مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگوں میں مذہب، سماج اور سیاست کا شعور پایا ہے۔
درست یا غلط رائے ہونا الگ بات ہے لیکن شعور ہونا، مذہب، سیاست اور سماج سے متعلق کچھ پڑھنا، سوچنا اور پھر اپنی رائے قائم کرنا بھی کچھ معنی رکھتا ہے۔ سوچنے سمجھنے والے سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی درست راہ تک پہنچ جائے گا۔
میرے بیشتر قریبی رشتے دار مذہبی ہیں اور یک رخے بھی۔ سیاست اور سیاسی نظام کی سمجھ نہیں رکھتے۔ تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے مذہب، سماج اور سیاست پر کبھی گفتگو نہیں ہوئی۔ جن دفاتر میں کام کیا، ان میں بھی کم افراد کو اعلیٰ شعور کا حامل پایا۔
میں بیشتر معاملات میں اپنی رائے خود ہی قائم کرتا ہوں۔ لیکن طبعاً اگنوسٹک اور سکیپٹک ہوں اس لیے اپنی رائے کے بارے میں بھی تشکیک کا شکار رہتا ہوں۔
کچھ لوگ تلاش کرلیے ہیں جنھیں دیکھ کر اندازہ لگاتا ہوں کہ میری رائے درست ہے یا نہیں اور اصلاح کی گنجائش کتنی اور کہاں ہے۔
صحافت میں میرے استاد سید محمد صوفی نے مجھے درست رخ پر سوچنا سکھایا۔
ان کے علاوہ حاشر ابن ارشاد، وجاہت مسعود، نور الہدیٰ شاہ، ندیم فاروق پراچہ، وسعت اللہ خان، محمد حنیف، حیدر جاوید سید، سعید ابراہیم، اجمل کمال، یاسر جواد، جمشید اقبال اور اب نوجوانوں میں عمار علی جان، ریما عمر، شاہزیب خانزادہ، فرنود عالم، سلمان حیدر، طاہر چوہدری ایڈووکیٹ، شعیب محمد، سید کاشف رضا اور عابد میر ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لکھے اور بولے ہوئے الفاظ میرے لیے روشنی بن جاتے ہیں۔
یہ محض دوستوں کی فہرست نہیں، دعوت فکر دینے والوں کے نام ہیں ورنہ اور بہت سے لوگ ہیں جو مجھے پسند ہیں، میرے ہم خیال ہیں اور میں ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہوں۔
اگر مجھے دوسری زندگی ملتی اور کسی ایک استاد یا دوست کے انتخاب کا موقع دیا جاتا تو میں حاشر صاحب کا ہاتھ تھام لیتا۔ افسوس کہ زندگی میں کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ لیکن ان کی تحریریں ان کا پرستار بنانے کے لیے بہت کافی ہیں۔
زندگی میں کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہیے۔
یونیورسٹی میں انگریزی لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ تھوڑا بہت پہلے بھی لکھ لیتا تھا، تبھی داخلہ ملا۔ لیکن اب بہتری کی امید ہے۔
اوبر چلانے سے ہسپانوی بول چال کی طرف توجہ ہوئی اور اب بنیادی گفتگو کرلیتا ہوں۔ بار بار استعمال ہونے والے چند الفاظ اور جملے سیکھ لیے ہیں، بلکہ خود ہی آگئے ہیں۔
لیکن ایک کام جو گزشتہ دنوں وقت نکال کر کیا، وہ ہندی پڑھائی تھی۔
ریختہ میری کہانیوں کی کتاب ہندی رسم الخط میں چھاپ رہا ہے۔ اس سے مجھے دیوناگری میں دلچسپی ہوئی۔
روزانہ چار پانچ حروف کی پہچان پیدا کرتا گیا اور دو ہفتے میں اٹک اٹک کر ہندی پڑھنا سیکھ گیا۔ اب روزانہ بی بی سی ہندی کی خبریں پڑھ کر لطف لیتا ہوں۔
کوئی بھی نئی زبان جاننا ایک نئی دنیا تسخیر کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ میں نے اچانک کئی دنیائیں دریافت کرلی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ