نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک افسانہ نگار سے اچھی غزل کی توقع نہیں کرنی چاہیے||مبشرعلی زیدی

یہ خاتون گوسپس یعنی گپ شپ کی شوقین تھیں۔ دوسروں کے بارے میں مزے لے لے کر باتیں کرتی تھیں۔ اسکینڈل بھی زیر بحث آتے تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا۔ احتیاط سے کام نہیں لیتی تھیں۔ ایک دن خود اپنے پھندے میں آگئیں۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خاتون نے پیغام بھجوایا ہے کہ عامر لیاقت سے متعلق میری تحریر کے بعد ان کے دل میں میرے لیے کبھی کوئی احترام تھا بھی تو وہ سب ختم ہوگیا۔ ایک اور خاتون نے آصف فرخی سے متعلق تحریر پر شدید ردعمل دیتے ہوئے الزام لگایا کہ میں دو سال سے ان کے خاندان کو بدنام کررہا ہوں۔
یہ کافی دلچسپ صورتحال ہے لیکن میرے لیے غیر متوقع نہیں۔ یہ جان کر آپ کو خوشی ہوگی کہ دونوں خواتین نے تسلیم کیا ہے کہ میں نے لکھا سب سچ ہے۔ جھوٹ ذرا سا نہیں۔
پہلی خاتون کو عامر لیاقت کے بارے میں گل افشانی پر کوئی اعتراض نہیں۔ انھیں مسئلہ اس بات پر ہے کہ میں نے ان کا ذکر کیوں کیا، حالانکہ میں نے ان کا نام نہیں لیا تھا۔ یہ وہی اینکر ہیں جنھیں عامر لیاقت نے شادی کی پیشکش کی تھی اور انھوں نے خود رازدار دوستوں کو بتایا تھا۔ ایک رازدار دوست نے نیوزروم میں کھڑے ہوکر بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔
یہ خاتون گوسپس یعنی گپ شپ کی شوقین تھیں۔ دوسروں کے بارے میں مزے لے لے کر باتیں کرتی تھیں۔ اسکینڈل بھی زیر بحث آتے تھے۔ زبان پر قابو نہیں تھا۔ احتیاط سے کام نہیں لیتی تھیں۔ ایک دن خود اپنے پھندے میں آگئیں۔
اب ان کی کہیں اور شادی ہوگئی ہے۔ خدا مبارک کرے۔ اب بھی، اور عامر لیاقت سے ہوجاتی، تب بھی انھوں نے مجھے برا ہی کہنا تھا۔ ان کا بنتا ہے۔
ایک اور بات یاد آئی۔ عامر لیاقت نے کسی پروگرام میں ایک نوجوان کے منہ میں آم گھسیڑ کے کہا تھا، آم کھائے گا آم؟
عامر لیاقت کے پرپوز کرنے کی خبر ان صاحبہ کے خود بریک کرنے کے بعد ایک ویڈیو ایڈیٹر نے ان کا ریکارڈ بجایا۔ وہ جب نیوزروم سے گزرتیں، ویڈیو ایڈیٹر آواز لگاتا، آم کھائے گا آم؟ سڑک کی گالی کو اپنے اوپر نہیں لینا چاہیے۔ لیکن خاتون ناسمجھ تھیں۔ ایک بار وہ پلٹ کر آئیں اور سب کے سامنے ویڈیو ایڈیٹر پر خوب گرجیں برسیں۔ اگر کسی کو معلوم نہیں تھا تو اس دن خبر ہوگئی۔
دوسری خاتون، جنھیں آصف فرخی کے بارے میں تحریر پسند نہیں آئی، مرحوم کی بیٹی غزل ہیں۔ جب انھوں نے بات شروع کی تو میرا خیال تھا کہ وہ والدین کی طلاق کا ذکر کرنے پر خفا ہوں گی۔ لیکن انھیں اس بات پر غصہ تھا کہ میری تحریر سے آصف بھائی ایک کمزور آدمی ثابت ہورہے ہیں۔
غزل صاحبہ فیس بک اور واٹس ایپ پر ان گروپس کی ایڈمن ہیں جن کا نام محبان آصف فرخی ہے۔ فیس بک گروپ کا میں بھی رکن تھا۔ اس گروپ کا مقصد ہی یہ تھا کہ آصف بھائی کو یاد کیا جائے۔ اگر میں نے یاد کیا تو کیا غلط کیا؟ اگر انھیں یاد کرنے پر پابندی ہے تو یہ گروپس کیوں بناکر بیٹھی ہوئی ہیں؟
میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بات کا الٹا مطلب لیتی رہیں۔ لیکن بہرحال یہ مان لیا کہ لکھا میں نے سب سچ ہے اور انھوں نے گفتگو میں بعض الفاظ غلط استعمال کیے ہیں۔ یہ میری سمجھ میں نہیں آسکا کہ انھوں نے مجھ پر اپنے خاندان کو دو سال تک بدنام کرنے کا الزام کیوں لگایا؟
اگر آصف بھائی زندہ ہوتے اور غزل اس انداز میں بات کرتیں، تو بھی میں ان سے شکایت نہ کرتا۔ وہ افسانہ نگار تھے، شاعر نہیں تھے۔ ایک افسانہ نگار سے اچھی غزل کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

About The Author