مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک عجیب سا بک شیلف تھا۔ اس میں بہت سے ملکوں اور شہروں کی گائیڈ بکس سجی ہوئی تھیں۔ یورپ کے تقریباً ہر ملک اور بڑے شہر کی، لیکن دوسرے خطوں کی بھی۔ دوسرے شیلف میں بیشتر کتابیں حالات حاضرہ، سیاست اور مارکسزم پر تھیں۔ اگر میں اس گھر میں نہ کھڑا ہوتا اور کوئی مجھے ان شیلفوں کی تصویر دکھاتا تو میں بتاسکتا تھا کہ یہ خالد بھائی کی کتابیں ہیں۔
انسان ان کتابوں سے پہچانا جاسکتا ہے، جو وہ پڑھتا ہے۔
میں پیرس میں تھا جب ان کا فون آیا۔ کہنے لگے، برسلز چلے آؤ۔ میں نے کہا، فرینکفرٹ میں ہوٹل بک ہے۔ وہاں سے عشرت معین سیما کے ہاں برلن جانا ہے۔ انھوں نے ہی مدعو کیا ہے۔ بیوی بچے ساتھ ہیں اور زیادہ پیسے بھی نہیں ہیں۔ برسلز اگلی بار آجاؤں گا۔
خالد بھائی نے کہا، فرینکفرٹ کا پلان کینسل کردو۔ برسلز میں میرے گھر قیام کرنا۔ کوئی خرچہ نہیں ہوگا۔ جہاز سے آنے کی ضرورت نہیں۔ ٹرین پکڑو اور یورپ کے نظارے دیکھو۔
یہ 2014 کی بات ہے۔ ہم برسلز ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو خالد بھائی استقبال کو موجود تھے۔ اپنی سفید بی ایم ڈبلیو میں ہمارا سامان لاد کر گھر لے گئے۔ اوپر کی منزل پر بچوں کا کمرا خالی کرواکے میرے بیوی بچوں کے حوالے کیا۔ بیٹی مایا کو ماں کے کمرے میں چھوڑا اور بیٹے کامل کے ساتھ ڈرائنگ روم میں ڈیرا ڈال لیا۔ میں دو دن وہیں ان کے پاس سویا۔ رات دیر تک ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔
بھابھی الزبتھ سے اچھی گفتگو رہی۔ ان کا تعلق پولینڈ سے ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ جاب کرتی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دفتر سے واپس آکر انھیں سونا پسند ہے اور کچن میں کام کرنا پسند نہیں۔ خالد بھائی صبح مجھے ساتھ لے کر حلال گروسری اسٹور گئے اور سامان خریدا۔ واپس آکر کچن میں گھسے اور سب کے لیے کھانا بنایا۔ میری بیوی نے بھی ان کی مدد کی۔ میں اخلاقی مدد کے لیے حاضر رہا۔ چند برتن دھو کر شہیدوں میں نام کیا۔
کامل تو حسین ہی کی عمر کا تھا، مایا چھوٹی تھی۔میری بیٹی سے اس کی دوستی ہوگئی۔ ایک دوپہر ہم اسے اسکول سے لینے گئے۔ گھر اور اسکول کی تربیت کی وجہ سے بچے اتنی کم عمری میں کئی زبانیں بولنے لگے تھے۔ ماں کی وجہ سے پولش، باپ کی وجہ سے انگریزی، برسلز میں رہنے کی وجہ سے ڈچ، بیلجین اور فرنچ بھی۔ اردو کے چند الفاظ سمجھ لیتے تھے۔ خالد بھائی نے بتایا کہ یورپ میں بہتر ملازمت کے لیے کئی زبانیں جاننا ضروری ہے۔
خالد بھائی نے ان دو دونوں میں ہمیں کافی شہر گھمایا۔ برسلز یورپی یونین کا صدر مقام ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹر دکھایا۔ کاروباری مرکز لے گئے۔ کارل مارکس کی قیام گاہ دکھائی۔ بیلجیم کی چاکلیٹ مشہور ہے۔ ایک چاکلیٹ فیکٹری میں لے گئے۔ مجھے اپنے خاص دوستوں اور پاکستانی صحافیوں سے بھی ملوایا۔
خالد بھائی سے یورپ آنے سے پہلے بھی فون پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ میں جیونیوز کا پروڈیوسر تھا اور وہ یورپ میں اس کے بیورو چیف۔ ہر ایونٹ پر بھاگتے رہتے تھے اور میں انھیں فون کرتا رہتا تھا۔ صرف خبر معلوم کرنے کے لیے نہیں، ذاتی طور پر معلومات اور پس منظر معلوم کرنے کے لیے بھی۔ وہ سینئر صحافی ہی نہیں، پرانے ایکٹوسٹ بھی تھے۔ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ کمزور خبر دیں یا خبر کو ٹوئسٹ کریں۔ سچ اور صحافت کے سامنے پیسہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔
خالد بھائی کو پاکستان چھوڑ کے نکلنا پڑا۔ یورپ میں مشکلات دیکھیں۔ اچھی تعلیم حاصل کی۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹریٹ کی اور شاید یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں آکر تو ایجنسیوں سے جان چھوٹ گئی ہوگی۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو بتایا، وہ پاکستان سے محبت کی وجہ سے نہیں لکھنا چاہتا۔ کشمیر کاز کو نقصان ہوگا۔
کئی سال بعد جب میں پاکستان سے نکل کر امریکا پہنچا تو خالد بھائی کا فون آیا۔ بہت خوش تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔ ٹک کر یہیں بیٹھنا۔ اور مجھے کال کرتے رہنا۔ جیونیوز چھوڑ دیا ہے، دوستی برقرار رہے گی۔ میں وائس آف امریکا سے انھیں فون کرکے یورپی امور پر انٹرویو کرتا رہتا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے وہ جنگ کی کوریج کے لیے یوکرین گئے تھے۔ چند دن پہلے فیس بک پر ان کی لندن یاترا کے فوٹو دیکھے جن میں وہ اپنے پرانے دوست عامر ضیا کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ خوش لگ رہے تھے۔ آج فیس بک ہی سے دل خراش خبر ملی کہ برسلز واپسی پر خالد بھائی کو دل کا دورہ پڑا اور وہ انتقال کرگئے۔
دل بے حد ملول ہے۔ بیوی بچوں کو خبر سنائی تو وہ بھی غم زدہ ہوگئے۔ خالد بھائی بے حد اجلے، بالکل شفاف انسان تھے۔ انگریزی میں ایسے لوگوں کے لیے کہتے ہیں کہ وہ ریئر بریڈ تھے یعنی نایاب نسل کے آدمی۔ سچے، کھرے اور اصول پرست۔ یہ نایاب نسل معدوم ہوتی جارہی ہے۔ میں اگر شاعر ہوتا تو خالد حمید فاروقی کی موت پر مرثیہ کہتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ