نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان کا جلسہ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ||حیدر جاوید سید

یہ بھی نہیں بتایا کہ ساڑھے تین سال میں لُولے لنگڑے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے آگے بات کیوں نہیں بڑھ پائی۔ صوبہ بنانے کا جو روڈ میپ 100دن میں دینا تھا وہ کیا ہوا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاشبہ تحریک انصاف نے ملتان میں ایک اچھا جلسہ کیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے لوٹوں کے خلاف ’’جوش و جذبہ‘‘ سے نعرے لگوائے۔ جنوبی پنجاب صوبے کی پھر باتیں ہوئیں۔ یہ کسی نے نہیں سمجھایا پوچھا کہ وہ سرائیکی وسیب کو جنوبی پنجاب کیوں کہتے ہیں۔
کیا ہم کسی عزت مآب شخص کو اس کے اصل نام کی بجائے کرماں مصلی سے کہہ کر بلا یا تعارف کرواسکتے ہیں ؟۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کرماں مصلی کو ایک مثال سمجھئے گا اس کا مقصد کسی ’’دیندار‘‘ کی توہین ہرگز نہیں۔
ملتان میں لانگ مارچ کی حتمی تاریخ نہیں دی اس بارے یہ کہاگیا ہے کہ 25 مئی سے 29 مئی کے درمیان تاریخ کا اعلان کیا جائے گا ،
فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ
” کابل میں جاری مذاکرات کے اختتام کے بعد صلاح مشورہ کرکے تاریخ دینی ہو”
یہ بھی نہیں بتایا کہ ساڑھے تین سال میں لُولے لنگڑے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ سے آگے بات کیوں نہیں بڑھ پائی۔ صوبہ بنانے کا جو روڈ میپ 100دن میں دینا تھا وہ کیا ہوا۔
صوبہ کمیشن کیوں نہ بن پایا۔ اصولی طور پر اس موضوع پر ملتان میں دو شخصیات کو تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے کے ساتھ ان "مبینہ” رکاوٹوں کا ذکر کرنا چاہیے تھا جو سرائیکی صوبہ بنانے میں مانع ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کہ نیا صوبہ بنانے کے لئے کہیں سے گرین سگنل نہیں ملا۔ یہ بات درست ہے تو لوگوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
اول سے آخر تک تقاریر، الزامات، قصوں، کہانیوں، تمسخر اڑانے سے عبارت تھیں۔
پونے چار سال کی کارکردگی کیا رہی کسی شعبہ میں ترقی ہوئی، کسی نے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ سرائیکی وسیب کے مرکزی اور تاریخی اہمیت کے حامل صوفی مزاج شہر ملتان میں دھیمے انداز میں اپنی کارکردگی بتاکر مستقبل کا پروگرام عوام کے سامنے رکھا جاتا۔ جنسی لذت سے بھرے جملوں پر تالیوں کا شور، نعرے، ہاہاکاری سمیت سب کچھ تھا سوائے سنجیدگی کے۔
بلاشبہ عمران خان نے مریم نواز کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ غیرمناسب غیراخلاقی تھا۔ ان کی باتوں کا دفاع کرنے والوں کا موقف کمزور دلیل بودی اور حوالہ جات دیوار پر مارنے کے لائق ہیں۔
وہی پرانی گھسی پٹی باتیں، وہ جی (ن) لیگ نے محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کیا کیا۔ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کےلئے معافی درگزر اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔
آپ کے پاس سے تو یہ سب ہوا کے جھونکے کی طرح بھی نہیں گزرا۔
اپنی غلط بیانی اور لیڈر کی زبان دانی کا جواز گھڑنے کی بجائے شائستہ انداز میں معذرت زیادہ مناسب اور باوقار طریقہ ہے۔
خود تحریک انصاف کے انگنت لوگوں نے
’’ان سستے جملوں کا دفاع‘‘ کرنے کی بجائے یہ کہا یہ بات نہ کی جاتی تو مناسب ہوتا۔
مخالفین کی خواتین کے لئے ’’زبان دانی‘‘ کی ہم نے ہمیشہ ان سطور میں کھل کر مذمت کی۔
ہم اسے بدقسمتی کہہ سکتے ہیں برصغیر (پاک و ہند اور پھر تقسیم کے بعد) کا عمومی مزاج یہی ہے۔ واہگہ کے دونوں اٙور دستیاب لیڈروں میں سے بہت کم ہوں گے جو سماجی شعور اور اخلاقیات کا دامن تھامے رہتے ہوں۔
اکثریت چرب زبانوں اور بدزبانوں کی ہے۔ بھارت میں امیت شاہ اور پاکستان میں شیخ رشید بھی لیڈر ہیں۔ سیاسی عمل کو اس سے بڑی سزا اور کیا مل سکتی ہے۔
بسا اوقات تو سیاسی رہنمائوں اور مذہبی قائدین کی تقاریر سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارت کی مقبول ترین نیٹ سیریز دیکھ رہے ہوں۔
کیا شاندار مادرپدر آزاد مکالمے ہوتے ہیں۔
ملتان اپنی وضع داری، انسان دوستی، مروت، اخلاص، ایثار، سماجی اقدار کی شاندار مسلمہ تاریخ کا وارث ہے۔ یہ راجہ پرہلاد جیسے انسان دوستوں کا ملتان ہے، معاف کیجئے گا میں ملتان کی تاریخ کے اوراق وا نہیں کرنے لگا۔ پریشان نہ ہوں۔
ایک اچھے شاندار جلسے میں لیڈروں کو جو باتیں کرنی چاہئیں تھیں وہ نہیں کیں جو کہا اس کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن کیا کریں جو فروخت ہوگا اسی مال کی دکان کھلے گی اور رش بھی ہوگا۔
کالم کے پہلے حصے کی آخری بات یہ ہے کہ خان صاحب نے مریم نواز کے حوالے سے نامناسب بات کہی کسی اگر مگر کے بغیر انہیں معذرت کرنا چاہیے۔
وہ اور ان کے حامی معذرت کو غیرضروری اور ان کی بات کو درست سمجھتے ہیں تو جواب آں غزل پر منہ بسورتے ہوئے شکوہ فضول ہوگا۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو فلور کراسنگ پر ڈی سیٹ کردیا ہے۔ ان ارکان نے وزیراعلیٰ کے انتخاب میں سابق حکمران اتحاد کے امیدوار پرویزالٰہی کو ووٹ دینے یا ان کے ساتھ بائیکاٹ کرنے کی بجائے متحدہ اپوزیشن کے امیدوار حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔
قانونی اخلاقی اور سیاسی طور پر یہی فیصلہ آنا تھا۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی ابتدائے عشق ہے۔ ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کے پاس اپیل کا حق ہے وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔
موجودہ ایوان (پنجاب اسمبلی) میں فی الوقت سابق متحدہ اپوزیشن کی پوزیشن بہتر ہے۔ بظاہر دونوں گروپ اپنے پاس (حمزہ شہباز اور پرویزالٰہی گروپ) 168-168 ارکان کی موجودگی کا کہہ رہے ہیں۔
تحریک انصاف کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن خواتیین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے ڈی سیٹ ہوئے اس کے پانچ ارکان کی جگہ نئے ارکان کے ناموں کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی تو ہمارے 173 ارکان ہوجائیں گے
لیکن وہ اس قانونی نکتے کو نظرانداز کررہے ہیں کہ یہ 5ارکان ان کی کل عددی تعداد کا حصہ ہے البتہ اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 225 کو بھی مدنظر رکھا جانا لازمی ہے یہ آرٹیکل نون لیگ کے حامی قانون دانوں کی رائے سے مختلف ہے ۔
اب جبکہ ان پانچ کے علاوہ پی ٹی آئی کے مزید 20 ارکان ڈی سیٹ ہوئے ہیں نون لیگ کے حامی کہہ رہے ہیں کہ” مخصوص نشستوں کی تقسیم کا حساب موجودہ عددی پوزیشن پر ہوگا یا پھر ضمنی انتخابات کے نتائج پر۔
اگر صرف یہی پانچ ارکان ڈی سیٹ ہوئے ہوتے تو یقیناً تحریک انصاف کا موقف درست ہوتا مخصوص نشستیں چونکہ حاصل کردہ نشستوں کی بنیاد پر تقسیم ہوتی ہیں اس لئے یہ معاملہ سیاسی جذبات سے زیادہ قانونی ہے”۔
دوسری بات یہ ہے کہ فی الوقت 4آزاد ارکان کی اصل اہمیت ہے (ن) لیگ کہہ رہی ہے کہ 4آزاد ارکان اس کے ساتھ ہیں۔ اب جس مرحلہ پر بھی وزیراعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوا دونوں گروپوں کے دعوئوں کی حقیقت سامنے آجائے گی۔
پنجاب کے سیاسی بحران میں جس اہم بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ ہے گورنر کا نہ ہونا ثانیاً سیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد۔
سپیکر چودھری پرویزالٰہی ایک منصوبے کے تحت ایوان کا اجلاس نہیں بلارہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجائے گی اس طرح انہیں جو سیاسی اہمیت حاصل ہے وہ ختم ہوسکتی ہے۔
صدر مملکت نے پی ٹی آئی کے گورنر کی برطرفی کے لئے وزیراعظم کی سمری ایک بار پھر مسترد کی انہیں دوبارہ بھیجی گئی مگر ایوان صدر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گورنر کی رخصتی (فراغت) کے لئے آئینی طریقہ کار پر عمل ہوا اور کیبنٹ ڈویژن نے فراغت نامہ جاری کردیا۔
اب صدر مملکت وزیراعظم کی طرف سے گورنر کے لئے بھجوائے گئے نام کی منظوری نہیں دے رہے۔ اصولی طور پر تو وہ اپنے دستوری فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے تماشا بنا ہوا ہے۔
بہرحال پنجاب میں وزیراعلیٰ کا دوبارہ انتخابات تو قانونی اور آئینی ضرورت ہے بعض امور پر فریقین نے عدالتوں سے بھی رجوع کررکھا ہے۔
کابینہ اس لئے نہیں بن رہی کہ حلف کے لئے گورنر نہیں ہے۔ پرویزالٰہی نے قائم مقام گورنر بننے سے انکار کردیا تھا وہ اس کی وجہ کچھ بھی کہیں اصل میں وہ اس بات سے خوفزدہ تھے کہ اگر انہوں نے گورنر آفس کا چارج سنبھال لیا تو اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر ان کےساتھ وہی کریں گے جو آج کل چودھری صاحب ڈپٹی سپیکر سے کررہے ہیں۔
حرف آخر یہی ہے کہ پنجاب کے سیاسی میدان میں مزید گرماگرمی دیکھنے میں آئے گی اور شیخ رشید کے دعوے کوڑے دان کا رزق بنتے رہیں گے۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author