گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ کے پرانے رکشے اور ماحول ۔۔
ہم نے پرانے پلر Puller رکشے بند کر کے چنگچی توچلا دی مگر یہ اب ماحول کے لئے عذاب بن چکی ہے ۔ اگر انہیں رکشوں پر بجلی کے انجن لگاتے تو آلودگی نہ ہوتی۔ہمارے بزرگ صحافی محترم عزیزاللہ اعوان صاحب پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں ۔عزیزاللہ اعوان صاحب نے پلر رکشوں کی ڈیرہ میں تاریخ پر بتایا کہ ۔۔
ڈیرہ میں پہلے پہل ایک گڈا شاہ نامی شخص لاہور سے 4/5 رکشے لایا تھا۔ یہ 1950 کی بات ہے۔ 2 آنے فی سواری کرایہ تھا۔ اس کے بعد ڈیرہ میں زیادہ تر مہاجریں نے رکشے بنائے اور چلانے شروع کیے۔ بعد میں ڈیرہ وال بے روز گاروں نے چلانے شروع کر دئے۔ اس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم کے پہلے دور 1990_ 91 میں نواز شریف کے حکم پر ڈیرہ اور بہاول پور میں سائیکل رکشے بند کر دئے گیے اور ان رکشوں کے عوض سوزوکی گاڑیاں اقساط پر دی گئیں۔۔
اب چنگچی سے جان چھڑانے کی باتیں ہوتی ہیں بہتر یہ ہے ان کو الیکٹرک میں تبدیل کیا جائے۔
جناب وجاہت عمرانی صاحب کے کمنٹس ۔۔۔
آپکے دوست عزیز اللہ اعوان نے بالکل بجا فرمایا. ڈیرہ میں کمرشل طور پر رکشے کو لانے والے گڈا شاہ ہی تھے جو کہ محلہ بموں شاہ کے رہائشی تھے اور آج بھی انکا خاندان گڈے شاہ والے مشہور ہیں, بہرحال ڈیرہ میں رکشے کی آمد 1937 کے بعد ہوئی جب اکا دکا مسلمان اور ہندو امیر کبیر لوگوں نے خصوصی طور اپنے لیے ملتان اور کلکتہ سے منگوائے اور وہ شام کے وقت بڑی سج دھج سے اس پر بیٹھ کر بنگلی باغ یا پھر دریا تک سیر کے لئے جاتے اور عوام انکو بڑی چاہت سے دیکھتی اور ان میں خاص کر اس وقت کا مشہور تاجر غلام محمد المعروف غلبی سیٹھ تھا. جس کے نام پر آج بھی گلی غلبی والی مشہور ہے،
شہنشاہ جلال الدین اکبر کی بیوی بھکری بیگم اور بھکر ۔
تاریخ بتاتی ہے بھکر 1572ء میں شہنشاہ اکبر کی مغل سلطنت کی ایک ریاست تھی جس کا حکمران سلطان محمود شاہ تھا۔ اسی سلطان محمود کی بیٹی بھکری بیگم کی شادی شہنشاہ اکبر سے 22جولائ 1572ء میں دھوم دھام سے ہوئ جس کی خوشی میں شاہ محمود نے 15 پُر تکلف دعوتیں کیں اور بے تحاشہ جہیز بیٹی کو دیا۔ اگرچہ اکبر بادشاہ خود بہ نفس نفیس تو بھکر نہیں آیا مگر اس کا ایلچی اعتماد خان شاھی حرم کو لے کر اکبر کے دربار پہنچا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ