حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقیر راحموں کا خیال ہے کہ بجٹ پر کالم لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، بلاوجہ لوگوں کو پریشان کرنے والی بات ہوگی۔ وہ خود بھی پریشان ہے کیونکہ مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں اور ڈالر کی ’’پرواز‘‘ سے ڈن ہل کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ سگریٹ کی مقدار البتہ کم کردی ہے۔
ایک دن کہنے لگا شاہ جی یہ جتنے کے ہم نے سگریٹ پئے یہ پیسے اگر جمع کرلئے ہوتے تو ایک عدد مکان کے مالک ضرور ہوتے۔ مکان سے یاد آیا کبھی گھر بنایا تھا پہلے پراپرٹی ڈیلروں کے ہتھے چڑھے تو بکھر گیا۔
برسوں بعد ملتان کےقریب ایک گھر بنایا تھا پھر وہ ایک ضمانت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب کیا دکھ پھرولنے اور بتانے ، یہ دکھ بھرے قصے قدم قدم پر سننے کو ملتے ہیں۔ بالآخر تھک ہار کر کسی دن آدمی ہار ہی جاتا ہے۔
دنیا یہی ہے ہماری دنیا بھی بہت عجیب ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے قدم قدم پر مچان میں شکاری گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ بچ کر آگے بڑھنے کی ہمت جس میں ہو وہی زندگی کے سفر کو طے کرپاتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچی تو میں نے فقیر راحموں سے کہا بجٹ پر بات کرلیتے ہیں۔
جواب ملا اس کا فائدہ۔ بجٹ میں تمہارے میرے لئے کیا رکھا ہے۔ بات تو اس کی درست ہے بجٹ میں ہمارے اور آپ کے لئے کیا رکھا ہے، کچھ بھی تو نہیں۔ ہاں ساڑھے سترہ سو ارب روپے مالدار طبقات کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے لئے ضرور رکھے ہیں۔ وزیر خزانہ کا تعلق جو اسی طبقہ ٔ امراء سے ہے۔
میں نے فقیر راحموں کو متوجہ کیا حکومت 40ہزار روپے سے کم آمدنی والوں کو 2ہزار روپے ماہانہ امداد دے گی۔ تڑخ کر بولا، کفن 37سو روپے کا ہے 17 سو روپے مرنے والے کو پلے سے ڈالنے ہوں گے۔
پھر ہنستے ہوئے بولا شاہ جی بات صرف مرنے اور کفن کی نہیں، یہ سات جمعراتیں، قل، چہلم، برسی، ان اخراجات کا کیا ہوگا۔ معاف کیجئے گا برا نہ منائیں یہ فقیر راحموں پر آجکل مایوسی کا سالانہ دورہ پڑا ہوا ہے ہر سال بجٹ کے موسم میں اس کی ایسی ہی حالت ہوجاتی ہے بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے۔
چلیں آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنائوں۔ ویسے تو ہر کرایہ دار کی دکھ بھری داستان ہے۔ ایسی ہی ایک داستان ہم نے گزشتہ شب سوشل میڈیا پر لکھ کر ڈال دی۔ ہمدردی اور افسوس کے طوفان کے بیچوں بیچ بیگم صاحبہ نے اردو میں کلاس لے لی کہ یہ سب فیس بک پر لکھنے کی ضرورت کیا تھی۔ یہی کہہ پائے کہ اور کیا کرتے مالک مکان کے مسلسل فون پر فون آرہے ہیں۔ اس کے خیال میں ہم بس تسلیاں دے رہے ہیں یہاں حالت خراب ہے۔ ڈیلروں کے چکمے اور مالکوں کے نخرے دیکھ کر ، اس پہ ستم یہ ہے کہ کرائے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ ساعت بھر کے لئے رکیں۔
فقیر راحموں نے ایک نئی نثری نظم لکھی ہے وہ پڑھ لیجئے۔ اس کا مرکزی خیال تو اس نے ہمارے محبوب شاعر اصرغ گورمانی کی ایک نظم سے لیا ہے۔ فقیر راحموں کی نظم کچھ یو ہے
’’اس سے کہنا، مالک، سنتے دیکھتے ہو سب، سو جان چکے ہوگے، زمین ساری تیری ہے لیکن، مالک، وکھرے کھرے ہیں، اللہ سائیاں، ایک پریشانی ہے، میں سوچ رہا ہوں جب تک کوئی گھر نہیں ملتا، کیوں نہ، اپنی کتابوں اور ٹبری سمیت، چند دن تیرے کسی گھر میں رہ لوں، بس ایک مسئلہ ہے، اور وہ تو ہی حل کرسکتا ہے، تیرے گھر پر جس کا قبضہ ہے، وہ مجھے رہنے دے گا؟ ”
سچ پوچھیں اب صورتحال یہی بن گئی ہے، ہیں بہت تلخ بندہ مزدور کے اوقات۔ اچھا اس اوقات کو منفی اور مثبت معنوں میں لینے کی ضرورت نہیں جس طرف اشارہ شاعر کا ہے اسی طرف بات ہماری بھی ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔
ہم اور آپ سے وہ لوگ اچھے ہیں جن کے ٹیکسوں کی چھوٹ کے لئے حکومت نے تقریباً ساڑھے 17سو ارب روپے رکھے ہیں۔ 2ہزار ماہانہ والی امداد کا پوسٹ مارٹم فقیر راحموں کرچکا مزید اس پر کیا کہا لکھا جائے۔
ویسے حکومت نے طالب علموں کو سستے داموں اور آسان قسطوں پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ’’بوڑھے طوطوں‘‘ کے لئے بھی کوئی سکیم ہوجاتی تو اچھا تھا۔
آگے بڑھنے سے قبل بیرون ملک مقیم ایک دوست ملک طاہر مسعود کا شکوہ ہے وہ پڑھ لیجئے۔
ملک کا کہنا ہے، شاہ جی ایک طرف حکومت ہم اوورسیز پاکستانیوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتی کہ ملکی زرمبادلہ کے لئے ہم ریڑھ کی ہڈی ہیں دوسری طرف ایک موبائل فون لانے پر بھی ٹیکس یہ تو ظلم ہے۔ ہم نے کہا کہ شکوہ اپنی جگہ درست ہے لیکن کیا کیجئے یہ ٹیکس بہت ضروری ہے ملک کی تعمیروترقی کے لئے۔ جواب ملا
’’آہو ساڈے فوناں دے ٹیکساں نال ای ملک نے ترقی کرنی وے‘‘۔ سچ پوچھیں تو حکومت کو اس معاملے پر ہمدردی کے ساتھ نظرثانی کرنی چاہیے۔ سال دو سال بعد بیرون ملک سے آنے والے محنت کش پاکستانی اگر ایک آدھ موبائل فون کسی پیارے کے لئے لے آئیں تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔
زرمبادلہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی قرار پانے والوں سے رعایت ہونی چاہیے۔ لیجئے ملک طاہر جی، آپ کا شکوہ لکھ دیا ہے البتہ اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ ارباب حکومت میں سے کوئی ہمارا کالم پڑھتا ہوگا یا کوئی پڑھ کر ان تک آپ کے احساسات پہنچادے۔ ویسے بھی ہم ایک عام سے قلم مزدور ہیں۔
دھانسو مارکہ کالم نگار بالکل نہیں سول و ملٹری بیوروکریسی میں جو ایک دو واقف تھے وہ ریٹائر ہوچکے۔ ارباب حکومت کو ہم ا یسے لوگوں کے مقابلے میں اپنے عزیز اور کارکنوں کے علاوہ وچولے پسند ہوتے ہیں۔
چلئے پھر سے کالم کے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یقین کیجئے کہ اس ’’کراماتی‘‘ وفاقی بجٹ پر پھڑکتا ہوا کالم لکھنے کا پورا پورا ارادہ تھا۔ نوٹس اور اخبارات سامنے رکھے ہیں مگر بھلا ہو ہمزاد فقیر راحموں کا جس نے وقت برباد کرنے سے منع کردیا اب دیکھیں نہ جس ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے 8سو ارب روپے اور دفاع کے لئے (ظاہری طور پر) 1523ارب روپے رکھے جاتے ہوں وہاں بجٹ پر لکھنا بنتا بھی تو نہیں۔ اس سے بھی دلچسپ حساب اور ہے وہ ہے پنشن کے لئے رکھے گئے 530ارب روپے کا۔ اس میں 395 ارب روپے مسلح افواج کی پنشن اور 135ارب روپے سول ملازمین کی پنشن کے لئے ہیں۔
کیسا حساب ہے امید ہے تسلی ہوگئی ہوگی۔ ہونی بھی چاہیے دشمن داری کے خرچے بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے اولین ضرورت لش پش ہوتی ہے۔
یہ ڈیفنس پنشن کی رقم ہمارے پرانے ممدوح کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈیفنٹ بجٹ سے نکال کر سول بجٹ میں کھپائی گئی تھی۔
ویسے تو اللہ بھلا کرکے دشمن داری کا گزشتہ سال ڈیفنس بجٹ ساڑھے 14سو ارب روپے تھا لیکن خرچہ 23 سو ارب روپے ہوگیا۔ اس ’’سیان پتی‘‘ اور کاریگری کی تفصیل ادھار رہی۔
ادھار پر یاد آیا ایک گزشتہ کالم پر قارئین نے اپنے پیغامات ماضی کے چند ادھار موضوعات یاد دلائے تو ہمیں بھی قبلہ مولانا خادم حسین رضوی مرحوم یاد آگئے۔
جی تو چاہتا ہے کہ کالموں کا ادھار یاد کرانے والے قارئین اور احباب سے کہ جائے ’’باز آجائو نئیں تے فیر آیا جے غوری‘‘۔
کہہ اس لئے نہیں پاتے کہ غوریوں میں سے صرف حکیم محمود خان غوری ایڈووکیٹ مرحوم سے خوب نبھتی رہی ، باقی کے غوریوں، ابدالیوں، قاسمیوں اور غزنویوں سے کبھی بنی نہیں۔ لیجئے آج کے کالم سے ہمیں اجازت دیں اگلے کالم کے ساتھ ملاقات ہوگی امید ہے تب تک فقیر راحموں کا غصہ کم ہوچکا ہوگا ہم وفاقی بجٹ پر تفصیل سے بات کریں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ