نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں بھی کمیونسٹ تھا||ڈاکٹر مجاہد مرزا

وجاہت مسعود نے مارکسزم سے منحرف ہونے کی بات کیا کی کہ لوگ اس بیچارے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے جیسے کسی نظریے کو رد کرنے والے یعنی مرتد کی سزا اگر موت نہیں تو کم از کم اسے چین سے جینے کا حق نہیں دینا چاہیے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی ہاں تھا، اس لیے کہ میں امام علی نازش اور بعد میں بہت ہی قلیل مدت کے لیے جام ساقی والی کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، لیکن ایک عرصہ سے نہیں ہوں۔ کوئی شخص تب تک خود کو کمیونسٹ نہیں کہہ سکتا جب تک وہ کسی ایسی پارٹی کا رکن نہ ہو جو کمیونسٹ نظریے کو لاگو کیے جانے کی حامی ہو، کیونکہ اصطلاح کمیونسٹ لفظ کمیون سے ماخوذ ہے جو منظم اکٹھ کو کہتے ہیں ۔ البتہ انسان انفرادی طور پر یعنی کسی پارٹی میں شامل ہوئے بغیر کمیونسٹ نظریے کا حامی ضرور ہو سکتا ہے مگر کمیونسٹ نہیں۔
وجاہت مسعود نے مارکسزم سے منحرف ہونے کی بات کیا کی کہ لوگ اس بیچارے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے جیسے کسی نظریے کو رد کرنے والے یعنی مرتد کی سزا اگر موت نہیں تو کم از کم اسے چین سے جینے کا حق نہیں دینا چاہیے۔
متروک سوویت یونین میں رواج دیے جانے والے تعمیر نو کے عمل کا ایک حصہ گولس نست (گلاسناسٹ) تھا یعنی آواز اٹھانا یا آزادی اظہار۔ تب کمیونزم اور خاص طور پر سوویت یونین میں نافذ نظام کے چیتھڑے اڑائے گئے تھے علمی طور پر بھی اور جذباتی ہو کر بھی لیکن سکہ بند کمیونسٹوں تک نے اتنے غم و غصے کا اظہار یوں نہیں کیا تھا جیسے وجاہت مسعود کی جانب سے مارکسزم کے نقائص سامنے لانے سے کیا گی ہے۔ کسی نے کہا کہ انہیں تو مارکسزم کا علم ہی نہیں۔ ایک جید سابق سیاسی کارکن نے جو لکھاری بھی ہیں لکھا "وجاہت مسعود نام کا یہ شخص” تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے اور وہ بھی سرمایہ داری کے گڑھ لندن میں بیٹھ کر سرمایہ دارانہ نظام کے تمام فوائد و مراعات سے حظ اٹھاتے ہوئے۔
سوال اٹھایا گیا کہ کیا کوئی پرولتاری کمیونسٹ رہنما رہا، جی ہاں ایک "لمپن پرولتاری” تھا جس کا نام ایوسف واسیریویچ ستالن تھا یعنی سٹالن، سٹالن اس کی کنیت تھی یعنی سٹیل مطلب فولاد کی مانند ( دلچسپ بات ہے کہ لینن بھی کنیت تھی جس کا مطلب ہے سست الوجود، کاہل) اس لمپن پرولتاری نے ڈھائی تین کروڑ آدمی یونہی مروا دیے تھے۔ ڈیڑھ دو کروڑ دوسری جنگ عظیم میں مارے گئے تھے اور دوسرا تھا خروشچوو جو زرعی مزدور تھا یعنی وہ بھی پوری طرح پرولتاری نہیں تھا۔ اس بیچارے کے ساتھ بریژنیو اور اس کے ساتھیوں نے کیا سلوک کیا تھا کوئی راز نہیں رہا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف سوویت یونین کا واحد جنرل سیکرٹری تھا جسے معزول کیا گیا تھا۔
مارکسزم کے بارے میں کہا گیا کہ یہ سائنس ہے۔ ٹھیک ہے اب تو جغرافیہ بھی سائنس ہے اور شہریت بھی، معیشت تو زیادہ سائنس ہے کیونکہ اس میں علوم کی ماں ریاضی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے مگر یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ سائنس تبدیل ہوتے ہوئے علم کو کہا جاتا ہے، منجمد یا مستند اصولوں پر استوار کسی ڈھانچے کو نہیں۔ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ سائنسی علوم میں پیش رفت ہوتی ہے اور بعض اوقات پہلے سے موجود مفروضے یکسر بدل جاتے ہیں۔
کارل مارکس کا اخذ کردہ معاشی سیاسی ماڈل بہت پہلے سے موجود سرمائے سے منسوب معاشی سیاسی ماڈل کے مقابلے میں ایک ماڈل تھا جس میں قدر زائد کو بنیاد بنایا گیا تھا اور استحصال کو اس نظام کی سب سے بڑی خامی۔ وقت کے ساتھ ساتھ نظام سرمایہ داری میں بہتریاں لائی جاتی رہیں، خاص طور پر اس نظام کی سماج سے وابستگی اور سماج میں بسنے والوں کو دی جانے والی سہولیات سے متعلق۔ مانا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلیاں جو بہتری پر منتج ہوئیں سرمایہ داروں کو اس لیے کرنی پڑیں کہ دنیا کے پہلے سوشلسٹ ماڈل سوویت یونین میں ویسی تبدیلیاں لائی جا رہی تھیں چنانچہ سرمایہ دار ملکوں کو سماجی بھلائی کے کام کرنے پڑے مگر تکلیف دہ امر یہ تھا کہ نہ تو سوویت یونین اور نہ ہی بعد میں سوشلسٹ بلاک میں شامل ہونے والے ملکوں میں سوشل ویلفیر کو وہ ہئیت بخشی گئی جو سرمایہ دار ملکوں نے اپنا لی تھی مستزاد یہ کہ آزادی نام کی شے مفقود تھی، ہر عمل ” پرولتاریہ کی آمریت” کے تحت کرنا پڑتا تھا اور پرولتاریہ کی یہ "آمریت” برسر اقتدار انٹیلیجنشیا دوسرے الفاظ میں کمیونسٹ یا مارکسٹ اشرافیہ ترتیب دیتی تھی۔ ایک سے ڈربہ نما گھر، ایک سی الماریاں، ایک سے ریڈیو، ایک سے کپڑے، ایک سی گاڑیاں، ایک سی پبلک ٹرانسپورٹ، ایک سی یکسانیت، ایک سی اداسی، ایک سی نا امیدی اور ایک سا خوف۔ اس کے برعکس کمیونسٹ اشرافیہ کی ہر چیز مختلف اور متنوع ہوتی تھی۔ آج بھی ماسکو میں جو سنترالنایا کلینیچسکی بالنتسا یعنی سنٹرل کلینیکل ہاسپٹل ( یہ کمیونسٹ عہد میں صرف کمیونسٹ اشرافیہ کے لیے ہوتا تھا) ہے وہاں جا کر دیکھیں تو باقی ہسپتالوں کی نسبت آپ کو لگے گا کہ آپ ماسکو میں نہیں زیورچ میں ہیں، مگر اب اس سے سرکاری اشرافیہ کے علاوہ اشرافیہ طبقے کے دیگر افراد بھی اگر چاہیں تو ادائیگی کرکے مستفید ہو سکتے ہیں۔
جی ہاں درست، سوویت یونین میں کلاسیکل مارکسزم لاگو نہیں تھا وہ تبدیل شدہ شکل بالشویزم یا لیننزم تھی مگر کلاسیکل مارکسزم کیا لاگو ہو سکتا تھا یا ہو سکتا ہے؟ چونکہ آج تک ایسی مثال موجود نہیں ہے اس لیے یقین کی بجائے تشکیک کرنے کا زیادہ حق بنتا ہے۔
سوویت یونین میں لوگوں کا تعاقب کرکے مارے جانا ہو یا چین میں ثقافتی انقلاب کی آڑ میں قتل عام، ہر دو صورتوں میں بھیانک اور غیر انسانی تھا۔ ظاہر ہے مارکسزم نے ایسا کوئی درس نہیں دیا کہ لوگوں کو قتل کیا جائے یا روس کے آخری زار کی تین جوان اور کم عمر بیٹیوں اور ہیموفیلیا کے مریض واحد کم عمر بیٹے کو بھی گولیاں مار کر مار دیا جائے مگر یہ سب کچھ انہوں نے کیا جو خود کو مارکسزم کا نظریہ رکھنے والے کہتے تھے۔ پھر لینن اور سٹالن کون تھے، کیا وہ مارکسسٹ نہیں تھے؟ سٹالن کا نام تو اس لیے زیادہ لیا جاتا ہے کہ وہ روسی نہیں جارجیائی تھا اور پھر اس نے سب سے زیادہ لوگ مروائے تھے لیکن لوگوں کو سرسری مقدمے کے بعد قتل کروانے کا کام تو لینن کے عہد سے شروع ہو چکا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ نظریہ ناکام نہیں ہوا بلکہ اس نظریے پر کاربند پارٹی اور اس کی حکومت ناکام ہوئی ہے۔ کیا کسی پارٹی اور اس سے وابستہ حکومت کو اس نظریے سے علیحدہ کرکے دیکھا جا سکتا ہے جس پر کاربند ہونے کی وہ دعویدار ہوتی ہے؟ ذرا مشکل ہے۔ ویسے ہی جیسے آج بہت سے لوگ القاعدہ، طالبان، داعش اور اسیے ہی دیگر اسلامی کہلانے والے گروہوں کی سرگرمیوں کو اسلام کے منافی خیال کرتے ہیں لیکن یہ گروہ بذات خود اور ان کے لاتعداد حامی ان اعمال کو اسلام کے مطابق مانتے ہیں۔
جو لوگ جس نظام کے تحت رہ رہے ہوں یا رہ چکے ہوں، ان کی اکثریت اس متعلقہ نظام سے متعلق جو رویہ رکھتی ہو وہی نقارہ خدا ہوتا ہے۔ سابق سوویت یونین کے باسیوں سے آپ کمیونزم کا زیادہ گلہ سنیں گے اس کے برعکس امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں لوگوں سے اپنے ملکوں میں رائج نظام کی تعریف ہی سنیں گے۔ یونان، سپین، پرتگال جیسے ملکوں میں اگر بدتعریفی یا تنقید سنیں گے تو حکومت پر نہ کہ نظام پر۔ یہ زیب داستاں کے لیے ہوتا ہے کہ روس میں زیادہ لوگ سوویت یونین کو یاد کرنے لگے ہیں یا مغرب میں مارکسزم پھر سے مقبول ہو رہا ہے۔ ایسے سروے اور ایسے مضامین صرف اخبارات و دیگر ذرائع ابلاغ میں تنوع پیدا کرنے کے لیے کروائے اور لکھوائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ڈاکٹر لال خان اور زبیر احمد جیسے مضمون نگار ہیں جن کے ہر مضمون میں انقلاب کی نوید ویسے ہی دی جاتی ہے جیسے ثواب کرنے والوں کو حصول جنت کی تو کیا ان کے کہے سے انقلاب آنے کو ہے؟
کسی نظریے سے عقیدہ جاتی تعلق رکھنا بھلا کیسے سائنسی رویہ کہلا سکتا ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ انسان مذہبی عقیدے کو ہی راسخ کر لے تاکہ کم از کم اگلے جہان میں تو چین سکون سے رہنے کا تیقن ہو۔ اس جہان میں اچھے حالات پیدا کرنے کی خاطر بدلتے ہوئے معروضی حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہوتے ہوئے موجود سماجی، معاشی، سیاسی نظام کی خامیوں کو دورکیے جانے کے لیے سرگرم ہونا پڑے گا کیونکہ انقلابات کے زمانے لد چکے ہیں، اب جنہیں انقلابات کا نام دیا جاتا ہے وہ ماسوائے انتشار کے اور کچھ نہیں ہوتے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ، یوکرین و دیگر ملکوں کے واقعات اور ان واقعات کے بعد کے حالات اس صداقت کے گواہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author