دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دکھاوے کی عزت اور خودپرستی||حیدر جاوید سید

اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا شاہ جی اب دانشوروں کی طرح اعدادوشمار نہ سمجھانے لگ جانا۔ میں مارکیٹ میں بیٹھتا ہوں آنکھیں اور کان کھلے رہتے ہیں ہر خاص و عام نفسانفسی اور خودپرستی کا شکار ہے کیا ضرورت ہے قرضہ لے کر عید کی شاپنگ کرنے کی۔ نہ کی تو کیا قیامت آجائے گی۔ بالکل نہیں آئے گی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجئے، عیدالفطر بھی گزرگئی، کاروباری دوستوں کا کہنا ہے کہ عید ماٹھی رہی۔ وجہ پوچھی تو ایک دوست شیخ خادم حسین بولے، شاہ جی "لوگوں کی قوت خرید دم توڑ چکی ہے”۔ پاس بیٹھے ہوئے راحت مسعود بولے، شیخ منافع کم کیوں نہیں کرتے۔ شیخ نے تحمل سے کہا

’’کردیتے ہیں منافع کم بس تم اپنی گاڑی میں دوپہر اور شام کا کھانا داتا صاحب سے لے کر میرے گھر پہنچادیا کرو‘‘۔

راحت مسعود نے حیرانی سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولے ’’شہزادیا، تھوک کا کاروبار کرنے والوں کے منافع کا مارجن پرچون فروش کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے پھر بھی بعض اخراجات دونوں کے برابر ہی ہوتے ہیں۔ بجلی کی قیمت کیا ہے دکان کا کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں۔

لیکن یار شیخ دکان تو تمہاری اپنی ہے۔ فقیر راحموں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، شیخ نے تڑخ کر جواب دیا وہ تمہاری بھرجائی کے نام ہے دکان ہر ماہ کی سات تاریخ کو گردن پر چھری رکھ کر کرایہ وصول کرتی ہے۔

اب میں نے شیخ کی گردن کی طرف دیکھا تو مجھے بوڑھاپے کی جھریاں بھی چھریوں کی لکیریں دیکھائی دینے لگیں۔ سات تاریخ کو کرایہ ادا کرنے بلکہ وصول کرنے کا جو منظر شیخ نے کھینچا تھا اس سے ایسا لگا کہ شیخ اس دنیا کا واحد مظلوم خاوند ہے جو بیگم کی دکان میں کرایہ دار ہے۔

راحت مسعود بولے شاہ جی اس کی باتوں میں بالکل نہ آنا یہ پنڈی والے شیخ کی طرح چرب زبان ہے۔ شیخ نے احتجاج کیا، کہنے لگا یار کہاں ملادیا ہم اصلی شیخ ہیں۔ 9پشتوں سے شاہ عالمی مارکیٹ میں کاروبار کررہے ہیں۔ وہ تو شیخوں میں بھرتی ہوا ہے۔ میرے ابا جی نے ایک بار بتایا تھا۔

قبل اس کے کہ شیخ پنڈی والے شیخ کا شجرہ کھولتا میں نے راحت مسعود نے کہا یار تم کچھ کہہ رہے تھے۔ وہ بولے شاہ جی اس نے دکان بھابی کے نام کراکے کرایہ داری کے کاغذات میرے ابا جی سے بنوائے تھے۔ تب ابا جی نے پوچھا

’’خادم پتر ایدی کی لوڑ پے گئی سی؟‘‘ اس نے جواب دیا چاچا جی آمدنی کے ذرائع بڑھانے چاہیں ، اب فکر لگی رہے گی کہ ہرماہ دکان کا کرایہ بھی دینا ہے ،

اس پر شیخ خادم حسین بولے

"جا اوئے وکیل دیا پترا تیرا ککھ نہ رہے خاندانی راز اس کھجل خوار اخبار نویس نوں دس دتا او۔ ہن اے کالم لکھے ای لکھے۔ تے میری بیگم نے پڑھ لیا نا قیامت آوے ای آوے ساڈے گھر”۔

قیامت کا میرے کالم سے کیا تعلق ؟ میں نے دریافت کیا ۔ شیخ بولے "میری بیگم کہتی ہے کہ اس شاہ نے ساری عمر کمائی کا کوئی طریقہ سیکھا نہ کمانے والے دوستوں کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے”۔

 

بات یہاں تک پہنچی تھی کہ بیگم خادم حسین ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے بولیں شاہ جی روٹی کھاکے جایا جے۔ شیخ کہنے لگا،

” توں روٹی دا نہ پچھ، اے پچھ کے ہن ہونا کی وے” بھابی کے دریافت کرنے پر شیخ نے پوری تفصیل بتائی۔ تب میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، بھابی یہ کہہ رہا تھا ’’شاہ نے خود تو کمائی کی نہ طریقے سیکھے اور کمائی کرنے والے دوستوں کو دیکھ کے خوش بھی نہیں ہوتا‘‘۔

توبہ توبہ شیخ جی اینا چھوٹ۔ میں نے تو یہ کہا تھا شاہ جی کو صحافت کرنے کی بجائے اپنی اماں ہوراں آلی کار مریدوں کو دم درود کرنے کے علاوہ تعویز دینے چاہئیں تھے۔ بات تھوڑی دیر کے لئے ہماری والدہ مرحومہ کی طرف مڑ گئی۔

خادم شیخ کی اہلیہ کا تعلق دہلی گیٹ ملتان کے پنجابی شیخوں میں سے ہے۔ ان کی (بھابی کی) والدہ حجیانی شیخ کے نام سے معروف تھیں۔ امی حضور کی خاص عقیدت مند ہفتہ میں دو تین بار باقاعدگی سے ملنے آتیں۔ بہت محبت مروت اور اخلاص والی خاتون تھیں حق تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

مجھے یاد ہے کہ خادم حسین جب ملتان سے دلہن لے کر واپس لاہور آیا یہ 1994ء کی بات ہے میری والدہ نے مجھے ٹیلی فون پر پتہ سمجھاتے ہوئے ہدایت کی ’’لازمی طور پر ولیمے میں شرکت کرنی ہے، تمہاری حجیانی شیخ خالہ بھی ہوں گی ان سے بطور خاص ملاقات کرنا۔ والدہ کے حکم کی تعمیل میں ریواز گارڈن میں ہونے والے اس ولیمے میں شرکت کی تھی۔ بی بی جی کا بیٹا اس تقریب میں خالہ جی کی خصوصی توجہ سے مہمان خصوصی ہوگیا۔

بس اس دن سے شیخ خادم حسین سے ہماری دوستی ہوگئی جو اب تک نبھ رہی ہے۔ سال بھر میں ا یک دو بار ہم لازمی ملتے ہیں گھنٹوں محفل جمتی ہے۔ عید سے ایک آدھ دن قبل شیخ کے حکم پر ان کی قیام گاہ پر حاضری واجب ہوئی۔ آمدورفت کا بندوبست اس کا تھا شیخ اب ریواز گارڈن کی بجائے واپڈا ٹائون میں مقیم ہے۔

ویسا ہی زندہ دل جیسا پہلے روز (اپنے ولیمے میں) ملا تھا۔ موڈ میں ہو تو کہتا ہے ’’شاہ جی اللہ دی قسمیں میں تہانوں ای اپنا سوہرا، سس تے برادر نسبتی سمجھنا واں۔ ہن ایندا رہ کون گیا وے ملتان اچ‘‘۔

ایک دن میں نے کہا شیخ یہ سوہرا تے سس دے بعد برادر نسبتی کیوں؟ کہنے لگا یار توں "سید زادہ ویں تیری بھرجائی دی امی حجیانی شیخ کہندی سی ساڈی بی بی جی دے پتر دی امی زندہ ولی وے بس اے ہی اک لحاظ آندا وے اونجے تیرے کرتوت میرے سالیاں ورگے ای نے”۔

خیر یہ تعارف اور تعلق خاطر کی تفصیل بھابی صاحبہ کے ڈرائنگ روم میں آمد کے قصے کی وجہ سے کچھ طویل ہوگئی۔ بھابی کہہ رہی تھیں، بی بی جی کا بیٹا اخباروں میں دھکے کھانے اور جیلیں شیلیں کاٹنے کی بجائے پیر بنتا تو بہت ترقی کرتا۔

ایک دن خادم شیخ نے اس وکھری قسم کی دائمی تعریف سے تنگ آکر کہا اللہ آلئے اے تیری بی بی جی کا پتر تو نماز روزہ تک نہیں کرتا۔

بولیں شاہ جی جانے تے اللہ سئیں سانوں کی۔

 

خیر شیخ نے بھابی کو بتایا کہ راحت مسعود نے شاہ جی کو دکان کے کرائے والی بات بتادی ہے۔ انہوں نے مصنوعی غصے سے اپنے خالہ زاد کی طرف دیکھا اور بولیں، "شاہ جی مہنگائی بہت ہے اس لئے میں نے خادم سے کہا دکان میرے نام کرادو اور کرایہ دیا کرو، ہن رب دا شکر اے عزت نال گزارا ہو جاندا وے‘‘۔

بھابی واپس اندرون خانہ گئیں تو میں نے موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے شیخ سے کہا یہ بات ٹھیک ہے کہ لوگوں کی قوت خرید دم توڑ گئی ہے لیکن اگر کاروباری حضرات بھی اپنا منافع پانچ دس فیصد کم کرلیں تو کچھ بہتری آسکتی ہے۔

چند ساعتوں کے لئے وہ کسی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر کہنے لگا شاہ جی آپ کی بات درست ہے لیکن اس ملک میں ہر طرف ’’آپو تاپی‘‘ (نفسا نفسی) ہے ہر شخص اپنے پیٹ، گھر اور خاندان کا سوچتا ہے۔

ہم کاروبار کرنے والے کسی الگ دنیا میں نہیں رہتے سب کے درمیان جیتے بستے رہتے ہیں، خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ ہر جانب یہی حال ہے۔ آپ لوگ دکان داروں سے شکوہ کرتے ہو یہ درست ہے لیکن کبھی اس ریڑھی والے کا شکوہ بھی کیا ہے جو 150روپے درجن والا کیلا رمضان المبارک میں 300روپے درجن فروخت کرتا رہا۔

یار یہاں جس کا دائو لگتا ہے اور جہاں لگتا ہے وہ موقع گنواتا ہرگز نہیں۔ کہنے لگا ایک بات کہوں ناراض تو نہیں ہوگے؟

نہیں ناراضگی کی کیا بات ہے میں نے کہا ۔ مسکراتے ہوئے بولا اگر ایک بار صرف ایک بار عام آدمی یہ فیصلہ کرلے کہ اس بار عید پر نئے کپڑے نہیں بنانے، رمضان میں افطاری سے دسترخوان بھرنے کی بجائے سادہ سالن روٹی سے افطاری کرنی ہے تو یقین کرو ریڑھی والے سے شاہ عالمی تک منڈیوں اور بڑے سپر سٹورز تک کے مالکان کی چیخیں نکل جائیں گی۔

سب بندے کے پتر بن جائیں گے اگر عام آدمی جو اصل میں خریدار ہے ایک بار صرف تیس دن صبر شکر کے ساتھ گزارلے اور عید کرلے۔

لیکن یار یہ خریداری کرنے والے عام آدمی کتنے فیصد ہیں؟ میں نے کہا ،

اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا شاہ جی اب دانشوروں کی طرح اعدادوشمار نہ سمجھانے لگ جانا۔ میں مارکیٹ میں بیٹھتا ہوں آنکھیں اور کان کھلے رہتے ہیں ہر خاص و عام نفسانفسی اور خودپرستی کا شکار ہے کیا ضرورت ہے قرضہ لے کر عید کی شاپنگ کرنے کی۔ نہ کی تو کیا قیامت آجائے گی۔ بالکل نہیں آئے گی۔

بس دکھاوے کی عزت اور ٹچخرے جینے نہیں دیتے لوگوں کو۔ میں پچھلے چند دنوں سے اپنے اس دوست کی باتوں پر جتنا غور کرتا ہوں دماغ الجھتا چلا جاتا ہے۔

کچھ سکون ملتا ہے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہی کہ وسائل سے بڑھ کر اخراجات مسائل پیدا کرتے ہیں۔

دکھاوے کی عزت اور خودپرستی بیکار کی چیزیں ہیں۔ ہمیں (یعنی ہم سب کو) ہر وقت روتے دھوتے رہنے کی بجائے کسی دن ٹھنڈے دل سے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا اگر ہم دن نہ بدلنا چاہیں تو دن بدل سکتے ہیں؟۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author