رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر دور میں عوام آزادی لینے جاتے ہیں اور مزید غلامی گلے میں ڈال کر لوٹ آتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اس ملک میں سیاسی پارٹیوں کے نام پر تین‘ چار گروہ ہیں اور ان کے تین‘ چار سردار۔وہ تینوں‘ چاروں ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہتے ہیں اور عوام کو ان سے آزادی دلانے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ عوام بھی ان گروہوں میں تقسیم ہیں۔ یوں اگر ان سب کی باتیں یا الزامات سنیں تو آپ کو لگے گا اس ملک میں بائیس کروڑ لوگ ایک دوسرے کو چور ڈاکو سمجھتے ہیں۔وہی میرا پرانا جملہ کہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ان چور ڈاکوئوں سے اگر سردار ہماری مرضی کا ہو۔ یوں ڈاکوئوں کے جس گروہ سے آپ ملیں گے وہ خود کو ایماندار اور پارسا سمجھے گا اور دوسرے کو بدکردار اور کرپٹ۔ بائیس کروڑ لوگوں کے اس ملک میں کوئی پارسا نہیں بچا کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کو ڈاکو سمجھتے اور لڑتے ہیں۔کتنے خوش قسمت ہیں یہ تین‘ چار لیڈر جنہیں اتنے عوام میسر ہے جو ایک دوسرے کو چور ڈاکو سمجھتے ہیں۔عوام کو کسی بھی دور میں جذباتی کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ ان کے جذبات ابھار کر قتل کروادینا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا چاہے اُس بندے نے ان کا ذاتی نقصان تک نہ کیا ہو۔ انسانی تاریخ دیکھیں تو انسان دو تین ایشوز پر ہمیشہ لڑتے آئے ہیں اور انہیں آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے۔ ہر بندہ جس دھرتی پر پیدا ہوتا ہے اس سے ماں کی طرح محبت کرتا ہے لہٰذا لوگ اپنے وطن کو دھرتی ماں کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی سے یہ ٹرم نکلی ہے” Son of the Soil‘‘۔ انسانی تاریخ میں لوگ اپنی مدر لینڈ کے لیے جانیں دیتے آئے ہیں۔ لیڈر اپنی قوم میں اس پیدائشی جذبہ کو ابھار کر یا تو اپنی دھرتی ماں کا دفاع کرتے آئے ہیں یا دوسروں کی دھرتی پر حملے کرتے آئے ہیں‘ جو ان کے تئیں ان کی دھرتی ماں کی دشمن ہے۔دونوں اطراف سے مرنے والے اپنی اپنی دھرتی ماں کا دفاع کررہے ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی قربانی کوئی نہیں سمجھی جاتی۔ اس لیے جو بھی اپنے وطن اور دھرتی کا نعرہ لگائے گا‘ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی آواز پر سب دوڑے چلے آئیں گے اور جانیں نچھاور کر دیں گے۔ہمیشہ یہ نعرہ مار کر ہی قوموں کو لڑایا گیا۔ پھر لوگوں کے ذہن میں ایک اور بات ڈال دی جاتی ہے کہ وہ سب عظیم نسل، رنگ اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عام انسان نہیں‘ وہ بڑے مقصد کیلئے اور دوسروں پر حکمرانی کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ ہر انسان کے اندر یہ احساسِ برتری موجود ہوتا ہے۔ ہر بندہ خود کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے۔ ہر بندہ اپنی ذات سے محبت کرتا ہے‘ بعض کم اور بعض زیادہ اوربعض میں تو یہ بیماری کی شکل میں بن جاتی ہے۔ وہ ہر وقت اپنی خوبیاں اور دوسروں کی خامیاں بیان کرتا رہتا ہے۔ وہ لوگوں کو موقع نہیں دیتا کہ وہ اس کی خوبیاں بیان کریں۔ اگر کوئی خوبی بیان کرے گا بھی تو اسے لگے گا کہ ابھی کسر رہ گئی ہے‘ لہٰذا وہ خود اپنی خوبیاں بتانا شروع کر دے گا۔ یوں اکثر ہوشیار اور چرب زبان لوگ عام انسانوں کے اندر موجود ملک وقوم اور اپنی نسل کے احساسِ برتری کو ابھار کر انہیں اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں کہ آپ کے وطن، نسل، دھرتی، زبان اور کلچر کا اکیلا میں ہی وارث ہوں اور میں ہی ان کا دفاع کروں گا۔
لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کا دوسرا بڑا طریقہ معاشی نعرہ ہے۔ اگر آپ تاریخ کو غور سے پڑھیں تو دنیا میں جو بھی بڑی جنگیں ہوئی ہیں یا آج تک ہورہی ہیں وہ سب کی سب معیشت یا پیٹ سے جڑی ہیں۔ تاریخ میں جتنی قوموں نے دوسری قوموں پر حملے کیے ان میں معیشت ایک اہم فیکٹر تھا اور آج بھی ہے۔ وہ قومیں جو بھوکی تھیں، جن کے پاس وسائل کی کمی تھی‘ زمینیں نہیں تھیں اورجہاں دریا نہیں تھے جو ان فصلوں کو سیراب کرتے تو وہ دنیا کے ان علاقوں کی طرف نکل پڑے جن کے پاس یہ سب وسائل تھے۔ ہمیشہ ان علاقوں سے جنگجو نکلے جو غریب تھے، بھوکے تھے‘ لہٰذا وہ باقی دنیا کو لوٹنے چل پڑے۔منگول صحرا سے اٹھے، افغانستان سے حملہ آور اٹھے اور ہندوستان کو لوٹا اور اس خطے کو امیر دیکھ کر حکمرانی بھی کی۔ یہی کچھ دنیا کے دیگر ممالک میں کیا گیا۔ زرعی معاشرے کبھی جنگجو نہیں ہوتے، پہاڑوں اور صحرائوں کے لوگ زندگی سخت ہونے کی وجہ سے لڑاکے ہوتے ہیں کہ وہ روز زندہ رہنے کی لڑائی لڑ رہے ہوتے ہیں‘ لہٰذا وہ اس ٹف لائف کے عادی ہوتے ہیں کہ یا تو مار ڈالو یا مارے جائو۔لیکن سب سے بڑھ کر جو کام انسانی تاریخ میں کیا گیا ‘ وہ عام لوگوں کے مذہبی نظریات کو ابھار کر ان کو لیڈ کیا جائے۔
انسان اپنے مذہب سے یا مذہبی خیالات سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں۔ اسی انسان کو پارسا سمجھا جاتا ہے جو اپنے مذہبی خیالات پر عمل کرتا ہوں۔ اس کی بات سمجھی اور مانی جاتی ہے۔ اس سے لوگ اپنی زندگیوں اور موت کے فیصلے کراتے ہیں۔ یہ کام ہزاروں سال سے انسانی تاریخ میں ہوتا آیا ہے کہ مذہب کی انسانوں کی زندگی میں اہمیت رہی ہے۔ یورپ میں خصوصاً کلیسا نے بادشاہوں سے بھی زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ انجوائے کیا۔ بادشاہ تک ان کے محتاج ہوتے تھے‘ لیکن پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور صنعتی انقلاب نے دھیرے دھیرے ان معاشروں میں کلیسا کا کردار کم کر دیا اور جمہوری معاشرے ابھرے جس میں مذہب انسان کا ذاتی فعل قرار پایا کہ اللہ جانے اور انسان جانے کہ وہ مسجد جاتا ہے، مندر یا چرچ‘ ریاست کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں جب تک اس کے کسی نظریے کی وجہ سے ریاست یا انسانوں کو کوئی خطرہ نہیں۔ مذہب یا مذہبی نظریات کی بنیاد پر بھی انسانوں نے جنگیں لڑیں اور اپنا اپنا ایمان دوسرے سے اعلیٰ ثابت کرنے کیلئے اپنے جانیں قربان کیں۔ مذہب ہمیشہ سے حساس ایشو رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے کی جان لینے میں دیر نہیں کرتے۔ بھارت کی حالت آپ کے سامنے ہے کہ وہاں کیسے مذہب کارڈ کھیلا جارہا ہے اور کسی کو بھی پکڑ کر کوئی بھی قتل کرسکتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک وڈیو نے سب کو دہلا دیا جس میں ایک بندے کو شک کی بنیاد پر مارا جارہا تھا۔ ہمارے ملک میں مذہب کارڈ بھٹو صاحب کے دور سے زیادہ استعمال ہونا شروع ہوا۔ بھٹو صاحب نے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی‘ پورا فائدہ نہ اٹھا سکے لیکن ضیا الحق نے پورا کارڈ کھیلا۔ ہمارے ہاں تو باقاعدہ مذہب کے نام پر جماعتیں موجود ہیں اور ان کے بڑی تعداد میں فالورز اور ووٹرز ہیں۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو بھی وقتاً فوقتاً یہ کارڈ کھیلتے رہے تا کہ لوگوں کا ان پر اعتماد برقرار رہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔عمران خان کی ایک خوبی ہے کہ انہوں نے اس میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ سمجھا جاتا تھا کہ شاید ضیادور میں یہ کارڈ زیادہ کھیلا گیا لیکن اب ضیابہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ خان صاحب نے جس خوبصورتی سے یہ کارڈ کھیلا ہے یقین کریں چوہتر برسوں میں کوئی نہیں کھیل سکا۔ اس کی داد خان صاحب کو نہ دینا زیادتی ہوگی۔ ہمارے ان لیڈروں نے 98 فیصد مسلم آبادی اور اس ملک کے عوام کو یقین دلا دیا ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔ جس ملک کی اکثریت کو لگتا ہو کہ ان کا مذہب خطرے میں ہے تو وہاں یہ کارڈ کھیلنا کون سا مشکل ہے۔ یہ آپ کو اقتدار تک لے جاتا ہے‘ لوگ آپ کو پارسا اور اپنے دین کا محافظ سمجھ کر اپنا مسیحا بنا لیتے ہیں۔
سو‘ اگر سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری لانگ مارچ کے شرکاسے خطاب کے دوران عمران خان کے کان میں یہ سرگوشی کرتے کیمرے پر سنے گئے کہ اپنی تقریر میں ذرا ”مذہبی ٹچ‘‘ دیں تو وہ غلط نہیں کہہ رہے تھے کہ سارا کھیل تو اسی ٹچ کا ہے۔ خان صاحب نے بھی فوراً اپنی تقریر کا رخ بدلا اور اسے مذہبی ٹچ دے دیا۔ اچھا سیلز مین وہی چیز بیچے گا جس کے مارکیٹ میں خریدار ہوں گے۔ قاسم سوری کا کیا قصور ہے؟ سُوری کو غلط نہ سمجھیں پلیز!
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر