رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملتان سے لاڑکانہ کے سفر کا تجربہ ہمیشہ transcendental experiencing کا طلسم بن جاتا ہے ۔ اس بار لاہور سے چلے تو ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی ہمسفری سے راستہ روشن اور دل شاد اور آباد ہو گیا ۔ ملتان سے ڈاکٹر ممتاز خان کلیانی ہمارے مختصر قافلے کا حصہ بنے اور لاڑکانہ تک ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ہم نے اتفاق_ رائے سے ان کو میر_ کارواں منتخب کیا۔ انھوں نے سنگیت سے سفر کے بیراگ کو راگ بنا دیا ۔ عابدہ پروین کی آواز میں سچل سرمست کی سرائیکی کافی جیسے بھٹ شاہ میں دھمال دیکھنے اور شاہ کے راگیوں کو سننے کا الاپ بن گئی تھی۔شاہ لطیف نے سچل سرمست کے بارے میں کہا تھا کہ جو دیگ میں نے پکائی ہے اس کا ڈھکنا سچل کھولے گا۔ سچل کی کافی نے ہمارے لئے سندھ کے جوگ کے نئے در کھول دئیے تھے:
پنی ہاں پنارے تیڈے، لگی ہاں لارے تیڈے
جوگی نال جاونڑاں ، ول نہیں آونڑاں
لاڑکانہ پہنچتے ہی ڈاکٹر شہناز شورو کی میزبانی اور رہنمائی سیاروں کی خوش بختی کا ستارہ بن گئی ۔ لاڑکانہ تاریخ و تہذیب کا گہوارہ ہے۔ اس بستی میں دراوڑں ، آریاؤں، ہندوؤں ، گوتم کے بدھوں ، مسلمان مشاہیر ، آدم شاہ کلہوڑا اور شاہ بہارو سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مہک بسی ہوئی ہے۔ پرانا لاڑکانہ "بھٹو کی کھہی” یعنی بھٹو کا کنواں اور چانڈکا پرگنہ ہے ۔ لاڑکوں کی آمد کے بعد یہ نگر لاڑکانہ ہوا ۔ لاڑک ، لاڑ کے وہ ملاح ہیں جو ٹھٹھہ اور لاری بندر کے زوال اور فرنگیوں کی آمد کے دوران یہاں آباد ہوئے۔ لاڑکانہ میں گھارو نہر کی بندرگاہ اور سکھر کے مضافات میں لاڑک اور لاکھانی آن بسے ۔ لاڑک اور لاکھانی، مور اور میربحر، ملوہہ کے ملاح ہیں ۔ لاڑ کے ملاح لاڑکانہ کی وجہ تسمیہ ہیں ! شہر کی بندر روڈ پر عباسی آئس کریم والے خادم حیسن مشوری سے رات کے ایک بجے لاڑکانہ کا مشہور فالودہ کھانے گئے تو قدیم سندھی مور اور ملاح ساتھ تھے۔ چندر گپتا موریہ آس پاس تھا۔ مہذب آدمی کا رچاؤ غلام حسین مشوری کی شخصیت میں تھا۔ اس نے فالودے کی اضافی "سیویوں” کا بڑا سا باول سامنے رکھ دیا تھا !
سولہویں صدی کے آدم شاہ کلہوڑا کو عبدالرحیم خان خاناں نے چانڈکا پرگنہ دیا ہے ۔ آدم شاہ ایک فقیر منش آدمی ہیں ۔ سکھر میں ان کے مرقد کو آدم شاہ کی ٹکڑی کہتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پرتگیزی اور دوسرے سفید یورپی انڈیا آئے اور بحری راستوں پر یورپی سوداگروں کا قبضہ ہو رہا ہے ۔ شاہل محمد کلہوڑا نے گھارو کی آبی گزر گاہ کی توسیع کرائی ۔ دوسری طرف ٹھٹھہ میں ارغون اور ترخان جنگ کرتے ہیں ۔ ارغون ترخان کشمکش کے دوران پرتگیزیوں کو عیسی خاں ترخان نے مدد کے لئے بلایا ۔ سات سو پرتگیزی سپاہی اور تیس بحری جہاز مدد کو پہنچے تو ترخانوں کو اپنے ہم نسل ارغونوں پر برتری مل چکی ہے ۔ Pero Baretto Rolim ان فرنگیوں کا کماندار ہے ۔ کرائے کے قاتلوں کو مناسب معاوضہ نہ ملا تو انھوں نے 1556 میں شہر کو لوٹا اور آگ لگا دی۔ مقامی سپاہ اور بدیسی پرتگیزیوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ۔ آٹھ ہزار مقامی مارے گئے ۔ روایت ہے کہ اس لوٹ مار سے فاتح ڈاکوؤں کو ایشیاء میں سب سے زیادہ دولت ہاتھ آئی ۔ ٹھٹھہ پھر بھی آباد ہوا مگر مقامی ملاح اور سندھ کی تجارتی طاقت رو بہ زوال رہی ۔پرالی دریا بھی بندر کو مٹی سے بھرنے لگا ۔ ایسے میں لاڑ کے ملاح اتر سندھ میں پرانی اور نئی بھاگ وند بستیوں میں آباد ہو رہے تھے ۔
1757 میں برطانوی سوداگروں نے سنہری بنگال پر قبضہ کیا ۔ شاہ لطیف نے 1752 میں وفات پائی۔ بھٹ کا سید مقامی تاریخ، روایت اور سماجی جدلیات کا مکمل درک رکھنے والا گیانی ہے ۔ انھوں نے ” سر سریراگ” میں اپنے گیان کو زبان دی ہے ۔ فرنگی یورش کا مکمل ادراک اور مقامی ملاحوں اور تاجروں کی بپتا ان کے کلام میں رد استعمار بیانیہ بن گئی ہے ۔ ایک صوفی سندھی زبان میں مقامی ملاحوں اور ناخداوں کو فرنگی یورش_ دزدانہ سے خبر دار کرتا ہے :
ہمارے ناخداوں کو ہوا کیا
بدل کر بھیس آئے ہیں فرنگی
بتاؤ ہے کوئی ملاح ایسا
کہ روکے یورش_ دزدانہ ان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے کچھ فکر سامان_سفر ہے
کہ تیری ناو کے ہر سو بھنور ہے
تجھے لازم ہے ترک_ خواب_غفلت
تمنا پار اترنے کی اگر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبردار اے بہادر ناخداوں
کہ پھر طوفاں کی زد میں ہے بندر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالب نے فرنگی استعمار کے مظالم دیکھے اور دلی کی بربادی پر ” دستنبو ” جیسی دستاویز لکھی جس میں عربی لفظ برتنے سے اجتناب ہے ۔مگر غالب اپنے خاندانی، اشرافی پس منظر ، رو بہ زوال دلی اور فرنگ کی کلیسائی تہذیب کے درمیان گھرا ہوا ہے ۔ جدت پسند نابغہ روایت اور استعماریت کی دوئی سے دو نیم ہے :
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
علامہ اقبال نے سامراج سے سر کا خطاب لیا اور کنگ جارج پنجم کی شان میں پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے قصیدہ لکھا :
"جب تک چمن کی جلوہ گل پر اساس ہے
جب تک فروغ لالہ احمر لباس ہے
جب تک نسیم صبح عنادل کو راس ہے
جب تک کلی کو قطرہ شبنم کی پیاس ہے
قائم رہے حکومت آئین اسی طرح
دبتا رہے چکور سے شاہیں اسی طرح”
غالب اور اقبال بڑے شاعر ہیں اور ان کے بغیر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی مشترکہ زبان اردو کی تاریخ نا مکمل ہے ۔ مگر غالب اور اقبال سے بہت پہلے سندھ کا صوفی شاعر ، شاہ لطیف بھٹائی سامراجی خطرے کو بھانپ کر اس سے بچنے کی راہ بتا رہا ہے ۔ یہ مقامیت اور مقامی دانش سے جڑنے کا معجزہ ہے۔ لطیف نہ صرف خطرے سے خبردار کر رہا ہے بلکہ یورش_ فرنگ سے متاثر ملاحوں کو خواب_ غفلت سے بیداری کا مشورہ دے رہا ہے ۔ لطیف، جذبہ تخلیق سے مقامی آدمی کے potential کو عیاں کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔ کاسموپوپولیٹن دلی اور لاہور کی مصلحت کوشی سامراجی عہد کا جبر ہو سکتا ہے مگر بھٹ کے لطیف کی مقامی دانش ادبی سماجیات کے محققین کے لئے تحقیق کے نئے در کھولتی ہے :
خوئے تسلیم و جذبہ تحقیق
ساتھ لے اور پھر عیاں ہو جا!
"رسالہ شاہ عبدالطیف ” ، سر سریراگ:
مترجم ، شیخ ایاز
لاڑکانہ، لطیف کا ہم عمر شہر ہے۔ لاڑکانہ شہر میں ایک لاہوری محلہ آباد ہے۔ لاہوری محلہ کے نواب کلب _ حسین نے بتایا کہ ان کے بزرگ کوئی تین سو سال پہلے جب کمالیہ سے یہاں آ کر آباد ہوئے تو یہ جگہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ وہ راجپوت کھرل قبیلہ سے ہیں ۔ ڈی سی ہاؤس سمیت بہت سی جگہیں ان کے پرکھوں نے عطیہ کے طور پر دی ہیں۔ کمالیہ اور لاہور کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے مقامی لوگوں نے انھیں کمالوی کی بجائے لاہوری کہنا شروع کیا اور اب پورا محلہ لاہوری کہلاتا ہے !! لاڑکانہ کو راج رانو یعنی شہروں کا بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ آج کے راج رانو میں Love at First Bite نام کا ایک ریستوران ہے جو love at first sight سے ترقی پسندانہ انحراف ہے ۔ رات گئے وہاں گاہکوں کا ہجوم لگا پڑا ہے ۔ شہر کے بارے میں ایک محاورہ یہ کہ "ہجی ناٹو تے گھم لاڑکانو” یعنی اگر پیسہ ہے تو لاڑکانہ گھوم آو۔ لاڑکانو ساہ سیبانو ہے یعنی لاڑکانہ دل کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ لاڑکانہ کو باغوں کا شہر ہونے کے ناطے گلستان_ سندھ کہا جاتا ہے ۔
باغوں کے شہر میں ہماری پہلی منزل ایک لائبریری ہے جہاں ہزاروں بچے کتابوں پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں ۔ شاہ نواز بھٹو لائبریری، کتابوں کا ایسا نادر باغ ہے جس میں بچوں کے چہروں کے پھول کھلے ہیں اور کتابوں کے ابواب کھلے ہیں! بہت سے بچے سی ایس ایس اور صوبائی سروس کے امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ دنیا کی ایسی حیران کن لائبریری ہے جس میں کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کتابوں سے زیادہ لگتی ہے۔ لوئیس بورخیس کائنات کو ایک بڑی لائبریری کہتے ہیں جس میں ہر کتاب کے 410 صفحے ہیں اور 22 حروف ابجد میں تمام امکانات ہیں۔ لائبریری کے امکانات لامحدود، حقیقی، مخفی ، پراسرار اور پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ مادے کی کائنات کے لامحدود اور پراسرار امکانات کی طرح یہ probability of the impossible کی دنیا ہے جہاں لفظوں کے بے شمار مکان اور معنی کے لا محدود کائنات آباد ہے ۔لاڑکانہ کی شاہنواز بھٹو لائبریری ایک ایسی کائنات ہے جہاں روزانہ چار ہزار کے قریب طلبہ و طالبات دس ائیر کنڈیشنڈ ہالز میں کتابیں پڑھنے آتے ہیں۔ ایک وسیع عمارت میں گلستان_ سندھ مہکتا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ لائبریری 1976 میں اپنے بابا کے نام پر بنوائی اور ان کے بعد محمد ہاشم میمن نے اس میں رنگ بھرے ! اس لائبریری نے لاڑکانہ میں کتاب کلچر کی روایت کو مضبوط تر کیا ہے۔ ہمارے دوست ادل سومرو کہتے ہیں کہ سندھ میں حیدر آباد کے بعد سب سے زیادہ کتابیں لاڑکانہ میں پڑھی جاتی ہیں۔ لاڑکانہ کی لائبریری مقامی لوگوں کے لئے امکانات کے لحاظ سے "بابل کی لائبریری” ہے جو موئن جو دڑو کے ایک بیٹے نے اپنے بابل کے نام پر لاڑکانہ کے بچوں کے لئے بنوائی ہے !
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر