نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کام جن کا ہے لڑ کے مر جانا||ڈاکٹر مجاہد مرزا

مرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا مگر جب جذبہ ہو تو یہ کام قطعی مشکل نہیں رہتا پھر جب لڑائی ہو رہی ہو تو پیٹھ دکھانے کی بجائے جان دینا ہی افضل ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوجی اس لیے مرتا ہے کہ اسے تنخواہ ، سہولتوں اور مراعات کی شکل میں مرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور پھر مر جانے والے کے لیے دنیاوی مادی فوائد کا کیا لینا دینا۔ وہ اس لیے مرتا ہے کیونکہ اسے بہر حال ہر صورت میں لڑنا ہوتا ہے۔ لڑتے ہوئے موت بھی آ سکتی ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم پاکستانی تو ویسے ہی "عقیدت” کے مارے ہوئے ہیں۔ یاد رہے "عقیدہ” کی بات نہیں کر رہا۔ ہمارے ہاں تو سیاست میں بھی عقیدت ہوتی ہے۔ جیالے، پروانے اور نجانے کٹ مرنے کو تیار کیا کیا نام اوڑھے پھرتے ہیں۔ اگر فوج سے "عقیدت” ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ فوج تو دنیا کے ہر ملک میں ہوا کرتی ہے چاہے وہ امریکہ اور روس کی فوج کی طرح ناخن سے ناک تک مسلح ہو یا سوئٹزرلینڈ کی فوج کی طرح بیرکوں کی بجائے اپنے اپنے گھروں میں مقیم آن کال فوج یا ویٹیکن میں کرائے پر لی جانے والی نیزہ بردار مختصرترین فوج۔ لیکن اگر فوجی کسی نوع کی لڑائی میں مارا جائے تو اس کے جنازے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ فوجی ملک کی سرحدوں کا اور ملک کے اندر سرکشی سے بچانے والا محافظ ہوتا ہے۔ مرنے والے فوجی کا اعزاز اس کے ملک کے پرچم میں لپٹا جنازہ اور ساتھیوں کی فائرنگ کی شکل میں دیا گیا خراج تحسین ہوتا ہے۔
البتہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر فوجی کو عسکری نظم و ضبط کا پابند رہنے اور ضرورت پڑنے پر جان دینے میں دریغ نہ کرنے کا حلف دینا ہوتا ہے کیونکہ اس کا کام ہی لڑ کے مر جانا ہوتا ہے۔ دنیا میں فوج کسی بھی ملک کی ہو، فوجی کا چاہے کوئی بھی مذہب ہو یا چاہے وہ لا مذہب ہی کیوں نہ ہو مگر جب کسی مقصد کی خاطر لڑتا ہوا مارا جاتا ہے تو اسے اپنی اپنی زبان میں شہید ہی بولا جاتا ہے، یعنی حق کی خاطر لڑتے ہوئے مرنے والا۔ اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کے مد مقابل فریق بھی خود کو اپنے مقصد کی خاطر اور حق کے لیے لڑنے والا ہی تصور کرتا ہے، پوری شدومد اور یقین کے ساتھ۔
مسلمان کی شہادت اولٰی جہاد کے ساتھ وابستہ ہے اور جہاد اس جنگ کو کہا جائے گا جس کو اسلامی ریاست جہاد قرار دے گی، یہ ایک عمومی فہم ہے باقی تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کے دور میں کیسی کیسی تنظیمیں خود کو جہادی کہتی ہیں اور کیسی کیسی لڑائیوں کو جہاد سے موسوم کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں کوئی اسلامی ریاست تھی بھی نہیں مگر امریکہ نے حب الوطنی کی جنگ کو جہاد کا نام دے دیا تھا۔ شہادت ویسے تو کئی طرح کی ہو سکتی ہے اور جنگ جمل میں مارے جانے والوں جیسی بھی جس میں دونوں جانب مسلمان تھے، مگر پھر بھی سب مرنے والوں کو شہید قرار دیا گیا تھا۔ معاملہ نہ شہادت کا ہے، نہ فوج کا اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا جو کم از کم لاحقہ اسلامی لگانے کے سبب چاہے تو جہاد کا اعلان کر سکتی ہے لیکن کیا کبھی نہیں، بات یہ ہے کہ فوجی، کہیں کا بھی کیوں نہ ہو، اس کا کام لڑ کے مرنا ہی ہوتا ہے یا فاتح بننا۔
فوجیوں کو تنخواہ ملتی ہے، سہولتیں اور مراعات بھی۔ یہ سب کچھ محض یونٹ چلانے یا مارچ پاسٹ کرنے کا معاوضہ نہیں ہوتا بلکہ اسی عہد کا معاوضہ ہوتا ہے جو اس نے کیا ہوتا ہے یعنی لڑنا اور ضرورت پڑنے پر مرنے سے دریغ نہ کرنا۔ دریغ کرے گا تو غدار کہلائے گا اور کورٹ مارشل ہوگا۔ جنگ عظیم میں تو پیچھے بھاگنے والے کو اپنے ساتھی ہی گولی مار دیا کرتے تھے کہ برے وقت میں چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔
مرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا مگر جب جذبہ ہو تو یہ کام قطعی مشکل نہیں رہتا پھر جب لڑائی ہو رہی ہو تو پیٹھ دکھانے کی بجائے جان دینا ہی افضل ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوجی اس لیے مرتا ہے کہ اسے تنخواہ ، سہولتوں اور مراعات کی شکل میں مرنے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور پھر مر جانے والے کے لیے دنیاوی مادی فوائد کا کیا لینا دینا۔ وہ اس لیے مرتا ہے کیونکہ اسے بہر حال ہر صورت میں لڑنا ہوتا ہے۔ لڑتے ہوئے موت بھی آ سکتی ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
تو جو جنگ میں زندہ بچ جاتے تھے، مال غنیمت بھی پاتے تھے، کشور کشائی بھی کرتے تھے، کیا وہ مومن نہیں ہوتے تھے۔ اشعار میں شاعرانہ تعلی برتی جاتی ہے۔ جنگیں متنوع المقاصد ہوتی ہیں، ان میں سے بیشتر مقاصد تو ایک خاص عہدے تک کے فوجیوں پر واضح ہی نہیں ہوتے کیونکہ فوج کو مورال پر چلایا جاتا ہے۔ مورال کے لیے نعرے وضع کیے جاتے ہیں۔ صرف ایسی باتیں دماغ میں ڈالی جاتی ہیں جو فوجی کو مخالف فریق کے خلاف لڑنے کی جانب راغب و آمادہ کریں۔
پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ اگر اس قبیہہ سرگرمی کے نتیجے میں مارے جانے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار شمار کی جائے تو سیکیورٹی سے وابستہ اداروں بشمول فوج کے چھ ہزار افراد کی اموات کے مقابلے میں چون ہزار عام لوگ مارے گئے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے فوج کی تعداد کی نسبت ملک کی آبادی کہیں زیادہ ہوگی۔ غیر مسلح اور عدم آگاہ لوگوں کو بم سے اڑا دینا یا گولیوں سے بھون دینا مسلح فوج سے لڑائی کرنے کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے۔ دہشت گرد ایک طرح کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا مقابلہ فوج اور سیکیورٹی سے وابستہ دیگر اداروں کے اہلکاروں کو ہی کرنا ہوگا۔ وہ کرتے بھی ہیں، کر بھی رہے ہیں۔ ملک اور قوم کو ان کی شہادت پر فخر بھی ہے مگر ملک و قوم کو یہ بھی معلوم ہے کہ "کام جن کا ہے لڑ کے مر جانا” وہ فوجی ہی ہوتے ہیں جو فوج میں شامل ہوتے وقت یہ سوچ کر ہی شامل ہوتے ہیں کہ جنگ بھی ہو سکتی ہے اور موت بھی آ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author