مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چولستان میں پانی کی قلت||ظہور دھریجہ

چولستان میں اموات بارے بھی حکومت کو اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہئیں اور اس بارے علامیہ بھی جاری کرنا چاہئے اور جہاں صورتحال خطرناک ہو چکی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ آفت زدہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کیلئے حکومت اقدامات کرے۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چولستان کو پیاس و افلاس کا صحرا کہا جاتا ہے ۔ پانی کی قلت کے باعث چولستان میں موت رقص کر رہی ہے۔ چولستان کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں جانور پیاس سے مر گئے ہیں۔ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کے ضیاع کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس بارے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کیساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی خاموشی قابل افسوس ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ چولستان میں پانی کی قلت نئی بات نہیں ہے ، پہلے یہ ہوتا تھا کہ بارش نہ ہونے سے روہی کے ٹوبے خشک ہوتے تھے تو پائپوں کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا تھا اور چولستان کے آباد علاقوں کی نہریں چلا دی جاتی تھیں۔ اس مرتبہ ٹوبے خشک ہونے کے ساتھ ساتھ نہریں بھی خشک ہیں حالانکہ آج کے دور میں پانی مہیا کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اب بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ پائپ لائنوں کے ذریعے ٹوبوں میں پانی بھیجا جائے اور بلا تاخیر چولستان کی نہریں چلا دی جائیں تاکہ انسان اور جانور اپنی پیاس بجھا سکیں۔
چولستان میں اموات بارے بھی حکومت کو اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہئیں اور اس بارے علامیہ بھی جاری کرنا چاہئے اور جہاں صورتحال خطرناک ہو چکی ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ آفت زدہ علاقوں سے لوگوں کو نکالنے کیلئے حکومت اقدامات کرے۔ چولستان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے طالبعلموں کو چولستان کے بارے میں بتانا ضروری ہے کہ چولستان بلاشبہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ تاریخی کتابوں حتیٰ کہ بر صغیر کی قدیم کتاب ’’ رگ وید ‘‘ میں بھی چولستان کے دریاؤں کا ذکر موجود ہے ۔
آج کا یہ صحرا پہلے دریا تھا اور موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے درمیان وادی ہاکڑہ کی شکل میں یہ خطہ ہنستے بستے شہروں اور لہلہاتے کھیتوں پر مشتمل تھا ۔ معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر رفیق مغل نے اپنی تحقیقات میں چولستان میں 13سو شہروں اور بستیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ مگر افسوس کہ چولستان پر کی جانیوالی تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا گیا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ چولستان کے حسن کو برباد کرنے کیلئے اور وہاں کے پرندوں اور جانوروں کو قتل کرنے کیلئے لائسنس اور پرمٹ دیئے گئے مگر چولستان کی بہتری اور ترقی کیلئے کوئی بھی قدم نہ اٹھایا گیا ۔ پاکستان کے حصے میں چولستان ہے اور اس سے ملحقہ صحرا راجستھان ہے جو بھارت کے پاس ہے ۔
بھارت نے راجستھان میں ایک بہت بڑی اندرا گاندھی نہر نکال کر اسے سر سبز اور شاداب بنا دیا ہے ، چولستان میں آج بھی لوگ پیاس سے مر جاتے ہیں ۔ ایک ستم یہ بھی دیکھئے کہ صحرا میں جانور پانی کی خوشبو پر سفر کرتے ہیں ، چولستان کے جانوروں کو راجستھان کی طرف پانی کی خوشبو آتی ہے ، وہ پیاس کی شدت سے وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور آگے خار دار تاروں سے ٹکرا کر لہو لہان ہوتے ہیں اور وہیں پر مر جاتے ہیں ۔ ان جانوروں کو کون بتائے کہ باڑ کی دوسری طرف دشمن ملک بھارت کی حدود شروع ہوتی ہیں ۔ چولستان دنیا کے بڑے صحراؤں میں شمار ہوتا ہے ، یہ صحرا ہزاروں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ۔
محققین بتاتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ دریاؤں کا علاقہ تھا ، دریائے گھاگھرا، دریائے ہاکڑہ ، سرسوتی مختلف نام آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی شادابی اور زرخیزی کی بناء پر حملہ آور اس علاقے آتے رہے ۔ سکندر آعظم کے یہاں آنے اور خونریزی کرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ چولستان کی ریت میں بہت راز ہیں ، چولستان کے لوگ بہت سادہ اور دلنواز ہیں ، وہ اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور وسیب سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کی کوئی بھی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی وہ صدیوں سے چولستان سے وابستہ ہیں اور وہ ایک پل کیلئے بھی اسے چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ نسل در نسل ایک آس پر زندگی گزار رہے ہیں ، چولستان کے جس باشندے سے آپ پوچھیں ، وہ کہے گا کہ ’’ ہاکڑہ ول واہسی ‘‘ یعنی دریائے ہاکڑہ ایک بار پھر آئے گا اور ہم صحرا سے دریا میں تبدیل ہو جائیں گے ۔
چولستان کے گمشدہ دریا کا قصہ ہر زبان پر ہے ۔ چولستان میں خوبصورت تہذیب کے عظیم ترین خزانے دفن ہیں ۔ مدفون خزانوں میں تہذیبی آثار اور ثقافتی علامات تو نظر آئی ہیں مگر ہتھیار نہیں ملے ۔ ابو عبداللہ محمد المعروف ابن بطوطہنے دنیا کے بیشتر علاقوں کی سیاحت کی ، وہ سیاحت کے سلسلے میں اوچ بھی آیا ، جس میں انہوں نے اس شہر کو علم کا مرکز قرار دیا ۔ اوچ چولستان کے ملحقہ علاقے میں تھا اور یہ سب سلطنت ملتان کا حصہ تھا ۔معروف تاریخ دان پروفیسر جاوید عثمان شامی اپنی کتاب ’’ چولستان کی تاریخ و ثقافت ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ محمود غزنوی نے 1000 ء سے 1036ء تک ہندوستان پر سترہ حملے کئے ، ان حملوں کا مقصد لوٹ مار اور مال غنیمت سمیٹنا تھا ۔ ‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ ان کے حملوں سے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کو شدید نقصان پہنچا اور بہت سی چھوٹی چھوٹی خودمختار مسلم ریاستیں بھی لوٹ مار کی زد میں آئیں اور کہا جاتا ہے کہ غزنی ان دنوں دنیا کی امیر ترین ریاست بن گئی تھی کہ وہاں بہت زیادہ لوٹ مار کا مال جمع ہوا ۔
محمود غزنوی نے اوچ اور چولستان پر بھی حملہ کیا ، یہ علاقے اس وقت ریاست ملتان کا حصہ تھے اور محمود غزنوی نے ملتان میں ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی ۔ ‘‘ چولستان پاکستان کا عظیم صحرا ہے۔ امن اور محبت کی سرزمین ہے۔ خواجہ فرید نے اس سے بہت محبت کی ہے۔ خواجہ فرید نے چولستان کے انسانوں کیساتھ چولستان کے جانوروں کو بھی دعائیں دی ہیں۔ چولستان کے پرندوں کو دعا دی ہے۔ خواجہ فرید کی شاعری ان دعاوں سے بھری ہوئی ہے۔ چولستان میں پرندے پناہ کیلئے آتے ہیں مگر شکاری ان کو قتل کر دیتے ہیں۔ عرب شیوخ نے چولستان کو شکار گاہ بنا دیا ہے۔
آج چولستان میں پانی کی قلت ہے۔ انسان اور حیوان مر رہے ہیں۔ کسی عرب شہزادے نے تعزیت تک کرنا گوارہ نہیں کی۔ اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ چولستان کے پرندے، تلور، باز، مرغابی، اونٹ کو مارنے کیلئے تو وہ آجاتے ہیں انسانی زندگی کیلئے اُن کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ چولستان سے ملحقہ راجستھان میں پانی مہیا کر دیا گیا ہے۔ بھارت کی حکومت نے اندرا گاندھی نہر بنا دی ہے۔ چولستان کے جانور شدت پیاس سے تڑپ کر راجستھان کی طرف جاتے ہیں اور پانی کیلئے دوسری طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں اور خار دار تاروں سے زخمی ہو کر مر جاتے ہیں۔ جانوروں کو کون بتائے کہ دشمن ملک کی طرف نہ جائیں۔ کیا حکمران ان حساس مسائل پر کبھی غور کریں گے؟

 

 

۔

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: