علی عبداللہ ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تینوں بھائی تجسس اور تعجب کی تصویر بنے پچھلے ایک پہر سے خاموش بیٹھے تھے اور کبھی کبھار کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رھے تھے. ناں یہ محل نیا تھا, ناں یہ مسندیں, انکا بچپن یہں اسی محل میں گزرا تھا اور نا جانے کتنی بار اس محل کی دیواروں میں انکے بچپن نے قلقاریاں بھری تھیں. کونسا ایسا گوشہ تھا جہاں وہ کھیلے نہ تھے, کونسا ایسا خادم تھا جس نے انکے باپ سے انکی شرارتوں کی شکائیت ناں کی تھی لیکن اس زمانے میں انکا باپ یہاں وزیرِ خاص تھا اور اِنکا اپنا مرتبہ شہزادوں سے کم نہ تھا.. آج انکی داڑھیوں میں سفیدی آ رہی تھی اور اُس پر وہ سوالی تھے۔
انکا باپ ایک جرنیل تھا جس نے اپنی جوانی پچھلے بادشاہ کے ھمرکاب جنگوں میں گزاری تھی. بادشاہ اس وقت چالیس برس کا تھا اور انکا باپ اکسٹھ برس کا جب دونوں نے مشورہ کیا کہ سلطنت کی وسعت کے بعد اب مضبوط پایئہ تخت کی ترتیب ضروری امر ھے سو دونوں بہادروں نے واپسی کی راہ لی. پائیہ تخت اس وقت ملکہ چلاتی تھی جسکا طرزِ حکمرانی تشویش ناک حد تک زنانہ تھا جسے درست کرنے کی اشد ضرورت تھی. بادشاہ نے آتے ہی ملکہ کو اسکے فرائض سے مکتی دیدی اور اپنے جرنیل کو مصاحبِ خاص اور وزیرِ خاص کے دو منصب دیدئیے۔ دوسرا کام اسنے یہ کیا کہ اپنی بیوی کی بہن جو نیک عورت تھی سے اپنے جرنیل کی شادی کر دی تا کہ ایک بہادر جنگجو اس دنیا سے بے نام ناں چلا جائے. اس دیندار عورت نے یکے بعد دیگرے تین بیٹوں کو جنم دیا جو اسی محل کے شاہی ماحول میں پروان چڑھنے لگے۔
مقتدر ملکہ مصاحبِ خاص کے بڑھے ہوئے مرتبے اور اپنی بہن پر حکمرانی کے شوق میں زچ رھتی تھی جو بادشاہ کے مشاہدے میں تھا اور اس نے ہر طرح سے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر ملکہ اپنی حکمرانی کے خاتمے اور بادشاہ کے بیس سالہ جنگی دور کے خاتمے کی وجہ اسی وزیر کو گردانتی تھی اوپر سے اسکی اپنی بہن جو ہر لحاظ سے اس سے بہتر تھی اسے بادشاہ نے بِنا ملکہ سے مشورہ کیئے جرنیل کے عقد میں دیدیا تھا جو اسے کھائے جاتا تھا لہٰذا اسکی جلن دن بدن بڑھتی جاتی تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ھےجب وزیرِ خاص کا بڑا بیٹا سات سال کا تھا اور اسکی اپنی عمر ستر ہونے کو تھی, ملکہ نے ایک سازش میں وزیرِ خاص کو ملوث کروا کے مروانے کی کوشش کی, بادشاہ جو صرف اپنی اولاد کی وجہ سے اس عورت کی ریشہ دوانیوں کو برداشت کرتا تھا بھانپ گیا اور اس نے اپنی نیک سالی کے مشورے پر اپنے دوست کوسلطنت سے چلے جانے کی اجازت دیدی. بادشاہ اسے ایک جاگیر عطاء کرنا چاھتا تھا مگر وزیر نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہہ اسکی نیک بیوی اور اولاد اسی کی دین ہیں لہٰذا اسے جاگیر کی ضرورت نہیں اور اپنے بیوی بچے لیکر دور دراز علاقوں میں ہجرت کر گیا.. اسنے اپنا نام بدل لیا اور زراعت کرکے بہت دولت اور نیک نامی کمائی. اللہ نے اسے عمرِ دراز عطا فرمائی اور وہ پچانوے سال زندگی پا کر دنیا سے رخصت ھوا. اس دوران بادشاہ کی طرف سے کوئی خیر خبر انکے علاقے میں نہیں پہنچی۔
میاں بیوی نے اپنی اولاد کی تربیت خوب کی اور انھیں اچھا انسان بنایا. مرتے ہوئے وزیر نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اگر کبھی مصیبت آئے تو میری انگشتری, جو بادشاہ نے بوقتِ رخصت زبردستی اسے دی تھی اور وعدہ لیا تھا کہ اگر اس پر یا اسکی اولاد پر کبھی کوئی مصیبت آئے تو وہ اس انگشتری کے ساتھ پیغام روانہ کریں. وہ یا اسکے بعد جو بھی بادشاہ ہوگا وہ انکے خاندان کی مدد کرنے کا پابند ہوگا۔
والد کے مرنے کے دو سال کے اندر جیسے خیر و برکت ہی اٹھ گئی اور ایسا وقت آ گیا کہ تینوں بھائیوں نے مشورے کے ساتھ رختِ سفر باندھا.. محل کے دربان سے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت کو گزرے دس برس ہو گئے اور اسکا بیٹا اب تخت افروز ھے. پوچھنے پر پتہ چلا کہ ملکہ ابھی تک حیات ھے جس سے وہ مایوس ہونے لگے مگر ساتھ ہی دربان نے بتایا کہ وہ بوجہ علالت صحت افزا مقام پر تشریف لے گئی ہیں. انھوں نے شاھی انگشتری دکھائی جو انہیں مہمان خانے تک لے گئی. بادشاہ کو اطلاع کی گئی مگر ایک پہر ہونے کو آیا ناں بادشاہ آیا ناں کوئی پیغام۔ لیکن ایک چیز جو باعثِ تسکین تھی وہ یہ کہ انکے ساتھ مہمانانِ خاص جیسا سلوک کیا جا رہا تھا۔ دو مرتبہ موسمی مشروبات سے انکی تواضع کی گئی تھی اور مہمان خانے کے خدام بسر و چشم انکی ہر خواھش کو پورا کرنے کیلئے مستعد نظر آتے تھے. ابھی کچھ دیر پہلے انھوں نے خادم کے اصرار پر طعام کیلئے آمادگی ظاہر کی تھی جسے پورا کرنے کیلئے وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
اکیلا رہ جانے پر بھائیوں نے دبے لفظوں میں ایک دوسرے سے اتنا انتظار کروائے جانے پر تعجب کا اظہار کیا اور اسی دوران انہیں کھانے کے کمرے میں چلنے کی دعوت دیدی گئی اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی کہ کھانے کے فوراً بعد بادشاہِ وقت ان سے ملیں گے.. کھانے کے دوران رموزِ گفتگو طے کرنے کیلئے بڑے بھائی نے خدام سے تخلیہ کی فرمائش کی جو پوری کر دی گئی اور چند ہی لمحوں میں انہوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اگر بادشاہ کے مقصدِ سفر پوچھنے میں خلوص چھلکا تو وہ بیان کریں گے ورنہ اسکے مرحوم والد کے گزر جانے کی اطلاع پر اظہارِ افسوس کا بہانہ کرنے پر اکتفاء ہو گیا..
کیونکہ انہیں تنہائی کا یقین تھا سو وہ ہلکی پھلکی گفتگو کے ساتھ کھانا کھانے لگے. دورانِ گفتگو بادشاہ آ گیا لیکن احتیاطً پردے کے پیچھے رک گیا تا کہ مہمان کھانا چھوڑ نہ دیں. لاعلمی میں ایک بھائی بولا…
” لگتا ھے اس بکرے نے کتیا کا دودھ پیا ھے”
دوسرے نے کہا…
"میرے خیال میں جس عورت نے یہ روٹی پکائی ھے وہ ناپاک ھے”
تیسرا بولا…
” مجھے تو بادشاہ بھی اپنے باپ سے نہیں لگتا”
بادشاہ کا ہاتھ تلوار کے دستے پر آگیا مگر ایک تو خالہ زاد اوپر سے مہمان تیسرا اسکے اپنے باپ نے ساری عمر اسے اپنے دوست کی دانائی اور خالہ کی پارسائی کے قصے سنائے تھے سو اس نے ان باتوں کی حکمت جاننے کی ٹھانی..
مہمان کھانا کھا چکے تو بادشاہ نے اشارے سے خدام کو اپنی آمد کی اطلاع کرنے کا کہا اور اعلان ہوتے ہی نہائیت گرم جوشی سے اپنے عزیزوں کو ملا. اس نے دو مرتبہ اپنی آمد میں تاخیر پر معذرت کی اور اپنی خالہ جو ابھی ذندہ تھی کو ساتھ ناں لانے پر شکوہ زن ہوا. تینوں بھائیوں نے ایسی ملنساری اور مردم شناسی دیکھی تو اپنی مصیبت سے آگاہ کیا جو اسی وقت دور کر دی گئی بلکہ بادشاہ نے انکو خاندان سمیت دارالخلافہ آنے اور اپنے باپ کے مقام پر کام کرنے کی دعوت بھی دیدی.. اس دوران باتوں باتوں میں وہ اپنے حکیم خالو اور عظیم خالہ کی شاندار تربیت کی دل ہی دل میں داد دیتا رہا لیکن تینوں بھائیوں کے تین جملے اسکے گلے کی پھانس بن گئے تھے اور وہ انکی بابت پوچھنا چاھتا تھا..
اس دوران اطلاع آئی کہ بادشاہ کہ ماں سفرِ علالت سے صحتیاب ہو کر واپس آ گئی ہیں جس پر بادشاہ انہی ساتھ لیکر اپنی ماں اور انکی خالہ کے استقبال کیلئے چل دیا. تینوں بھائی پچھلی ساری باتیں سن چکے تھے سو ہچکچائے لیکن جب بادشاہ دعوت دیکر چل پڑا تو تینوں چار و نا چار ساتھ چل دیئے.. ملکہ نئے مگر جانے پہچانے سے چہروں کو اپنے استقبال میں دیکھ کر حیران ہوئی لیکن قریب آتے ہی اسے ان میں اپنی بہن اور وزیرِ خاص کی خوبو مل گئی اور اسنے انکا بہترین استقبال کیا.. تینوں بھائیوں کو ایسا محسوس ہوا کہ ملکہ اپنے کیئے پر نادم رہی ہیں کیونکہ اسکے مطابق انکے والدین کے چلے جانے کے کچھ عرصہ بعد اسنے انھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی..
سب لوگ حرم میں ملکہ کے ساتھ چلے آئے اور بادشاہ نے اپنے بیوی بچوں کو اپنے اعزاء سے ملوایا.. جب تینوں بھائی خود کو اپنوں میں محسوس کرنے لگے تو بادشاہ نے ان سے تین جملوں کے بارے میں پوچھ لیا.. اگر وہ چور ہوتے تو سٹپٹا جاتے لیکن تینوں بھائی بالکل مطمعن رھے اور باری باری بولنے لگے.. پہلے نے کہا..
” بکرے کی چربی اوپر ہوتی ھے جبکہ کُتے کی گوشت سے نیچے, جب میں نے بوٹی کو کاٹا تو اسکے نیچے چربی تھی سو میں نے کہا کہ اس بکرے نے کسی کتیا کا دودھ پیا ھے..”
گلہ بان کو بلا کر اسکی تصدیق کی گئی تو اسنے بتایا کہ پکائے گئے بکرے کی ماں اسکے جنم کے وقت مر گئی تھی. اس وقت گلے کے نگران کتوں میں سے ایک کتیا نے بھی بچے دیئے تھے اور یہ بکرا اسی کے بچوں کے ساتھ پلا بڑھا..
بادشاہ حیران ہوا اور دوسرے بھائی سے روٹی کے ٹوٹنے کی کہانی ہوچھی.. ّوہ بولا
” شوربے میں ڈبونے پر میری روٹی بار بار ٹوٹ کر سالن میں گر جاتی تھی جس سے مجھے پتہ چلا کہ جس عورت نے آٹا گوندھ کر روٹیاں بنائی ہیں وہ ناپاک ھے..”
بادشاہ اور حیرت زدہ ہوا اور نانبائی کو طلب کیا اور معاملہ پوچھا جس نے اقرار کیا کہ وہ ایام سے ہے.. اب بادشاہ تیسرے بھائی کی طرف مڑا اور پوچھا تم نے یہ کیسے کہا کہ میں اپنے باپ میں سے نہیں ہوں؟ ملکہ، شہزادے، شہزادیاں، بادشاہ کی ماں یعنی بڑی ملکہ سب انگشت بہ دندان رہ گئے خصوصاً بادشاہ کی ماں لیکن تیسرا بھائی مسکرایاااور اطمنان سے بولا۔۔
"اگر بیٹے کو پتہ چلے کہ باپ کے عزیز ترین دوست کے بچے آئے ہیں اور وہ انھیں ایک پہر تک انتظار کروائے تو وہ اسکا سگا بیٹا نہیں ہو سکتا۔۔”
بادشاہ نے اپنی ماں کی جانب دیکھا جو حیرت و خوف کا پیکر بنی اپنے بھانجے کی جانب دیکھ رھی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور تیسرے بھائی کو گلے سے لگا لیا اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیا اور بولی حکمت و دانائی میں تم تینوں واقعی اپنے ماں باپ کے بیٹے ہو۔ کیا خوب تربیت کی ہے انھوں نے تمھاری۔۔ بادشاہ جو قریب تھا اپنا صبر کھو دیتا ملکہ پلٹی اور مسکرا کر اسکی طرف دیکھا اور گویا ہوئی۔۔
” میرا نکاح تمھارے والد کے بڑے بھائی سے ہوا تھا جو شادی کے چند دن بعدشکار کے دوران پہاڑ سے گر کر مر گیا۔ میں اس وقت حاملہ تھی سو تمھارے دادا نے میرا نکاح تمھارے والد سے کر دیا۔ تم میرے پہلے شوھر یعنی اپنے تایا کے بیٹے ہو۔ تمھارے دادا نے اس بات کو راز رکھنے کا حکم جاری کیا اور سوائے چند لوگوں کے اسکا کسی کو علم نہ تھا حتیکہ میری بہن اور ان تینوں کی ماں بھی اس سے لاعلم تھی۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر