مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کے کن کن وزرائے اعظم کو اپنے قتل کیے جانے کا خدشہ رہا؟||احمد اعجاز

جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک خبر شائع ہوئی کہ اعتراف کرنے والے شریک ملزموں میں سے ایک کی والدہ نے یہ انکشاف کیا کہ اُن کے بیٹے سے جان بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا۔
احمد اعجاز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے خلاف قتل کی سازش کی بات کر کے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ عمران خان نے اپنے قتل کی سازش سے قبل اپنی حکومت کا خاتمہ بھی ایک بیرونی و اندرونی سازش کو قرار دیا تھا۔

14 مئی کو سیالکوٹ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’میرے خلاف سازش ہو رہی ہے کہ عمران خان کی جان لے لی جائے، اس سازش کا مجھے علم تھا، میں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ ویڈیو پوری قوم کے سامنے آئے گی۔‘

اس کے بعد 15 مئی کو فیصل آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم نے عوام سے ایک وعدہ لیا کہ ’عوام وعدہ کریں اگر مجھے کچھ ہوا تو ویڈیو دیکھ کر انصاف دلائیں گے؟‘

پھر 16 مئی کو صوابی میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’کھانے میں زہر ملایا جائے تو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے۔‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم قتل بھی ہوئے اور متعدد مرتبہ قتل کی سازش کی آوازیں بھی اُٹھیں۔ یوں عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ اُن کے قتل کی سازش ہو رہی ہے تو اس بات پر یقین کرنے والوں کے پاس مضبوط تاریخی استدلال موجود ہوتا ہے۔

ہم یہاں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس پاکستانی وزیرِاعظم نے اپنے خلاف قتل کی سازش کی بات کہی اور کون سے وزرائے اعظم قتل ہوئے؟

جب پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم قتل ہوئے

لیاقت علی خان

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنلیاقت علی خان

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔

اس طرح پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنی طبعی عمر پوری نہ کر سکا اور قتل کر دیا گیا اور لیاقت علی خان کا قتل پُراسرار معمہ بن گیا۔

لیاقت علی خان کے قتل نے پاکستانی سیاست کا کئی لحاظ سے رُخ بدل کر رکھ دیا۔ اِن کے قتل سے ایک دروازہ تو یہ کھلا کہ پاکستان میں وزرائے اعظم قتل بھی ہو سکتے ہیں اور اُن کے خلاف قتل کی سازشیں بھی ممکن بنائی جا سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ لیاقت علی خان کے قتل سے سیاسی خلا بھی پیدا ہوا، یہ سیاسی خلا،سیاسی عدم استحکام کو جنم دینے کی وجہ بنا اور اس سیاسی خلا کو ملٹری و سول بیوروکریسی نے کامیاب طریقے سے پُر کرنے کی کوشش کی۔

لیاقت علی خان کے قتل پر ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا تھا جس کی سربراہی جسٹس محمد منیر نے کی تھی۔ اس کمیشن نے لگ بھگ نو ماہ بعد حتمی طور پر اپنی رپورٹ تیار کی تھی۔

اس رپورٹ کے مطابق ’لیاقت علی خان کے قاتل کا یہ انفرادی فعل نہیں ہو سکتا تھا، اس کے پیچھے کوئی سازش ہو سکتی ہے۔‘

حسین شہید سہروردی کی پُراسرار موت

حسین شہید سہروردی

،تصویر کا ذریعہNATIONAL PORTRAIT GALLERY

،تصویر کا کیپشنحسین شہید سہروردی کی موت بیروت کے ایک ہوٹل میں دسمبر 1963 میں ہوئی تھی

پاکستان کے پانچویں وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی تھے، جنھیں مختصر وقت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی مسند ملی۔ یہ ستمبر 1956 سے اکتوبر 1957 تک پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے۔

حسین شہید سہروردی کی موت بیروت کے ایک ہوٹل میں دسمبر 1963 میں ہوئی تھی۔ اُن کی موت کو سرکاری سطح پر ہارٹ اٹیک قرار دیا گیا مگر سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ بحث موجود رہی ہے کہ اُن کی موت طبعی نہیں بلکہ یہ بھی ایک مبینہ قتل تھی۔

اِن کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بھی اپنے والد کی موت کو ’قتل‘ قرار دیتی ہیں۔

حسین شہید سہروردی کی حیات سے متعلق بہت ساری اہم اور چونکا دینے والی معلومات کے لیے ’حسین شہید سہروردی: اے بائیوگرافی‘ میں بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ ’اُنھوں نے اپنی وکالت کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا مگر حکومت نے ایسی سازش کی کہ انھیں کراچی اور لاہور کی عدالتوں میں بطور وکیل رجسٹر نہ کیا گیا اور اُس وقت کے منٹگمری، آج کے ساہیوال میں وہ بطور وکیل رجسٹر ہوئیں۔‘

بھٹو کی پھانسی، عدالتی قتل قرار

ذوالفقار علی بھٹو

،تصویر کا ذریعہ گیٹی امیج

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی مگر اُس پھانسی کو آج بھی اکثریت پھانسی نہیں بلکہ قتل قرار دیتی ہے اور اُن کے قتل کو اندرونی و بیرونی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان بھی سابق وزیر اعظم بھٹو کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ اُن کے خلاف سازش کی گئی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش سے متعلق خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج وہی سازش ہو رہی ہے جو بھٹو کے خلاف ہوئی تھی۔‘

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں لکھا تھا کہ ’18 مارچ 1978 سے میں نے چوبیس گھنٹوں میں سے 22 یا 23 گھنٹے ایک حبس زَدہ، دم گھونٹنے والی موت کی کوٹھڑی میں بسر کیے ہیں۔ میں نے طویل موسم گرما کی حدت اور گرمی اور برسات میں اس کی گھٹن اور بدبو کو برداشت کیا، روشنی کا انتظام ناقص ہے۔ میری بینائی بدتر ہو چکی ہے۔ میری صحت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔‘

جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک خبر شائع ہوئی کہ اعتراف کرنے والے شریک ملزموں میں سے ایک کی والدہ نے یہ انکشاف کیا کہ اُن کے بیٹے سے جان بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

اس کہانی کی تصدیق جسے شائع نہیں ہونے دیا گیا، جنرل فیض چشتی کی یادداشتوں Betrayals of Another Kind مطبوعہ 1989 سے ہوتی ہے۔ جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں کہ ’جب 4 اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو اخبارات میں شور مچا کہ شریک ملزمان کو کیوں پھانسی نہیں دی گئی۔‘

’جنرل ضیا پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کریں۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور کور کمانڈرز کی ایک میٹنگ میں جنرل سوار خان (گورنر پنجاب) نے جنرل ضیا سے فیصلہ کے بارے میں پوچھا۔ جنرل ضیا نے کہا چونکہ کوئی چارہ کار نہیں رہا، اس لیے پھانسی دی جائے گی۔‘

’میں نے جنرل ضیا کو وعدہ یاد دلایا جو اُنھوں نے چاروں ملزموں سے کیا تھا کہ انھیں کچھ نہیں ہو گا لیکن انھوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا۔ اعتراف کرنے والے ملزمان عدالت میں حاضر ہوئے تو وہ بالکل فٹ اور خوش و خرم نظر آئے، وہ اُن آدمیوں کی طرح دکھائی نہیں دیتے تھے جو موت کی کوٹھڑیوں سے لائے جاتے ہیں۔‘

کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اگر بھٹو صاحب کی اپیل سپریم کورٹ میں منظور ہو بھی جاتی تو بھی انھیں آزاد نہ کیا جاتا۔ ‘

’پانچ فروری 1979 کو دس بجے صبح مجھے ایس ایم ایل اے کے ساتھ ڈی ایم ایل اے کے دفتر بلایا گیا جہاں ہمیں بتایا گیا کہ شاید کل مورخہ چھ فروری کو سپریم کورٹ، بھٹو صاحب کی اپیل منظور کرنے کے بعد حکم جاری کرے کہ اُن کو آزاد کر دیا جائے مگر ایسے حکم کے باوجود بھی ان کو جیل سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا اور مارشل لا کے تحت کئی اور مقدمات میں مطلوب ہیں، جن کے تحت ان پر الگ مقدمہ چلایا جائے گا۔‘

’مجھے صاف صاف بتایا گیا کہ اگر سپریم کورٹ بھٹو صاحب کے لیے آزادی کا حکم بھی صادر کردے کہ انھیں جیل سے نکال دیا جائے تو بھی انھیں جیل سے باہر ہرگز نہیں جانے دیا جائے گا۔‘

بے نظیر بھٹو جنھوں نے اپنے قتل کا اندیشہ ظاہر کیا تھا

بے نظیر بھٹو

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنجس میدان میں لیاقت علی کا قتل ہوا تھا، اسی میدان میں کئی دہائیوں بعد بے نظیر بھٹو بھی ماری گئیں

27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو راولپنڈی میں قتل ہوئی تھیں۔ سنہ 1997 کے انتخابات کے بعد اپنی جلا وطنی ختم کر کے بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو وطن لوٹیں تھیں۔

کراچی میں لوگوں کی کثیر تعداد نے اُنھیں ’ویلکم‘ کہا مگر اس موقع پر کارساز میں ہونے والے بم دھماکوں سے کئی افراد موقع پر ہی دَم توڑ گئے۔

بے نظیر بھٹو کی آمد پر بم دھماکوں کا ہونا، اس بات کا ثبوت تھا کہ حالات اِن کے لیے ہرگز ٹھیک نہیں۔

بے نظیر بھٹو اس سے قبل اپنے قتل کا شبہ ظاہر کر چکی تھیں اور اپنے قاتلوں کے ناموں کا ذکر بھی کر چکی تھیں لیکن پھر بھی اپنے قتل کا شبہ ظاہر کرنے والے خاتون وزیرِ اعظم آخرِ کار راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خودکش حملے میں قتل کر دی گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

یہ بھی پڑھیے:

بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

یہی خزاں کے دِن۔۔۔احمد اعجاز

احمد اعجاز کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: