حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ پوچھئے تو آج کالم لکھنے کو دل بالکل بھی نہیں چاہ رہا۔ زندگی دکھوں کا گھر ہے۔ سُکھ بھی ہوتے ہیں لیکن دُکھ زیادہ۔ ہر ذی نفس کے لئے زندگی کمرہ امتحان کے سوا اور کیا ہے۔ اپنے اپنے سوال نامے کے ساتھ زندگی کے کمرہ امتحان میں ہم سوالوں کے جواب تلاش کرتے اور لکھتے ہیں۔
سفر حیات یونہی طے ہوتا ہے۔ کیا میٹرک کے طالب علم سے ایم ایس سی باٹنی کے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں؟ فقیر ر احموں نے میرا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا شاہ جی باتوں اور معاملات کو گڈمڈ نہ کیا کرو یہ میٹرک کا امتحان نہیں زندگی کے امتحانی پرچے کا سوال ہے۔
ہمارے سامنے سوال ہی ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمیں اپنی ذات بھی ایک سوال ہی لگتی ہے۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ اداریہ لکھ چکا، مجبوری تھی روزگار کی۔ کالم لکھنا بھی مجبوری ہی ہے۔ روزگار اور اخبار دونوں کی ضرورت ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ اگر آج کا کالم کچھ زیادہ بے ربط محسوس ہو تو درگزر کیجئے گا، ذہنی یکسوئی نہیں ہے۔
ہمارے یارِ عزیز چھوٹے بھائیوں کی طرح لاڈلے ملک قمر عباس اعوان سڑک کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہوکر کل سے ہسپتال داخل ہیں۔ پچھلی شب جب سے اسے دیکھ کر واپس آیا ہوں، دل کی حالت عجیب سی ہے۔ میں ہمیشہ امید کا دامن تھامے رہتا ہوں دوستوں سے بھی یہی عرض کرتا رہتا ہوں کہ امید کے عزم سے ناامیدی کو شکست دی جاسکتی ہے۔
ان سطور کے لکھتے وقت بھی میں امید کا دیا روشن کئے ہوئے ہوں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آقا زادی سیدہ عابدہ بتول فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے بلند مرتبہ بابا جان آقائے صادق حضرت محمدمصطفی کریمؐ سے ہمارے پیارے ملک قمر عباس اعوان کی صحت و سلامتی کے لئے سفارش فرمائیں گی۔
آقا زادیؑ اور ان کے بلند مرتبہ بابا جانؐ کے علاوہ ہم ایسے بے نوائوں کا اور سہارا بھی تو کوئی نہیں۔
ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا، مجھے دوست، کتابیں اور بیٹیاں سارے جہان کی نعمتوں سے عزیز ہیں۔ یہی میری زندگی کا اُجلا سچ ہے
دوستوں، کتابوں اور بیٹیوں نے زندگی کو منور کیا اور منور رکھے ہوئے بھی ہیں۔ مجھے تو ان تینوں سے محبت ہے ایسی محبت جسے لفظوں میں بیان کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔
چلیں ہم کتاب پڑھنے کے بعد اس پر بحث اٹھاسکتے ہیں۔ موضوع پر الفاظ کے چنائو پر۔ ہر دو پر مصنف کی گرفت اور اوراق پر لے جانے کے لئے ان کی بُنت پر۔ اس سے زیادہ کسی کتاب کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں ہم اور آپ کسی بھی صاحب کتاب کی فکر اور موضوع پر اس کی گرفت پر بحث کرسکتے ہیں۔
اچھا یہ ضروری بھی نہیں کہ ہر پڑھی گئی کتاب واقعتاً اس قابل ہو کہ ہم اسے درجہ بندی میں لاسکیں۔
ایک بار میں نے اپنے ایک صاحب علم دوست سے سوال کیا
’’جب سارے اہل دانش فلاں کتاب بارے یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ اس شخصیت کی تصنیف نہیں جن سے منسوب ہے تو پھر اکثر صاحبانِ تفاسیر اس کتاب کے حوالہ جات کیوں دیتے ہیں؟‘‘
میرے صاحب علم دوست نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولے، عزیزم، کتاب اپنے وجود کے ساتھ موجود ہو تو حوالہ ضرور بنے گی۔ اس پر الگ سے بحث ہوگی کہ کتاب کے بارے میں جو عمومی رائے ہے کہ اس کا مصنف فلاں شخصیت نہیں لیکن چونکہ کتاب موجود ہے اس لئے حوالہ دیا جانا غلط نہیں۔
مجھے سندھی کے صوفی شاعر سامی کا ایک شعر بہت پسند ہے وہ کہتے ہیں ” دوست سندھو ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی طرح ہوتے ہیں "۔ (سامی سے میرے تعارف کا ذریعہ شیخ ایاز مرحوم ہیں)
شیخ ایاز بھی ایک ترقی پسند استاد، دانشور، شاعر، ادیب اور قانون دان تھے۔ کچھ عرصہ سیاست کے میدان میں بھی رہے لیکن علم و دانش ان کے اصل میدان تھے۔
انہوں نے مرشد سید عبداللطیف شاہ بھٹائیؒ کے کلام
’’شاہ جو رسالو‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ کیا باکمال منظوم ترجمہ ہے۔
پچھلی نصف صدی کے دوران ترجمہ ہوئی تین تصانیف بارے میری رائے یہ رہی کہ اگر کبھی ان کتابوں کے اصل خالق ترجموں کو دیکھیں تو چند لمحوں کے لئے وہ بھی مترجم کی دانش کے سحر میں یہ کہہ اٹھیں گے ہم نے کلام ہی اسی زبان میں کیا۔
پہلی کتاب سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطبات، خطوط اور اقوال پر مشتمل ’’نہج البلاغہ‘‘ ہے۔ اردو میں اس کا پہلا ترجمہ 1880ء کے لگ بھگ سید فیض عالم نقوی البخاری دکنی نے کیا تھا وہ ترجمہ گو کمال کا تھا مگر ’’اردو معلیٰ‘‘ اب کسے سمجھ میں آتی ہے۔
ایک ترجمہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے بلند پایہ عالم دین مفتی جعفر حسین مرحوم نے بھی کیا، کیا کمال کا ترجمہ ہے ایسا لگتا ہے خطبات دیئے ہی اردو میں گئے ہیں۔
اسی طرح شاہ لطیف بھٹائی کا ’’شاہ جو رسالہ‘‘ ہے اردو میں منظور ترجمہ شیخ ایاز مرحوم نے کیا (ایک اور صاحب نے بھی ترجمہ کیا اس وقت ان کا اسم گرام ذہن میں نہیں آرہا) شیخ ایاز کے ترجمہ میں بھی یہی گماں ہوتاہے کہ شاہ لطیف بھٹائیؒ کا کلام اصل میں اردو میں ہے سندھی میں اس کاترجمہ کیا گیا ہے
لیکن شاہؒ تو سندھی کے شاعر تھے اور شیخ ایاز بھی سندھی ہیں مگر کیا کمال کا ترجمہ کیا انہوں نے۔ جب تک اس کرہ ارض پر ایک بھی صوفی دوست اردو اور سندھی بولنے سمجھنے والا انسان موجود ہے ’’شاہ جو رسالہ‘‘ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہے گا۔
تیسری کتاب دیوان غالب ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالبؒ کے دیوان کا پنجابی میں منظوم ترجمہ اثیر عابد نے کیا۔ خدا لگتی بات ہے غالب بھی اگر اثیر عابد کے پنجابی میں ترجمہ ہوئے اپنے کلام کو دیکھ لیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کیا میں نے شاعری فارسی ترکیبات میں گندھی اردو میں کی تھی یا پنجابی میں۔
دوستوں کا بھی یہی حال ہے۔ کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جن پر حلقہ دوستاں کے ہر دوست کا یہ دعویٰ ہوتاہے کہ ’’وہ‘‘ میرا سب سے محبوب اور لاڈلہ دوست ہے۔
ملک قمر عباس اعوان بھی ایسے یہ دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ زندہ دل، بزلہ سنج، مروت و اخلاص سے تعمیر ہوا دوستوں کے دکھ اور سکھ میں سب سے بڑھ کر شریک ہونے والا۔
کل سے ہمارا یہ لاڈلہ ہسپتال کے بستر پر ہے اور اسکے سینکڑوں دوستوں کے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اس کی صحت و سلامتی کے لئے بلند ہیں۔
وہ جو فراز نے کہا تھا ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘۔ بات اس کی بڑی حد تک درست ہے لیکن ملک قمر عباس نے عملی طور پر ہر ہاتھ ملانے والے کو بھی دوستوں سا احترام دیا۔
اسی بات پہ سوچئے کہ دوستوں کے ساتھ اس کا برتائو کیا ہوگا۔ان سطور کے لکھے جانے سے قبل ملتان سے برادرم شاکر حسین شاکر نے ٹلیفون پر قمر عباس کی خیریت دریافت کی دونوں برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کے درمیان چند ملاقاتیں بھی رہیں۔ چند ملاقاتوں اور سوشل میڈیا کے تعلق پر ملک قمر عباس کی علالت پر شاکر حسیین شاکر نے جس دردمندی کااظہار کیا وہی ہمارے یارِ عزیز اور لاڈلے کی زندگی، ظرف اور شخصیت کا حقیقی تعارف ہے۔
ملک کی زندگی میں خاندان کے علاوہ دوست اور کتابوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
کل دن بھر اور پھر رات گئے تک اس کے دوست جس طرح دیوانہ وار ہسپتال میں موجود رہے وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ دوست ہی زندگی ہوتے ہیں دوست ہی زندگی ہے۔
پیارے قارئین آپ سے درخواست ہے۔ ہمارے قمر عباس کی صحت و سلامتی کے لئے اللہ رب العزت کے حضور دست دعا بلند کیجئے۔ ہمیں ہم سب کواس کے خاندان کو سب سے بڑھ کر مرسل عباس کو اس کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم اپنے محبوبؐ کے صدقے اسے شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے، آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر