عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بجلی پیدا کرنے والے سرمایہ داروں، ٹیکسٹائل سرمایہ داروں اور جرنیل شاہی کی سبسڈی ختم نہ کرنے کا مطلب صاف ہے سرمایہ داروں کو بچانا ہے –
یہ سبسڈی کسی جماعت کی حکومت نے ختم نہیں کی مطلب
پاکستان کی جُملہ سیاسی جماعتوں کے پالیسی سازی کے مراکز پہ عالمی و مقامی سرمایہ داروں کا مفاد عام آدمی کے مفاد سے کہیں زیادہ عزیز ہے –
پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن اپنی پارٹی میں عام آدمی کے مفاد اور سرمایہ داروں کے مفاد کے درمیان تضاد کو پہچانتے ہوں گے تب ہی وہ اپنی جماعت کی معاشی پالیسی بارے یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے کہ آیا اُن کی جماعت کا جھکاؤ سرمایہ داروں کی طرف ہے یا عوام کی طرف!
پاکستان پیپلزپارٹی اس وقت ایک ایسی حکومت کا حصہ ہے جس کا معاشی فلسفہ یہ ہے کہ ملک کی معشیت کا کرنٹ مالیاتی خسارا، تجارتی خسارا، امپورٹ بل اور ایکسپورٹ بل میں عدم توازن ان سب کا سبب پٹرول، بجلی،گیس وغیرہ پر عوام کو دی جانے والی سبسڈیز ہیں جبکہ سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیز، جرنیلوں، بے وردری نوکر شاہی کی افسر پرتوں سمیت حکومتی و ریاستی اداروں پہ کیے جانے والے اخراجات /سبسڈیز بہت ضروری ہیں –
پارٹی کی تنظیم کے اندر سی ای سی ہو یا فیڈرل کونسل ہو یا صوبائی کونسلیں ہو یا ضلعی ایگزیکٹو کونسل ہوں اُن میں کہیں اس حکومت کے یا سابقہ حکومت کے سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیز اور اُن کی خدمت پہ مامور ریاستی اداروں کی افسر شاہی کی مراعات پہ خرچ ہونے والے اخراجات کے خاتمے کی کوئی باقاعدہ قرارداد تک نہیں آئی –
پاکستان پیپلزپارٹی سندھ نے آج تک حکومت سندھ سے مطالبہ نہیں کیا کہ وہ سندھ کے اندر تمام اداروں میں کم از کم تنخواہ، ڈومیسٹک لیبر کی رجسٹریشن اور اُن کو جملہ مزدور حقوق بمطابق لیبر قوانین پر عمل ممکن بنائے – کارخانوں، فیکٹریوں سمیت ہر سیکٹر میں ٹھیکداری سسٹم کے خاتمے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد کیا اس کا فرض نہیں بنتا کہ یہ سندھ کے مقامی و عالمی سرمایہ کاروں کو ٹھیکداری سسٹم ختم کرنے کے لیے سندھ حکومت کو اقدامات اٹھانے پر زور دے
اگر عوامی سیاست کی علمبردار جماعت کے بڑے چھوٹے تنظیمی عہدے دار پارٹی کی تنظیم اور پارٹی کی حکومت کے درمیان فرق بُھلا دیں تو عوام کے حقوق کا تحفظ سرمایہ داروں کے تحفظ کے مقابلے میں کمتر ترجیح رہ جاتا ہے –
اگر کم از کم اُجرت کمانے والے مزدور کے بارے میں یہ فرض کرنا جائز ہے کہ وہ 200 روپے فی لٹر پٹرول سے پبلک ٹرانسپورٹ میں اضافی کرایہ کے ساتھ سفر کرلے گا اور اگر اُس کا خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسڑڈ ہے تو اس کو مزید 2 ہزار روپے کی امداد کافی ہوگی
تو
صدر، وزیر اعظم، وزراء، چیف منسٹرز، اُن کی کابینہ کے اراکین، مشیر، گزیٹڈ افسران، فوج کے کپیٹن سے لیکر فُور اسٹار جنرلز تک اُن سب کے بارے میں یہ فارمولا کیوں وضع نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وپ اپنی لاکھوں روپے تنخواہ و الاؤنسز کے ساتھ پٹرول خرید کر اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں؟
ملک دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے جس بوجھ میں درجہ چہارم سے نان گزیٹڈ اسکیل سرکاری ملازمین اور ان سے کم درجے پر کھڑے اُن جیسے غیر سرکاری ملازمین اگر 200 روپے کا پٹرول خریدنے کا بوجھ شیئر کرتے ہیں تو ان سے اوپر اسکیل کے افسران و ملازمین کیوں نہیں کرتے؟
یہ سوال حکومت سے بار بار کریں، اپنی جماعت کی قیادت سے بھی کریں….
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر