گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ڈیرہ اسماعیل خان میں عید کا دوسرا اور تیسرا دن ہے۔ یعنی KPK گورنمنٹ کی تیسری عید اور وفاقی حکومت کی دوسری عید۔
سوموار والے دن عید کرنے والے کسی کو ملنے اس لیے نہیں گئے کہ شاید ان کا روزہ ہو۔ روزہ دار گھر سے باہر اس لیے نہیں نکلے کہ باہر لوگ عید منا رہے ہونگے عید مبارک کرتے شرمندگی ہو گی۔ بد قسمتی سے ہمارے رہنماکبھی بھی کسی ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے تو قوم پارہ پارہ ہی رہے گی۔باہر کی دنیا ہمارے دینوی اور سیاسی فیصلوں پر ہنس رہی ہے ہم اپنی اناٶں کو پال کر ہاتھی بنا رہے ہیں۔بھاڑ میں جاۓ قوم و ملت ہمارا کہا پورا ہو ہمارا مفاد محفوظ رہے۔ایک ہنگامے پہ گھر کی رونق موقوف ہے ۔مہنگائ بے روزگاری انتشار بدامنی دھشت گردی مگر مچھ کی طرح منہ کھولے ملک کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ہم کبڈی کبڈی کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ نوشتہ دیوار کوئ نہیں پڑھ رہا کہ ہماری آنکھیں اندھی ہو گئ ہیں۔
آج سے چالیس پچاس سال پہلے یہاں ڈیرہ اسماعیل کے دیہاتوں میں کیا ہو رہا تھا۔ ہم ترقی یافتہ نہیں تھے غریب تھے مگر محفوظ تھے ۔ ساری ساری رات رہٹ چلتے تھے۔گہرے کنویں تھے۔پانی لوٹوں کے ذریعے باھر نکالا جاتاتھا۔ بیل کی جوڑی کے ساتھ ہل جوتے جاتے ۔ہل جوتنے والےکسان ہالی کہلاتے۔گندم کی کٹائی ہاتھ سے ہوتے۔ گندم کاٹنے والے لیار کہلاتے۔ گندم کے ڈھیر پر فلسہ چلتا یا جانوروں کو قطار میں باندھ کر چکر دیتے اور گندم کی گہائی ہوتی۔ گندم کی ڈھیری سے مٹی علیحدہ کرنے کے لیے ہوا گھلنے کا انتظار کیا جاتا۔رات کو گندم کے ڈھیر کی حفاظت کے لیے کسان کھلیانوں پر سوتے۔اگر بارش آ جاتی تو چارپائی کے نیچے پناہ لیتے یا کھجور کے پتوں کی تڈی اوڑھ کے سو جاتے۔جب فصل صاف ہو جاتی تو محبت کا زمانہ تھا گاوں کے تمام کارندوں کا علیحدہ علیحدہ حصہ ہوتا۔ گندم کے مقدار کے مطابق عشر۔خمس۔کاریگروں جیسے لوہار۔درکھان۔نائی ۔مراثی۔کمبھار۔کٹوال سب کا حصہ نکلتا۔ہر شخص موقع پر اپنا حصہ وصول کر کے لے جاتا پھر باقی مالک اور کسان لے جاتے ۔چھوٹے چھوٹے گاوں سب لوگ بھائیوں کی طرح رھتے اور کوئی نفسا نفسی نہیں تھی۔سب کی خوشی غم ساجھا تھا۔ایک گھر تنور جلتا سب پڑوسی روٹی لگا لیتے۔ایک گھر بھینس بچہ دیتی تو پہلا دودھ جسے بولی کہتے وہ ہمارے گھر بھی آتا اور ہم پکا کر کھاتے جس گھر لسی بنتی سارے گاوں کو مفت ملتی۔مہمانوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا۔نہ مزھب کی تفریق نہ کوئی اور بس ہستا بستا گاوں ایک گھر کی شکل میں ہوتا۔ دھشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا تو نام بھی نہیں سنا تھا۔پھر ہم نے ترقی کی ہمارے دفتروں میں رشوت چلنے لگی۔کچہریوں میں جھوٹے گواہ کرایہ پر ملنے لگے۔ FIR ناجائز کٹنے لگے۔انصاف کا خون ہونے لگا۔مسجدیں جدا ہونے لگیں ۔فرقہ واریت چنگھاڑنے لگی۔فرقوں کے نام پر قتل عام ہونے لگے۔بم اور خودکش دھماکے ہونے لگے یہ چلن ایسے چلا کہ سب کچھ برباد ہو گیا۔ میرے ذھن میں یہ شعر گونجتا رہتا ھے؎
جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں ۔۔۔راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ھے نہ چنگاری۔۔۔اب نہ وہ وقت نہ اس وقت کی یادیں باقی۔جس کی تصویر نگاہوں میں لیے بیٹھی ہو ۔۔۔میں وہ دلدار نہیں اسکی ہوں خاموشستان۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ