مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎‎قاسم علی شاہ کا امتحانی پرچہ آؤٹ!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

‎اگر شوہر کو غصہ آ جائے اور آپ کو دو چار ہاتھ جڑ دے تو دہائی دینے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس کی زندگی کی ساتھی ہیں سو اس کی بدتمیزیوں کو برداشت کرنا آپ کا فرض ہے۔ دیکھیے پیار بھی تو کرتا ہے اور ہر انگ میں نیل کے نشان بھرنے کے بعد کچھ شاپنگ کروائے گا، کچھ دن اسے غصہ نہیں آئے گا، تو سودا برا نہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‎موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ کہتے ہیں
‎ ’اچھی بیوی کیسے بننا ہے، یہ کہیں نہیں پڑھایا جاتا۔ آپ کسی سکول میں چلے جائیں، میٹرک کی ڈگری تک، 10 برس میں یہ کہیں نہیں پڑھایا جاتا۔ حالانکہ ایک عورت کی زندگی میں ان دو کرداروں کی بڑی اہمیت ہے، یعنی اچھی بیوی اور اچھی ماں بننا۔‘
‎قاسم علی شاہ نے اچھی بیوی اور اچھی ماں کے فلسفہ کا مرتب کردہ پرچہ ترکیب استعمال سکولوں اور کالجوں میں نافذ کرنے کی صلاح دی ہے بلکہ ایک کورس کا اہتمام بھی کیا ہے تاکہ یہ سنہری اقوال ہر بچی کا اوڑھنا بچھونا بن جائیں اور معاشرے کے مرد سکھ کا سانس لے سکیں، چین کی بنسی بجا سکیں۔
‎وہ جو ایک خدشہ رہتا ہے نا کہ کہیں بچیاں ہم جیسی بری عورتوں کی تقلید نہ کرنا شروع کر دیں، اس کا خوف دل سے جاتا رہے۔
‎قاسم علی شاہ ایجوکیشنسٹ بھی ہیں۔ ادھر ادھر سے سنا جاتا ہے کہ شاید بندگان عالی قدر کے گوش بااختیار تک کچھ رسائی بھی بہم پہنچائی ہے، سو کوئی دن جاتا ہے کہ ان کا ترتیب دیا ہوا نصاب درس گاہوں پر نافذ کر دیا جائے گا، جو کچھ یوں ہو گا۔
‎سبق نمبر ایک:
‎آپ شادی کرتے ہوئے بھول جائیے کہ آپ کون ہیں؟ کیا کرتی رہی ہیں؟ کیا کرنا چاہتی ہیں؟ کیا خواہشات ہیں؟ کیا تعلیم حاصل کی ہے؟ کس طرح کے ماحول میں رہی ہیں؟ والدین نے کس طرح پرورش کی؟ اب تک کی زندگی کیسے
‎سبق نمبر دو:
‎اپنی پچھلی زندگی کو کسی غم غلط کی طرح مٹا دیجیے حتی کہ اپنا نام بھی۔ شوہر آپ کے والد کا نام تو شناختی کارڈ پہ تبدیل کروائے گا ہی، اگر آپ کی پہچان والا نام بھی اسے پسند نہیں اور صائمہ کی بجائے وہ آپ کو نصیبن پکارنا چاہتا ہے تو زیادہ حیص بیص کی ضرورت نہیں۔
‎سبق نمبر تین:
‎زبان پہ مکمل طور پہ قفل لگا لیجیے، سمجھیے اللہ نے آپ کو بولنے کی طاقت صرف شادی سے پہلے تک کی مدت کے لئے عطا کی تھی۔ ہو سکے تو کسی پلاسٹک سرجن سے کچھ زبان ترشوا کے مونچھ دکھائی میں میاں کو ارپن کر دیجئے ورنہ لمبی زبان کا طعنہ عمر بھر پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
‎سبق نمبر چار:
‎حجلہ عروسی میں جب شوہر آپ کوبتائے کہ آپ کی ذمہ داریاں کیا کیا ہیں تو ان کو فورا نوٹ کر لیجیے، اور برائے مہربانی حقوق کا ذکر بالکل نہ کیجیے ورنہ منہ پھٹ ہونے کا ٹھپہ اسی وقت لگ جائے گا۔
‎سبق نمبر پانچ:
‎جب شوہر آپ کو یہ سمجھائے کہ اس کے دل کو جانے والا پرپیچ رستہ اس کے ماں باپ کی خدمت و رضا، بہن بھائیوں کی خوشنودی، اس کے اپنے کام و دہن کی کماحقہ آبیاری، حوائج نفسانی کی یک طرفہ تسکین نیز پسند و ناپسند کی بلامشروط اطاعت میں ہے تو اس ہدایت نامہ خداوند پر حلف اٹھاتے ہوئے اپنے دل کا زنہار ذکر نہیں کیجیے۔
‎بھلا اچھی بیوی کے پاس دل کا کیا کام؟ وہ اسے میکے میں چھوڑ کے آنا چاہیے۔
‎سبق نمبر چھ:
‎اگر آپ کو ہنی مون پہ جانے کی اجازت نہ ملے تو برا ماننے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اچھی بیوی بننے کے لئے پتہ مارنا پڑتا ہے، جتنی جلد یہ بات سمجھ لیں، بہتر ہو گا۔ اگر ساس اور سسر ہنی مون پر ہمراہی کا ارادہ ظاہر کریں تو فوراً دلی مسرت کا اظہار کرنا۔ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔
‎سبق نمبر سات:
‎اگر شادی کے کچھ ہی دن بعد ساسو ماں ہاتھ پکڑ کے باورچی خانے چھوڑ آئیں تو اسے اپنی خوش نصیبی سمجھیے کہ اہل سسرال کے دل تک براستہ معدہ پہنچنے کا موقع مل رہا ہے۔
‎سبق نمبر آٹھ؛
‎اگر شام کو شوہر گھر آئے اور آپ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے،اپنی اماں کے پاؤں دباتا رہے تو آپ فخر محسوس کریں کہ کل کو آپ بیٹا بھی آپ سے ایسا ہی برتاؤ کرے گا۔ پتا پہ پوت۔۔
‎سبق نمبر نو؛
‎سارے دن کی گھریلو مشقت کے بعد اگر شوہر بستر پہ وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے لئے بلائے تو قطعی انکار مت کیجیے۔ مجازی خدا کی ناراضی مول لینے کی ضرورت نہیں
‎سبق نمبر دس؛
‎اگر اہل سسرال اور شوہر مل کے طے کریں کہ آپ کی پچھلی زندگی میں حاصل کی ہوئی ڈگریاں آگ میں پھینکنے کے لائق ہیں تو چوں و چرا مت کیجیے، آخر شادی شدہ زندگی میں ایسی قربانیاں تو عورت کو دینی پڑتی ہیں۔ بدلے میں شوہر دو وقت کی روٹی، چھت اور اپنا نام دے رہا ہے تو اس کی شکر گزار بنیے۔
‎سبق نمبر گیارہ
‎اگر شوہر محسوس کرتا ہے کہ آپ کی نوکری اسے معاشی فوائد دے سکتی ہے تو فوراً کمر کس لیجیے۔ صبح دفتر، شام باورچی خانہ اور رات شوہر کی اٹھکیلیاں!
‎سبق نمبر بارہ ؛
‎اگر شوہر آپ کی تنخواہ اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوانا چاہتا ہے تو دل بڑا کیجیے اور دے دیجیے آخر آپ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیے گا کہ کیوں نہ اکاؤنٹ آپ کے نام ہو جس میں اس کی اور آپ کی تنخواہ آئے۔
‎ویسے دل پہ زیادہ نہ لیجیے، آپ کی تنخواہ میں سے آپ کو جیب خرچ ضرور دیا جائے گا۔ اور یہ لاپرواہی مت برتیے گا کہ آپ نے وہ کہاں خرچ کیا؟ اس کا حساب کتاب تو دینا پڑے گا نا!
‎سبق نمبر تیرہ؛
‎اگر شوہر کو غصہ آئے اور وہ اپنا مزاج ٹھنڈا کرنے کے لئے آپ اور آپ کے میکے والوں کو گالی گلوچ سے نوازنا چاہیں تو جواب مت دیجیے گا۔ دیکھیے نا جو آپ کے لئے کما کے لاتا ہے وہ کہنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ ویسے جو بیٹیاں زبان ترشوا کے سسرال جائیں گی، انہیں صبر کے گھونٹ بھرنے میں آسانی رہے گی۔
‎سبق نمبر چودہ؛
‎اگر شوہر شام کو اکیلے دوستوں کی محفل میں وقت گزارتا ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ دیکھیے نا وہ سارا دن اتنی مشقت کرتا ہے۔البتہ اچھی لڑکیاں شادی کے بعد سہیلیوں سے ملنے والی علت نہیں پالا کرتیں۔
‎سبق نمبر پندرہ؛
‎ساس کو اپنے بیٹے کے آنگن میں جلد ازجلد اور بغیر وقفے کے پھول کھلتے چلے جانے کا شوق ہے۔ اس میں گل کھلائے گا ساس کا بیٹا اور جان کو روگ لگے گا آپ کی، آپ کی صحت خراب ہو گی۔ آپ کی جان مسلسل جاپے کے کارن خطرے میں رہے گی۔ تاہم قاسم علی شاہ کے منظور شدہ نصاب کے مطابق آپ کی صحت اہم نہیں، آپ کے شوہر کی نسل کا پھلنا پھولنا اہم ہے سو برائے مہربانی مانع حمل دوا کا مت سوچیے۔ ویسے بھی اچھی ماں ہونے کے لئے کثرت اولاد کا امتحان ضروری ہے۔
‎سبق نمبر سولہ؛
‎حمل کے دوران آرام کرنے کی قطعی ضرورت نہیں، چلتی پھرتی رہیں گی تو زچگی آسان ہو گی۔ ویسے بھی ساس کے زمانے میں تو اتنی سہولیات نہیں تھیں سو اب ان آسائشوں کے ساتھ یہ کسل مندی؟ کیا ہو گیا ہے آپ جیسی نام نہاد تعلیم یافتہ عورتوں کو۔
‎سبق نمبر سترہ؛
‎حمل کے دوران کچھ بھی کھانے کو جی چاہے تو اپنی زبان پہ قابو رکھیے۔ کیا دنیا میں انوکھا بچہ پیدا کر رہی ہیں آپ؟ جو گھر میں سب کے لئے پکتا ہے آپ بھی وہی کھائیے۔ اگر خون کی کمی ہو جائے تو اللہ مالک! شوہر تو خون عطیہ نہیں کر سکتا کہ بلاوجہ کمزوری لاحق ہو گی۔ مرد بچہ ہے آخر!
‎سبق نمبر اٹھارہ؛
‎بچہ اگر رات کو تنگ کرے، بیمار ہو، پیٹ میں قولنج ہو اور رو رو کے بے حال ہو رہا ہو تو اس کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی جائیے، تھکے ہارے شوہر کی نیند میں خلل مت ڈالیے۔ آپ کا کیا ہے، اگلے روز گھر کے دس افراد کا کام ہی تو نمٹانا ہے، البتہ اس کو دفتر میں کرسی پہ بیٹھے بیٹھے اونگھ آ گئی تو!
‎سبق نمبر انیس؛
‎بچوں کا سکول، پڑھائی، تربیت، کھیل کود کی نگہداشت بھی آپ کو کرنی ہے۔ اب ایسے کام باپ تو نہیں کیا کرتے نا! کیا یہ کافی نہیں کہ وہ بچوں کی سکول فیس بھر دیتا ہے۔
‎سبق نمبر بیس؛
‎اگر شوہر کو غصہ آ جائے اور آپ کو دو چار ہاتھ جڑ دے تو دہائی دینے کی ضرورت نہیں۔ آپ اس کی زندگی کی ساتھی ہیں سو اس کی بدتمیزیوں کو برداشت کرنا آپ کا فرض ہے۔ دیکھیے پیار بھی تو کرتا ہے اور ہر انگ میں نیل کے نشان بھرنے کے بعد کچھ شاپنگ کروائے گا، کچھ دن اسے غصہ نہیں آئے گا، تو سودا برا نہیں۔
‎سبق نمبر اکیس؛
‎اگر زندگی کے ان تمام جھمیلوں میں آپ کا رنگ و روپ کملا جائے، چہرے کی شادابی غائب ہو جائے، بچوں کی متواتر پیدائش سے جسم ڈھلک جائے اور آپ کے شوہر کسی اور عورت کی بانہوں میں پناہ لینا چاہتے ہوں تو آپ کو کیا غم؟ بچوں سے دل بہلائیے اور غم نہ کیجیے۔
‎سبق نمبر بائیس؛
‎اگر شوہر واپس آنے کی بجائے ایک سہانی صبح آپ کے ہاتھ میں پروانہ آزادی دے کے دروازے سے باہر کر دے تو ایسی کیا بڑی بات ہے؟ بیٹے ہیں نا، ماں کو سنبھال لیں گے۔ مرد تو ساٹھا پاٹھا ہوا کرتا ہے سو اس کے دوسری شادی کرنے پہ کیا قدغن؟ برسوں کی رفاقت کا غم آپ کو رہے گا اس کو نہیں۔ وہ نئی منزلوں کا راہی بننے کو بے چین ہے۔
‎سبق نمبر تئیس؛
‎زندگی کی شام میں جب آپ بجھتی آنکھوں، مہر بہ لب، پژمردہ دل اور ہلکے رنگوں کا چولا پہن کے تسبیح کے دانے پھیرنے میں مصروف ہوں اور شوہر کو آپ نظر آ جائیں کہ ان کی اماں چل بسی ہیں، بہن بھائی اپنی زندگی میں مصروف ہیں، تو ان کا ہاتھ جھٹکیے گا نہیں۔ انوکھے لاڈلے کو انوکھی ہی سوجھے گی نا۔ آپ کو اچھی بیوی کا تمغہ ملنے میں کچھ ہی دیر باقی ہے، سو کاٹ لیجیے یہ وقت بھی۔
‎آخری سبق:
‎آپ دنیا سے اچھی بیوی اور اچھی ماں کا سرٹیفیکٹ لے کر واپس آئیں ہیں۔ لیکن خالق حقیقی نے بنا کسی فرق کے جو ایک عورت اتاری تھی، اس پہ گزرے ہوئے لمحات کی کہانی سے کیوں یہ جی چاہتا ہے کہ وہ یہ سرٹیفکیٹ قادر مطلق کو پیش کرتے ہوئے کہے کہ مالک میں اپنے حصے کا جہنم کاٹ آئی ہوں، اب حساب کتاب کیسا؟
‎قاسم علی شاہ! اگر آپ کو ہماری تجاویز پسند آئیں تو بلاتکلف اپنے نصاب میں شامل کر لیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: