ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کا ایک حصہ ہوتا ہی ایسا ہے جس میں انسان عقل و فہم سے اگرچہ عاری نہیں ہوتا لیکن فیصلوں اور رویوں کے انتخاب میں جذبات غالب رہتے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ اس خاص عمر کے جذبات دماغ کے کسی خانے میں Save ہو جاتے ہیں، جو عمر کے کسی بھی حصے میں جذباتی پن کو عارضی طور پہ ہی سہی پر انگیخت کر سکتے ہیں۔ جیسے سترہ برس کی عمر میں مجھے نوجوانوں کی اکثریت کی طرح ذوالفقار علی بھٹو سے اس لیے عقیدت تھی کیونکہ ہم نوجوانوں کا خیال تھا کہ وہ مسیحا ہونگے۔ ظاہر ہے اس خواب کی تعبیر ٹوٹی پھوٹی تھی۔ اب بلاول کو دیکھ کر نمعلوم مجھے زرداری اور بے نظیر یاد نہیں رپتے، ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں، لامحالہ یہ ذہن میں محفوظ اس یاد کی وجہ سے ہی ہوگا، جو ذوالفقار علی بھٹو سے عقیدت سے پیوست ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فاطمہ بھٹو کے لیے میرا تاثر ایسا نہ ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کا تسلسل تھیں اور ان کا بیٹا ان کا تسلسل۔
ذوالفقار علی بھٹو سے عقیدت کا پہلو، بیس سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے فرو ہو چکا تھا البتہ تعظیم کا عنصر بہر حال باقی رہا۔ ذوالقار علی بھٹو ایک پاپولسٹ رہنما تھے، یہ بات بیس سال کی عمر میں مجھ پر پوری طرح منکشف ہو چکی تھی۔ پاپولزم کا مفہوم بھی واضح ہو چکا تھا کہ یہ ایسی طرز سیاست کو کہا جاتا ہے، جس میں انتخابات جیتنے کی خاطر لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کے ساتھ وابستہ نعرے متعارف کروائے جاتے ہیں اور عوام سے جھوٹی یگانگت دکھانے کی خاطر عوامی رنگ اختیار کر لیا جاتا ہے، جس کا متعلقہ سیاست دان کی نجی زندگی سے دور پار کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
پاپولزم کی سیاست ظاہر ہے نیم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں میں ہی اختیار کی جا سکتی ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں صرف انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست رہنماؤں کے طرز سیاست میں ہی پاپولزم کا جزوی رنگ پایا جاتا ہے۔ پاپولزم اور جذبات پسندی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ویسے ہی جیسے ذولفقار علی بھٹو سے ان کے نواسے کا، جو مجھے ذاتی طور پہ اچھا لگتا ہے، پتہ نہیں کیوں؟
پاکستان میں رائے دہی کے عمل میں بہت سے ایسے لوگوں کو پہلی بار شرکت کرنی ہے جن کی عمریں جذباتی پن کی عمریں ہیں تاہم ہمارے اس عمر کے عہد کی نسبت آج کا عہد انفارمیشن کا عہد ہے، جس میں الیکٹرونک میڈیا کی بھرمار سے لے کر انٹرنیٹ اور سوشل نیٹ ورکس تک کی سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں البتہ ایک المیہ آج بھی موجود ہے کہ ہمارا ملک آج بھی غیر ترقی یافتہ ہے اور اس میں آج بھی پاپولسٹ رہنماؤن کے لیے اپنی سیاست چمکانے کی بڑی گنجائش موجود ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان آج پاپولسٹ طرز سیاست میں پہلے مقام کے حامل ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے دعوے اور بلاول کا شمالی پنجاب کے لوگوں کو خوشحال کہنا (جو بالکل بھی سچ نہیں ہے) اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کے مصائب کا ذکر بھی پاپولسٹ طرز سیاست کے اظہار ہیں۔ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کے انداز بھی قوم پرستی کے ساتھ ساتھ پاپولزم کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ایے این پی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی پاپولزم کا سہارا نہیں لیتیں جبکہ ایم کیو ایم کا آغاز تو پاپولسٹ سیاست سے ہوا تھا لیکن آج اس کی سیاست میں پاپولزم کی بھنک تک نہیں رہی۔ پاپولزم فوری مثبت نتائج کا موجب تو بن سکتا ہے لیکن پاپولزم کو زیادہ دیر اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ ایک تو لوگوں کی عمریں فہم کی عمروں میں داخل ہونے لگتی ہیں، دوسرے لوگوں کو اپنے خواب ٹوٹنے کا بھی بہت درد ہوتا ہے۔ پھر پاپولزم کی چھتری میں جذباتی پرچار اور جوشیلے بحث مباحثے کرنے والے جوان لوگ یا تو مایوس ہو جاتے ہیں یا مخالف۔
پاکستان کی ساری ہی پارٹیاں سرمایہ دارانہ طرز معیشت اورجمہوری انداز سیاست کو اپنائے ہوئے ہیں اور تو اور پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی تک نے اپنے پروگرام میں سے سوشلزم طرز معیشت کے انتخاب کو حذف کر ڈالا ہے جیسے یہ غیر اسلامی سوچ پہ مبنی معیشت ہو۔ جی ہاں معیشت، معیشت پہ ہی ملکوں کی زندگی اور تا حتٰی بقا تک منحصر ہوتی ہے۔ سیاست کو بطور پیشہ اختیار کرنا سبھی لوگوں کے بس میں نہیں ہے لیکن معیشت سے کسی کو بھی مفر نہیں ہو سکتا۔ روٹی تو سب نے ہی کھانی ہے، کپڑے تو سبھی کو درکار ہوتے ہیں، چھت کے بغیر زندگی زندگی نہیں رہتی اور آسائشوں کا حسول کس کی خواہش نہیں؟
ایسا نہیں کہ پاپولسٹ رہنما بالکل جھوٹے ہوتے ہیں یا وہ رائے دہندگان کو کھلا دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے وہ اچھے ہی ہوں لیکن بہر حال وہ لوگوں کی آرزووں سے ضرور کھیلتے ہیں، ایسے دعوے کر دیتے ہیں جن کو پورا کیا جانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ معروضی حالات سے ماوراء وعدے اس لیے کر لیتے ہیں کہ انتخاب جیت جائیں تو بعد میں عوام کو بہلا لیں گے۔ لیکن عوام بچے نہیں ہوتے ، وہ بہلا نہیں کرتے بلکہ رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اگر ظلم نہ کیا جاتا تو لوگ انہیں اور ان کی نسلوں کو کیسے دیکھتے، اس سوال کا جواب دیا جانا اس لیے ممکن نہیں کیونکہ ظلم بھی ہوا تھا اور ان کی نسلوں کو لوگوں نے اس کا معاوضہ بھی ادا کیا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بہت دور کے ملک وینزویلا میں ایک پاپولسٹ سوشلسٹ رہنما ہیوگو شاویز کی طبعی موت کے بعد ان کی وراثت کے مد مقابل لوگوں کی تعداد بھی تقریبا” اتنی ہی ہے جتنی ان کے مداحوں کی۔
سیاستدان نہ تو روحانی شخصیات ہوتی ہیں جن سے عقیدت روا رکھی جائے اور نہ ہی فنکار یا ادیب ہوتے ہیں جن کا کہ مداح ہوا جائے۔ سیاستدان حقیقی مسائل کے حل کے داعی ہوتے ہیں، اس لیے ان کے چناؤ کا فیصلہ جذباتی ہوئے بغیر کرنا چاہیے، اگر آپ انتخاب میں جذبات سے کام لیں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ سال دوسال یا پانچ سال گزرنے کے بعد آپ پشیمان ہوں اور آپ کو اپنے انتخاب پر شرمندگی ہو۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو! آمین
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ