبھی تو اردگرد کی دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین کوبلاکر کہتے تمہیں پیاس لگی ہوئی پانی پیو،چلو دو چائے کا کہہ آئو میں بھی پی لیتا ہوں۔
مرزا صاحب ایسے ہی تھے ہمیشہ سے دوست نواز۔ کارکن ساتھیوں کے دکھ درد میں بڑھ کر شریک ہونے والے ہاتھ کے کھلے اور وسیع دسترخوان۔ اب ان جیسی شخصیات چراغ رُخ زیبا لے کر تلاش کیجئے۔
برادر عزیز امتیاز احمد گھمن ان ماہ و سال میں ’’خبریں‘‘ ملتان کے آل اینڈ آل تھے۔ خبریں میں میرے کالم کی اشاعت ان کی وجہ سے شروع ہوئی۔ دنیا جہان کے موضوعات، عصری سیاست، قوم پرستی، طالبان گردی، فرقہ وارانہ تشدد اور تصوف۔ ہم نے جو بھی لکھا کسی کانٹ چھانٹ کے بغیر شائع ہوا۔
سرائیکی وسیب میں قلم مزدور کی حیثیت سے عام قارئین سے تعارف کا ذریعہ برادرم امتیاز احمد گھمن اور ’’خبریں‘‘ بنا۔
مجھے یاد ہے انہوں نے مرزا گلزار احمد کی موجودگی میں ایک دن کہا، شاہ جی آپ یقیناً بڑے توپ صحافی ہوں گے،
لاہور پشاور میں سب آپ کو جانتے ہوں گے لیکن ملتان جو آپ کا آبائی شہر ہے اور وسیب کو کیا پتہ آپ کیا کرتے ہیں۔ ’’خبریں‘‘ کے لئے کالم لکھیں۔ ان کی دعوت پر کالم لکھنا شروع کیا ہفتہ میں تین بار شائع ہونے والے کالموں کی بدولت وسیب میں بے پناہ عزت و تکریم ملی۔
’’بدلتا زمانہ‘‘ سے تعلق بھی ان کے اور برادر عزیز ملک محمد اکمل وینس کے محبت بھرے حکم پر ہے۔ انہوں (امتیاز گھمن) نے میری تحریروں کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا لیکن کبھی شکوہ کیا نہ یہ کہا شاہ جی ہاتھ ہلکا رکھیں ۔
ہم ایسے قلم مزدوروں سے بھلا کون خوش رہتا ہے۔ ملا، پنڈت، جرنیل شاہی اور مختلف الخیال سیاسی جماعتیں سبھی اکثر ناراض ہی رہتے ہیں۔
اپنی تعریف کے سوا کوئی کچھ سننا پڑھنا کب چاہتا ہے۔ آستانہ عالیہ گلزاریہ اور ان سے ہونے والی روزانہ نشستوں کے درمیانی وقت میں ملتان پریس کلب میں نشست جمتی۔ جہاں سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ دوپہر کے اوقات میں منتظر رہتے۔ ایک آدھ دن کے وقفہ سے یہ سلسلہ تقریباً تین ساڑھے تین برس تک قائم رہا۔
شہر اور وسیب کے دوستوں کو علم تھا کہ ہم پریس کلب میں روزانہ بیٹھتے ہیں اس لئے رونق لگی رہتی۔ رضو شاہ وسیع المطالعہ دوست تھے ان سے مختلف موضوعات پر مکالمہ ہوتا۔ جونہی شام کے آثار نمودار ہوتے وہ کہتے
’’اچھا بھئی شاہ کل گال اتھائوں شروع کریسوں‘‘۔ معروف صحافی ارشد بٹ، سرائیکی کے قادرالکلام شاعر اور صحافی اسلم جاوید پریس کلب میں منعقد ہونے والی اس محفل میں مستقل شریک ہوتے۔
کبھی کبھی شکیل بلوچ اور دوسرے دوست خصوصاً منصور کریم سیال، سید ندیم شاہ اور محمود نظامی بھی آجاتے محفل دوبالا ہوجاتی۔
سرائیکی قوم پرست سیاست تو مستقل موضوع تھا۔ شاندار موضوع گزشتہ شب زیرمطالعہ رہنے والی کتاب ہوتا۔ محفل کے آغاز میں رضو شاہ کاپہلا سوال ہوتا ’’یار شاہ اجکل کیا پڑھدا پئیں؟‘‘
یہاں سے گفتگو کا آغاز ہوتا پھر بات سے بات نکلتی چلی جاتی۔ ان برسوں میں ہفتہ وار دو حاضریاں الگ سے ہوتیں۔
اولاً برادر عزیز شاکر حسین شاکر کے آستانہ کتاب نگر پر اور دوسری عزیز جاں دوست کامریڈ دلاور عباس صدیقی کے مزدور یونین والے دفتر میں۔
یہ غالباً سال 2014ء کے دسمبر کی بات ہے جب رحمت شاہ آفریدی، عقیل یوسفزئی اور استاد مکرم اکرم شیخ کا مشترکہ فون آیا اور تینوں نے مان اور محبت کے ساتھ حکم دیا کہ سامان باندھوں اور لاہور کے لئے روانہ ہوجائوں۔
برادر عزیز امتیاز احمد گھمن، رضو شاہ اور معروف دانشور رانا محبوب ہمارے صلاح کار تھے تینوں کا مشورہ تھا اس پیشکش کو قبول کرلیا جائے۔
برادر امتیاز گھمن کا موقف تھا مین سٹریم میڈیا میں واپسی کا راستہ مل رہا ہے اس لئے کسی تاخیر کے بغیر ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ گروپ جوائن کرلینا چاہیے۔ رضو شاہ کہتے تھے، یار دل تو نہیں چاہتا کہ تم اپنا شہر چھوڑ کر جائو لیکن صرف دوپہر کی محفلوں کے لئے تمہیں روکنا خودغرضی ہوگی۔
ملتان میں ایسا کچھ ہے بھی نہیں کہ ہم یہ پیشکش کرسکیں کہ فرنٹیئر پوسٹ والے جو حق خدمت دیں گے وہ یہیں مل جائے گا۔ ہمارے محبوب دوست اور دانشور رانا محبوب نے لاہور روانگی کا راستہ کمال دانش سے ہموار کیا۔
ہم لاہور جائیں کہ نہ جائیں بارے سوچ رہے تھے۔ ایک شام انہوں نے کھانے پر یاد کیا۔ کھانا بس ملاقات کا بہانہ تھا۔ طویل نشست ہوئی۔
کہنے لگے، شاہ جی اگر بلھے شاہؒ اور شاہ حسینؒ بننا تھا تو پھر گھر داری کے چکر میں نہ پڑتے۔ تمہاری صاحب زادی نے میٹرک کا امتحان دیا ہے، بچوں کو اس عمرمیں والد کی اشد ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بیٹیوں کو کیونکہ وہ والد کو دوست سمجھتی ہیں۔ تم ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘ والوں کی پیشکش قبول کرو اور لاہور چلے جائو۔
شیخوپورہ سے صبح لاہور آکر شام کو آسانی سے واپس جایا جاسکتا ہے (تب میری خاتون اول شیخوپورہ میں ایک ہائی سکول کی پرنسپل تھیں) ان مہربان دوستوں کے صادق مشوروں نے لاہور روانگی کو یقینی بنایا اور یوں 15دسمبر 2014ء کی شب ہم امڑی کے شہر سے ایک بار پھر بچھڑے اور لاہور چلے گئے۔
پچھلے سات برسوں سے وقفے وقفے کے ساتھ ملتان آتا ہوں دو تین یا چند دن قیام بھی کرتا ہوں۔ محفل دوستاں آباد ہوتی ہیں۔ کچھ دوستوں کے شکوے بھی ہیں کہ ملاقات نہیں ہوتی۔
لیکن بات وہی ہے جو ان تینوں مہربانوں نے کہی تھی، اولاد کی نعمت کا احساس ان کے پاس رہنے سے ہوتا ہے میں اپنے ان تین مہربانوں رانا محبوب، امتیاز احمد گھمن اور مرحوم رضو شاہ کا آخری سانس تک شکرگزار رہوں گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر