حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ سیاستدانوں (منتخب) اور بیوروکریسی کی مراعات کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری بحث کسی ’’سازش‘‘ کا حصہ ہے۔
میں ان سے متفق نہیں ہوں کیونکہ مراعات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں سے کسی نے بھی منتخب ارکان یا سول بیوروکریسی کو نشانہ نہیں بنایابلکہ سب ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ سول و ملٹری بیوروکریسی، ارکان اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلیٰ، وزیراعظم اور وزیروں مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات میں کمی کی جائے۔
غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی ہو، اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تنخواہیں اور مراعات بھی زیربحث ہیں۔
سوال اٹھانے اور تنقید کرنے والے صاف کہہ رہے ہیں کہ ججز اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے ریٹائرڈ لوگوں کو دوبارہ ملازمت پر نہیں رکھا جانا چاہیے جو ریٹائرڈ حضرات اس وقت ملازمت کررہے ہیں وہ باوقار انداز میں مستعفی ہوجائیں یا پھر حکومت انہیں رخصت کردے۔
کسی ’’بڑے‘‘ یا ادارے کی خوشنودی کے لئے کسی بھی ریٹائر شخص کو مستقبل میں ملازمت نہ دی جائے۔ ریٹائر افسروں کو زرعی اراضی کی الاٹمنٹ کی بجائے یہ اراضی، بے زمین کاشتکاروں کو دی جائے۔
ہمزاد فقیر راحموں کی تجویز تو یہ ہے کہ سول و ملٹری بیوروکریسی کے ریٹائر افسران کو پچھلی نصف صدی میں الاٹ کی گئی اراضی واپس لے کر بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کردی جائے۔
ایک عام شہری کی حیثیت سے میں ان لوگوں سے مکمل طور پر متفق ہوں جن کا خیال ہے کہ عوام بہت قربانی دے چکے اب اشرافیہ کے طبقات، منتخب ارکان، ججز، جرنیل اور بیوروکریٹ قربانی دیں۔ سرکاری طور پر 800سی سی اور 1000 سی سی سے بڑی گاڑیاں استعمال کرنے پر پابندی ہونی چاہیے۔
آپ انہیں مطالبات کہیں یا خواہشات، یہ غلط بالکل نہیں۔ 55ہزارارب روپے کے مقروض ملک میں ان اللوں تللوں کی گنجائش ہی نہیں اس لئے آواز سے آواز ملانا ضروری ہے مین میخ نکالنے کی بجائے۔
اسی طرح حکومتوں کے سابقین کو بھی کسی قسم کی مراعات نہیں ملنا چاہئیں۔ 99فیصد لوگ (سابقین) اس قابل ہیں کہ اپنی سکیورٹی کا خود بندوبست کرسکیں۔
مکرر عرض ہے پہلے یہ باتیں اِکادُکا لوگ کیا کرتے تھے ان پر پھبتی کسی جاتی تھی یہ تو پاگل ہیں بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔
اب یہی باتیں اپنے اپنے انداز اور فہم کے مطابق ہر شخص کررہا ہے۔
میری ذاتی رائے میں شہروں میں دفتری اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو رواج دیا جانا چاہیے۔ اس لئے بالادست طبقات کی مراعات کے خلاف سوشل میڈیا پر چلتی مہم کو کسی سازش کا نتیجہ قرار دینے کی بجائے ہمیں لوگوں کی آواز کے ساتھ آواز ملانی چاہیے۔
اشرافیہ کو بھی سمجھنا ہوگا عوام کے پاس ہے ہی کچھ نہیں۔ وہ کیا قربانی دیں۔ اس بار قربانی آپ (اشرافیہ) کو دینی ہے۔
اب آیئے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شہر بونیر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے خلاف ہوئی امریکی سازش میں دو نئے کرداروں بھارت اور اسرائیل کا اضافہ کردیا ہے۔
جمعہ کی شام جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف سازش میں امریکہ کے ساتھ بھارت اور اسرائیل بھی شامل تھے۔ ان کے بقول یہ تینوں ملک چاہتے ہیں کہ پاکستان کمزور ہو اور ٹوٹے۔
یہ اعلان بھی کیا کہ میں وقت کے یزیدوں سے لڑتا رہوں گا۔
یہاں جب جس کا جی چاہتاہے اپنے گریبان میں جھانکےاور اعمال و اطوار پر نگاہ ڈالے بغیر جس کو مرضی یزید قرار دے دیتا ہے۔ سوال ہوسکتاہےکہ خود عمران خان فکر حسینیؑ پر کتنا عمل پیرا رہے اور ہیں لیکن یہ سوال اس لئے نہیں کیا جاناچاہیے کہ جس طرح ان کا مخالفین کو یزید قرار دینا غلط ہے اسی طرح سوال بھی درست نہیں ہوگا۔
سازش میں اسرائیل کی شمولیت کے دعویٰ پر ہنسی آرہی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل ان کی حکومت نے ایک امریکی این جی او کے پلیٹ فارم سے پاکستانی شہریوں کو اسرائیل کا دورہ کرنے کی اجازت دی دورہ کرنے والوں میں شامل ایک پاکستانی صحافی احمد قریشی کو خود ان کے دور میں پی ٹی وی میں اینکر کے طور پر ملازمت فراہم کی گئی تھی۔
احمد قریشی دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی اجازت سے امریکی این جی او کے اسرائیل جانے والے وفد میں شامل ہوئے۔ اس معاملے پر ان کے اور محترمہ شیریں مزاری کے درمیان سوشل میڈیا پر ہوئی بحث دلچسپ ہے۔
جناب عمران خان نے چند برس قبل لندن میں میئر کے انتخابات میں پاکستانی نژاد محمد صادق کی بجائے اپنے سابق برادر نسبتی کی حمایت کی جوکہ سکہ بند یہودی ہیں۔
بھارت کیوں سازش کرے گا اسے تو ان کی حکومت نے ٹرمپ کی خوشنودی کے لئے مقبوضہ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا تبھی تو بھارت نے 5اگست 2019ء والااقدام اٹھایا۔
امریکہ سے ان کی ناراضگی درحقیقت اتنی ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے انہیں ٹرمپ انتظامیہ کی طرح اہمیت نہیں دی اس کا وہ شکوہ کرتے سنائی دیئے یہاں تک کہا کہ صدر جوبائیڈن نے مجھے ٹیلیفون تک نہیں کیا۔
فقیر راحموں کہتے ہیں کہ اگر عمران خان نے معروف برطانوی جریدے ’’اکنامسٹ‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ پڑھ لی ہوتی تو وہ اپنے خلاف سازش میں بھارت اور اسرائیل کے ساتھ برطانیہ کو بھی رکھ لیتے۔
’’اکنامسٹ‘‘ کی حالیہ اشاعت میں پاکستان اور عمران خان کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون شامل ہے۔ اکنامسٹ کے مطابق عمران خان پاکستان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کے عمل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے پر بضد ہیں جن کی وجہ سے کوئی ملک یا عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو سنجیدہ نہ لے۔
اکنامسٹ کے حالیہ مضمون کو اگر عمران خان کے 2014ء والے دھرنے کے تناظر میں دیکھا جائے جس کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ یہ دھرنا سی پیک مخالف قوتوں نے سپانسر کیاہے تو کچھ کچھ بات سمجھ میں آتی ہے۔
عمران خان کے اس دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا تھا۔ ان کے دور اقتدار میں سی پیک پر کام رک گیا۔ مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی حکومت کو جس ردعمل کامظاہرہ کرنا چاہیے تھا ایسا ردعمل منظم نہیں کیا گیا ماسوائے چند بیانات اور چند جمعوں پر کئے گئے احتجاج کے۔
گزشتہ روزعمران خان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانا چاہتی ہے۔ ان کا دعویٰ درست ہے تو یہ صریحاً غلط ہوگا بلکہ یہ ایساہی ہوگا جیسا رانا ثناء اللہ کے خلاف عمران خان نے منشیات کا کیس بنوایا تھا۔
حکومت کے پاس اگر دیگر بعض معاملات میں ثبوت ہیں تو کرے کارروائی لیکن غدار غدار کھیلنے سے اجتناب کرے حالانکہ خود عمران خان ایک منٹ نہیں لگاتے کسی کو غدار قرار دینے میں یا یزید کہنے میں۔
وہ موقع کے مطابق کارڈ کھیلتے ہیں۔ آجکل ان کے چند ہمنوا حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کو پشتون پنجابی مسئلہ بناکر پیش کررہے ہیں اس حوالے سے درجنوں بیانات اور ویڈیوز ریکارڈ پر ہیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ جناب عمران خان کو اس بات کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کہ مہنگائی کے خلاف احتجاج کے لئے ان کے اعلان پر عوام تو باہر نہیں نکلے خود ان کی جماعت بھی کہیں دو تن درجن افراد سے زیادہ لوگوں کو احتجاج کے لئے جمع نہیں کرسکی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر