اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی وفات||ظہور دھریجہ

ایک ریسرچ سکالر نے اپنے مقالے میں سرائیکی اور سندھی کو سسٹر لینگویج قرار دیا تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے سٹیج پر آکر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی مدر لینگویج ہے ، سرائیکی اور سندھی کا رشتہ ماں، بیٹی کا رشتہ ہے، سرائیکی ماں ہے اور سندھی بیٹی ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ نقاد پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امریکہ میں انتقال کرگئے، ان کی 91 برس تھی، گوپی چند نارنگ کا وسیب سے تعلق تھا، تقسیم کے وقت ہندوستان چلے گئے۔ گوپی چند نارنگ نے اردو زبان کی ترقی کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں اور ان کو ادبی خدمات کے صلہ میں ہندوستان کا سب سے بڑا ’’پدم جی‘‘ ایوارڈ حاصل ہوا۔ اردو کی خدمت کرنے پر ان کو تعصب اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا اور یہ بھی کہا گیا کہ وہ پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، ہندی ادب کی لابیوں نے ان کی جدید تحقیق کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دینے کی کوشش کی مگر ان کے طاقتور کام کی وجہ سے ان کے ناقدین ناکام ٹھہرے۔ پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اردو اکیڈمی دہلی کے 1996ء سے 1999ء تک صدر رہے، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے وائس چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے بہترین خدمات سر انجام دیں، وفات سے پہلے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بھارت کے سب سے اہم ادبی ادارے ساہتیہ اکادمی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ 11 فروری 1931ء کو دُکی میں پیدا ہوئے لیکن بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ لیہ آ گئے۔ یہاں 1945ء میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی، 1948ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے بی اے آرنر کیا، 1958ء میں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی، 1981ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے قائم مقام چانسلر اور امریکا کی امکانسن یونیورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہے۔ 60 سے زائد تحقیقی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں خصوصی لیکچر دینے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ معراج العاشقین، اردو کی تعلیم کا لسانی پہلو، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ مثنویاں، ادبی تحریکیں ، اردو شاعری میں ہندوستانی عنصر، انتھالوجی آف ماڈرن اردو پوئٹری، انتھالوجی آف اردو شارٹ سٹوریز قابل ذکر تصانیف ہیں۔ ان کی کتاب ’’اردو غزل اور ہندوستانی تہذیب ‘‘ اور ’’ہندوستان کی تحریک آزادی میں اردو شاعری‘‘ نے بہت مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ اسی طرح امیر خسرو کا ہندی کلام اور سانحہ کربلا اور اردو لسانیات کے علاوہ ثقافتی و تاریخی مطالعات نامی کتابوں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو نامور بنا دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو اپنی جنم بھومی سے بے پناہ محبت تھی، 1992ء میں پہلی عالمی سرائیکی کانفرنس دہلی کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے سر انجام دئیے، کانفرنس کے میزبان بیرسٹر جگدیش بترا تھے تاہم ادبی امور کے نگران ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تھے۔ کانفرنس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے سرائیکی زبان کی قدامت پر جو مقالہ پڑھا اس میں انہوں نے ثابت کیا کہ وادی سندھ کی اصل زبان سرائیکی ہے اور بر صغیر کی اکثر زبانیں اسی زبان سے پیدا ہوئی ہیں جسے پہلے ملتانی و دیگر زبانوں کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اب جسے سرائیکی کہا جاتا ہے۔ ایک ریسرچ سکالر نے اپنے مقالے میں سرائیکی اور سندھی کو سسٹر لینگویج قرار دیا تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے سٹیج پر آکر اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی مدر لینگویج ہے ، سرائیکی اور سندھی کا رشتہ ماں، بیٹی کا رشتہ ہے، سرائیکی ماں ہے اور سندھی بیٹی ۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے یہاں تک کہا کہ سرائیکی ہندی اور سنسکرت کی بھی ماں ہے۔ سرائیکی کانفرنس دہلی میں شرکت کیلئے جانیوالے ہمارا وفد کا قیام جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تھا، اس دوران ان سے کافی ملاقاتیں رہیں، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو لیہ اور ملتان کی ایک ایک گلی اور ایک ایک کوچہ یاد تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تقسیم کے وقت میں جوان تھا، وہ دریائے سندھ اور اس کی لہروں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے اور صحرائے تھل کے بارے میں بتاتے تھے ۔ملاقات کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کاش ہمارے بزرگ نقل مکانی کا فیصلہ نہ کرتے۔ ان کو اس بات پر بھی دکھ تھا کہ میں نے ادب پر اتنا بڑا کام کیا ہے مگر ہندوستان کی مقامی ادبی اشرافیہ میرے کام پر ناجائز تنقید کرتی رہتی ہے، ان کو اردو پر اعتراض ہے تو میں ان کو کہتا ہوں کہ اردو ہندی سے پیدا ہوئی اور اردو کی جنم بھومی ہندوستان ہے، دہلی ، لکھنو اور دکن میں یہ پلی بڑھی اور جوان ہوئی، یہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ جس خطے سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا ،پاکستان بننے سے وہاں کی قومی زبان بن گئی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے یہ بھی بتایا کہ تقسیم کے وقت سرائیکی علاقوں سے کثیر آبادی ہندوستان آئی ، آنے والوں کی یہاں رجسٹریشن بہاولپور ، ملتان ، ڈیرہ غازی خان ، لیہ ، میانوالی، جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں و دیگر ناموں سے ہوئی مگر زبان سب کی ایک تھی۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بتایا کہ چند ماہ پہلے میانوالی سے پروفیسر سلیم احسن دہلی آئے تو اپنے ساتھ سرائیکی کتب کے علاوہ سرائیکی اخبار جھوک کے شمارے لائے، جب ہم نے سرائیکی اخبار دیکھا تو ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی ، ہم ایک دوسرے کو ’’ودھائیاں ‘‘ مبارکباد دینے لگے کہ ہماری ماں بولی کا ’’ڈینھ وار ‘‘ روزنامہ آ گیا ہے، ہم نے فوٹو کاپیاں کروا کر ایک دوسرے کو دیں، اسے دیکھنے کے بعد بیرسٹر جگدیش بترا اور ہم نے ملکر عالمی سرائیکی کانفرنس منعقد کرانے ، سرائیکی انٹرنیشنل کے نام سے میگزین کے اجراء اور ادبی ادارہ سرائیکی ساہتیہ سنگم بنانے کی بنیاد رکھی، آج کی کانفرنس بلاشبہ سرائیکی اخبار کے آنے کی خوشی کا ثمر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اپنی ذات میں انجمن تھے، ان کے کام کو دیکھا جائے تو انہوں نے سرحدوں سے ماورا ہو کر ادب کیلئے کام کیا۔ اردو زبان کا کام کرنے پر ان کو بھارت کے علاوہ مشرق وسطیٰ ، انگلینڈ، امریکہ اور دیگر ممالک نے بھی اعزاز سے نوازا ۔ 1977ء میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو ان کی کتاب علامہ اقبال پر حکومت پاکستان کی طرف سے قومی میڈل سے نوازا گیا۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: