حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موذی او موذی آ، اٹھی، اٹھ پو ۔۔۔
ہر سال گھر کی خواتین کا اصرار ہوتا کہ بھئی یہ کھا تو لیا ہے شیر خورمہ، اور کیا ہوتا ہے عید کا ناشتہ؟ ادھر روٹی کے بغیر جوانوں کا سورج کدھر چڑھتا ہے۔ خیر اس سالانہ منت ترلے کے بعد پراٹھے تلے جاتے، چائے بنتی اور بھرپور ناشتہ ہوا کرتا۔ اس دوران کرتے ادھر ہینگروں پہ ہم تینوں کے ٹنگے ہوتے۔ ناشتے کے بعد ابا اکثر دفتر چلے جاتے کیونکہ وہ پی آئی اے میں تھے اور جہاز تو عید کے دن بھی لینڈ ہونے ہی ہوتے ہیں۔
دوپہر ہوتے ہی چچا اور جفی آتے۔ ہم لوگ پی ٹی وی کی سپیشل ٹرانسمیشن روک کے کرتے پہنتے اور اس کے بعد ملاقات کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جس عید ابا گھر ہوتے اس دن بخاری، نسیم اور طفیل انکل کا بھی ایک چکر لگتا تھا۔ امی کے بہن بھائی چونکہ دوسرے شہروں میں تھے تو سارا دن کام کاج کے دوران فون کی گھنٹیاں بجتی رہتیں اور ان کی عید ویسی ہوا کرتی۔ امی کی مہندی بھی وہ ہتھیلی پہ گول ٹکیا اور انگلی کی پوروں تک ہوا کرتی تھی لیکن انہیں مہندی لگائے بہت ہی کم دیکھا۔ اصل میں ابا کو خوشبو نہیں پسند مہندی کی، تو بس یہ چکر تھا۔ پھر جب چھوٹی بہن آئی ہماری تو خیر سے کیا پسند اور کیا ناپسند، رج کے مہندی لگائی اس نے، ابا کے سارے وٹ اسی نے نکالے۔
سہ پہر کے بعد آمد و رفت زیادہ ہو جاتی۔ دہی بڑے، چنا چاٹ، شیر خورمہ، کولڈ ڈرنک، نمکو، چائے، بسکٹ، مٹھائی اور کوئی دو تین دوسری چیزیں، یہ مینیو ہوتا تھا عید کے دن۔ جو مہمان لنچ یا ڈنر کے آس پاس آتے وہ ساتھ شریک ہو جاتے۔
شام کو علی بھائی یا صدیق عید کیک دینے آتے تھے۔ اصل میں باریاں لگی ہوئی تھیں۔ ابو کے بیسٹ فرینڈز میں سے ایک ہمارے حسن انکل ہیں۔ تو عید پہ حسن انکل بھجواتے کیک یا مٹھائی اپنے بیٹوں کے ہاتھ اور بقرعید پہ ہماری باری ہوا کرتی تھی۔ بعد میں دونوں بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ابے یار مفت کا تماشہ ہے، چھوڑو اس کو ختم کرو، تو اس طرح سالانہ مشقت سے جان چھوٹ گئی۔
علی صدیق جاتے تو جفی اکیلا آ جاتا۔ ہمارے یہاں رسم یہ تھی کہ بڑوں کو گھٹنے چھو کے عید مبارک کہتے یا وہ چار انگلیاں جوڑ کے اور انگوٹھا ہتھیلی کے ساتھ ملانے والا آداب ہوا کرتا تھا۔ گھٹنے قریبی بزرگوں کے چھوے جاتے اور اس کا شریفانہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ عیدی نکالیے۔ آداب والا عید مبارک ان رشتے داروں کے لیے ہوتا تھا جن سے زبردستی عیدی نہیں لی جا سکتی تھی۔ یوں سمجھیں جس کے گوڈے پڑ گیا بچہ، عیدی دینا پھر اس پہ فرض تھا۔ بعض انکلوں کے تاثرات اس وقت مرزا پور کے لالہ جیسے ہو جاتے تھے، وہ جس وقت منا بھیا ان سے ریشم کے ریٹ لینے آتے ہیں۔
(جنہیں اس بارے میں علم نہیں وہ ‘منا بیٹا لالہ مرزا پور’ لکھ کے گوگل کر لیں۔)
اب ہر عید پہ جیسے ہی کوئی بچہ دور سے آداب کرتا ہے یا گھٹنوں کی طرف لپکتا ہے، وہی والی شکل میری بن جاتی ہے۔ قسم اٹھوا لیں اس وقت مجھے جفی بڑا یاد آتا ہے۔ میں نے عیدی کم بٹوری چونکہ رشتے دار پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ اسی فارمولے سے اب دینی بھی پڑتی ہے لیکن جفی؟ اس کا تو ماشاللہ پورا سرکل اب بھی وہی ہے، کیا گھمسان کا وقت پڑتا ہو گا!
خیر، اپنے زمانے میں اس عید کا واحد مزا یہی تھا کہ ڈھیر سارے پیسے مل جاتے جو کسی نہ کسی معصوم خواہش کو پورا کر دیتے جیسے کرکٹ کا نیا بیٹ ہو گیا، عینک خرید لی، کوئی کھلونا لے لیا، کہانیوں والی کتاب آ گئی یا عید سے اگلے دن وی سی آر کرائے پہ منگا لیا۔
آج کل کے بچوں کی وش لسٹ موبائلوں اور پلے سٹیشن سے شروع ہو کے لامحدود اڑان لیتی ہے، وہ سب کچھ عیدیوں سے بھی نہیں خریدا جا سکتا ۔۔۔ کیا کرتے ہوں گے یہ غریب؟ مطمئن ہو کے سونا اب بچوں کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ہو گا کیا؟
جفی کو اس کے دادا یہ آواز مار کے عید کی صبح اٹھا دیتے۔ وہ بے چارہ آنکھیں ملتا پھر سو جاتا۔ تھوڑی دیر بعد یہی آواز تھوڑی غصیلی ٹون میں آتی، تب اسے مجبوراً اٹھنا پڑتا۔
سب بچوں کا ایک کزن ایسا ہوتا ہے جس کی عیدی پہ باقی سارے رشک کرتے ہیں بلکہ حسد ۔۔۔ ہاں حسد، یہ سچا جذبہ ہے، رشک وغیرہ آدمی بڑے ہو کے کرتا ہے جب وہ پالتو قسم کا بے ضرر ہو جاتا ہے۔ تو جفی نے عیدی لینی ہوتی تھی اور شام تک وہ ڈھیر ساری ہو جاتی تھی اس لیے غریب کو تڑکے جاگنا پڑتا۔
وہ مجھ سے ایک سال بڑا ہے، دفتروں، کاغذوں اور اجنبیوں میں اسے مظفر بیگ کے نام سے جانا جاتا ہے، باقی گھر والوں کے لیے وہ جفی ہے۔ موذی اس کا وہ نک نیم تھا جو اس کے دادا نے دیا، یہ کسی کو نہیں پتہ، ظاہری بات ہے ایسی باتیں چھپانے والی ہوتی ہیں اور جو کسی کو نہ پتہ ہو ایسی معلومات اکٹر پاس ورڈذ میں استعمال ہوتی ہیں۔ کیا پتہ یہ اس کا پرانا کوئی پاسورڈ ہو، آج کے بعد نہیں ہو گا۔
تو جفی نیند کا بڑا پکا ہے لیکن عید کے دن جیسے تیسے وہ جاگ جاتا۔ فٹافٹ نہاتا، لٹھے کا اکڑا ہوا شلوار قمیص پہن کے جوان آدھے گھنٹے میں چچا کے ساتھ نماز پہ روانہ ہو جاتا۔ عید نماز کے بعد ڈھیررررر سارے رشتے داروں کے گھر اس کے ابا اسے لے کے جاتے۔ روٹ میں ہمارا گھر کوئی دوپہر کے آس پاس پڑتا۔ پھر چچا اور جفی ادھر آتے۔ اس ٹائم تک مجھ سے دس گنا عیدی ہوتی تھی اس کے پاس۔ لیکن عیدی تو لین دین کا معاملہ ہے، کہ نہیں؟ تو جو کچھ اس کے پاس ہوتا ظاہری بات ہے چچا کو بھی اس سے زیادہ یا آس پاس بھرنا پڑتا ہو گا۔ یہ اس وقت وہ سوچتا تھا نہ ہم۔ یہ والے کڑاکے تو اب نکلتے ہیں۔
اپنے یہاں عید سکون والی ہوتی تھی۔ نماز کا ٹائم بھی تھوڑا لیٹ والا اور صبح صبح کوئی خاص جلدی بھی نہیں۔ اپنی نیند شدید کچی ہے۔ باورچی خانے میں پہلا برتن کھڑکنے کی آواز سے آنکھ کھل جاتی۔ چھوارے دادی نے رات سے بھگو کے رکھے ہوتے۔ امی اور وہ کچن میں شیر خورمہ جس وقت بنانا شروع کرتے، اس کے آس پاس ابا میں اور بھائی نماز کے لیے نکلتے۔ واپسی پہ باجماعت کرتے اتار کے شیر خورمہ کھایا جاتا اور اس کے بعد ناشتے کا انتظار شروع ہو جاتا۔
ہر سال گھر کی خواتین کا اصرار ہوتا کہ بھئی یہ کھا تو لیا ہے شیر خورمہ، اور کیا ہوتا ہے عید کا ناشتہ؟ ادھر روٹی کے بغیر جوانوں کا سورج کدھر چڑھتا ہے۔ خیر اس سالانہ منت ترلے کے بعد پراٹھے تلے جاتے، چائے بنتی اور بھرپور ناشتہ ہوا کرتا۔ اس دوران کرتے ادھر ہینگروں پہ ہم تینوں کے ٹنگے ہوتے۔ ناشتے کے بعد ابا اکثر دفتر چلے جاتے کیونکہ وہ پی آئی اے میں تھے اور جہاز تو عید کے دن بھی لینڈ ہونے ہی ہوتے ہیں۔
دوپہر ہوتے ہی چچا اور جفی آتے۔ ہم لوگ پی ٹی وی کی سپیشل ٹرانسمیشن روک کے کرتے پہنتے اور اس کے بعد ملاقات کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جس عید ابا گھر ہوتے اس دن بخاری، نسیم اور طفیل انکل کا بھی ایک چکر لگتا تھا۔ امی کے بہن بھائی چونکہ دوسرے شہروں میں تھے تو سارا دن کام کاج کے دوران فون کی گھنٹیاں بجتی رہتیں اور ان کی عید ویسی ہوا کرتی۔ امی کی مہندی بھی وہ ہتھیلی پہ گول ٹکیا اور انگلی کی پوروں تک ہوا کرتی تھی لیکن انہیں مہندی لگائے بہت ہی کم دیکھا۔ اصل میں ابا کو خوشبو نہیں پسند مہندی کی، تو بس یہ چکر تھا۔ پھر جب چھوٹی بہن آئی ہماری تو خیر سے کیا پسند اور کیا ناپسند، رج کے مہندی لگائی اس نے، ابا کے سارے وٹ اسی نے نکالے۔
سہ پہر کے بعد آمد و رفت زیادہ ہو جاتی۔ دہی بڑے، چنا چاٹ، شیر خورمہ، کولڈ ڈرنک، نمکو، چائے، بسکٹ، مٹھائی اور کوئی دو تین دوسری چیزیں، یہ مینیو ہوتا تھا عید کے دن۔ جو مہمان لنچ یا ڈنر کے آس پاس آتے وہ ساتھ شریک ہو جاتے۔
شام کو علی بھائی یا صدیق عید کیک دینے آتے تھے۔ اصل میں باریاں لگی ہوئی تھیں۔ ابو کے بیسٹ فرینڈز میں سے ایک ہمارے حسن انکل ہیں۔ تو عید پہ حسن انکل بھجواتے کیک یا مٹھائی اپنے بیٹوں کے ہاتھ اور بقرعید پہ ہماری باری ہوا کرتی تھی۔ بعد میں دونوں بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ابے یار مفت کا تماشہ ہے، چھوڑو اس کو ختم کرو، تو اس طرح سالانہ مشقت سے جان چھوٹ گئی۔
علی صدیق جاتے تو جفی اکیلا آ جاتا۔ ہمارے یہاں رسم یہ تھی کہ بڑوں کو گھٹنے چھو کے عید مبارک کہتے یا وہ چار انگلیاں جوڑ کے اور انگوٹھا ہتھیلی کے ساتھ ملانے والا آداب ہوا کرتا تھا۔ گھٹنے قریبی بزرگوں کے چھوے جاتے اور اس کا شریفانہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ عیدی نکالیے۔ آداب والا عید مبارک ان رشتے داروں کے لیے ہوتا تھا جن سے زبردستی عیدی نہیں لی جا سکتی تھی۔ یوں سمجھیں جس کے گوڈے پڑ گیا بچہ، عیدی دینا پھر اس پہ فرض تھا۔ بعض انکلوں کے تاثرات اس وقت مرزا پور کے لالہ جیسے ہو جاتے تھے، وہ جس وقت منا بھیا ان سے ریشم کے ریٹ لینے آتے ہیں۔
(جنہیں اس بارے میں علم نہیں وہ ‘منا بیٹا لالہ مرزا پور’ لکھ کے گوگل کر لیں۔)
اب ہر عید پہ جیسے ہی کوئی بچہ دور سے آداب کرتا ہے یا گھٹنوں کی طرف لپکتا ہے، وہی والی شکل میری بن جاتی ہے۔ قسم اٹھوا لیں اس وقت مجھے جفی بڑا یاد آتا ہے۔ میں نے عیدی کم بٹوری چونکہ رشتے دار پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ اسی فارمولے سے اب دینی بھی پڑتی ہے لیکن جفی؟ اس کا تو ماشاللہ پورا سرکل اب بھی وہی ہے، کیا گھمسان کا وقت پڑتا ہو گا!
خیر، اپنے زمانے میں اس عید کا واحد مزا یہی تھا کہ ڈھیر سارے پیسے مل جاتے جو کسی نہ کسی معصوم خواہش کو پورا کر دیتے جیسے کرکٹ کا نیا بیٹ ہو گیا، عینک خرید لی، کوئی کھلونا لے لیا، کہانیوں والی کتاب آ گئی یا عید سے اگلے دن وی سی آر کرائے پہ منگا لیا۔
آج کل کے بچوں کی وش لسٹ موبائلوں اور پلے سٹیشن سے شروع ہو کے لامحدود اڑان لیتی ہے، وہ سب کچھ عیدیوں سے بھی نہیں خریدا جا سکتا ۔۔۔ کیا کرتے ہوں گے یہ غریب؟ مطمئن ہو کے سونا اب بچوں کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ہو گا کیا؟
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر