نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راۂ فرار||شبیر حسین امام

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سالنامہ میں جن چند واقعات کو بطور خاص اُور بطور مثال ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اُن میں ناظم جوکھیو اور سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کا قتل ہے۔

شبیر حسین امام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

وقت ہے کہ اُن انسانی حقوق کی جانب متوجہ ہوا جائے‘ جن کے بغیر معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ اُور ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اِنسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے تیسواں سالانہ جائزہ جاری کیا ہے جس میں انسانی حقوق کی صورتحال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کمی بیشی سے متعلق حکومتی اقدامات اُور کوششوں کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔ ہر رپورٹ کی طرح یہ بھی اہم ہے جس میں سب سے زیادہ زور آزادیئ اظہار اُور اختلاف رائے رکھنے کی ضرورت پر دیا گیا ہے اُور کم از کم 9 صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کھلم کھلا اور بے دریغ ریاستی کوششیں کی مذمت کی ہے۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ہر سال کمی بیشی کے ساتھ یہ واقعات منظرعام پر آتے ہیں اُور سال کے ساتھ انہیں فراموش بھی کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کی جملہ صورتیں قابل تشویش ہیں جو عصمت دری سے لے کر گھریلو بدسلوکی تک پھیلی ہوئی ہیں اُور اِنہی کے نتیجے میں قتل اُور بالخصوص غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران پاکستان میں غیرت کے نام پر 478 قتل ہوئے۔ یہ قطعی طور پر معمولی عدد نہیں جسے پڑھ کر یا سن کر فراموش کر دیا جائے۔ پاکستان سے متعلق اِس قسم کے اعدادوشمار سے ملکی ساکھ متاثر ہوتی ہے اُور چونکہ اِس ساکھ کے ساتھ ’اسلامی‘ اُور ’جمہوری‘ ہونے کے صیغے بھی جڑے ہوئے ہیں اِس لئے تنقید کرنے والے جن پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں وہ پاکستان میں برداشت اُور رواداری کے علاؤہ انسانیت کے احترام کا فقدان بھی ظاہر کرتے ہیں! ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹیں جھوٹ نہیں ہو سکتیں جن سے یہ لمحہئ فکریہ اخذ ہوا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران پاکستان میں عصمت دری کے کم از کم پانچ ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر قسم کے تشدد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سالنامہ میں جن چند واقعات کو بطور خاص اُور بطور مثال ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے اُن میں ناظم جوکھیو اور سیالکوٹ میں سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کا قتل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ نومبر 2021ء میں ناظم جوکھیو نامی شخص نے غیرقانونی شکار کرنے والوں کی موبائل فون سے ویڈیو بنائی اُور اُسے سوشل میڈیا پر جاری کر دیا۔ اِس کے بعد اُسے اغوأ کر لیا گیا اُور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر سیاسی خاندان کے فارم ہاؤس سے اُس تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی لیکن تاحال قتل کے اِس مقدمے میں معلوم شواہد کے باوجود بھی انصاف نہیں ہو سکا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی عوام اُور خواص کے لئے الگ الگ ہے۔ اِسی طرح ’3 دسمبر 2021ء‘ کے روز 49 سالہ پریانتھا کمار نامی سری لنکن باشندے کو سیالکوٹ میں ہجوم نے زدوکوب کر کے قتل کیا اُور یہاں بھی ملزمان تو نامزد ہوئے لیکن سزائیں نہیں ہوئیں جن سے جرائم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی۔ اِس قسم کے واقعات ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کی پریشان کن صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل ہوئی ایک اُور تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ زیادہ تر جرائم میں نوجوان ملوث ہوتے ہیں‘ جو بیروزگاری اُور معاشی بے یقینی سے پیدا ہونے والی نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار ہوتے ہیں۔ قابل افسوس ہے کہ گزشتہ چند برس سے پاکستانی معاشرہ تیزی سے پرتشدد ہوتا جا رہا ہے اُور یہ کسی ڈراؤنے خواب جیسی حقیقت ہے جو معاشرے میں رائج انتہا پسندانہ رجحانات کا براہ راست نتیجہ ہے اُور اِس کے لئے ریاستی حکمت عملیاں ہی ذمہ دار ہیں‘ جو تشدد کا باعث بننے والے اُن معلوم محرکات کی جانب متوجہ نہیں ہیں‘ جن کی نشاندہی ملکی و غیرملکی ماہرین وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ میں اِس بات پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں قوانین سازی کے لئے پارلیمان میں بحث و مباحثہ اُور اجتماعی دانش سے کام لینے کی بجائے صدراتی آرڈیننس جاری کرنے جیسے ’راہئ فرار‘ کا انتخاب کیا گیا جس کے نشانے پر آزادیئ اظہار بھی رہی اُور تحریک انصاف کا دور حکومت شخصی و اجتماعی رائے کی آزادی کے لحاظ سے انتہائی نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ نے مذہبی انتہاپسندی بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ علاؤہ ازیں پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق اعدادوشمار مرتب کرنے اُور اِنسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کوششیں کرنے والے کارکنوں کو گزشتہ کئی برس سے درپیش سب سے بڑی مشکل ’لاپتہ افراد‘ کی صورت درپیش ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ سال دوہزاراکیس کے دوران سب سے زیادہ لاپتہ افراد کی اطلاعات بلوچستان سے موصول ہوئیں اُور اِن لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا دینے کے باوجود بھی حکومت اِن کے خدشات و مشکلات حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ لاپتہ افراد سے لے کر گجر اور کورنگی نالے سے بے دخلی‘ فرقہ وارانہ تشدد اُور ٹرانسجینڈر افراد کے خلاف تشدد کے واقعات پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر دھبہ ہیں‘ جنہیں صاف کرنے کے لئے ریاست اُور ریاستی اداروں کو خاطرخواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ اب یہ بات شہباز شریف کی قیادت والی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کس قدر اقدامات کرتے ہیں جبکہ ماضی میں وہ اِنسانی حقوق کی مذکورہ اُور دیگر خلاف ورزیوں پر خود بھی تنقید کرتے رہے ہیں۔ بہرصورت ضرورت ہے کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی برقرار رکھی جائے۔

صحافت کی آزادی سے جمہوریت کی مضبوطی ممکن ہے اُور کسی بھی صورت اگر صحافیوں کو اپنا کام کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے تو اِس سے پاکستان کی مثبت ساکھ اُبھر کر سامنے نہیں آئے گی۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی بھی صورت معمولی نہیں اُور نہ ہی اِنہیں معمولی سمجھنے جیسی غلطی کرنی چاہئے۔

ہیومن رائٹس کمیشن کی سالانہ رپورٹ کو نظرانداز کرنے سے بہتری نہیں بلکہ خرابی پیدا ہوگی اُور اگر مذکورہ رپورٹ میں درج تجاویز پر حکومت عمل درآمد کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے تو اِس سے بہت سی خرابیاں و ناکامیاں دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اُمید ہے کہ ناکامیوں سے کام لینے کی بجائے انسانی جان و حرمت اُور انسانی حقوق کی اہمیت کا ادراک کیا جائے گا اُور ملک کی تمام برادریوں اور علاقوں کے تمام شہری جس ناانصافی اور ریاستی یا غیر ریاستی تشدد کا شکار ہیں اُنہیں تحفظ فراہم کرنے میں حکومت اُور حکومتی ادارے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

شبیر حسین امام کی مزید تحریریں پڑھیے

(شبیر حسین امام سینئر صحافی ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author