نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی اور معاشی چیلنجز کا "رقص” ||حیدر جاوید سید

عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل سے تنگ ہے اس کے بڑے حصہ کا مسئلہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن ہے یہ عدم توازن اصل میں بھاری بھرکم یوٹلٹی بلز اور مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جادو کی چھڑی سابقہ وزرائے خزانہ کے پاس تھی نہ جناب مفتاح اسماعیل کے پاس۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک سیاسی اور معاشی طور پر کہاں کھڑا ہے ایک نگاہ چار اور دوڑا کر دیکھ لیجے تقسیم شدہ سماج اب ایک نئی تقسیم کی طرف بڑھ رہا ہے کیسی تقسیم ؟

اس سوال کا جواب سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد حسین چودہری کے دھمکی نما موقف میں موجود ہے دودن ادھر انہوں نے کہا ” اگر ملک کے گلی کوچوں میں تصادم نہیں ہورہا تو تحریک انصاف اور عمران خان کی مہربانی ہے ” امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تبدیلی کے ارادے کیا ہیں ،

پونے چار برس قبل احتساب انصاف اور تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف نے اپنے عرصہ اقتداد میں ان نعروں اور وعدوں کی تکمیل کیلئے کتنا کام کیا یہ سب کے سامنے ہے فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ معاشی اور سیاسی طور پر ہم جہاں کھڑے ہیں یہ مقام عبرت ہے

اچھا یہ پہلا مقام ہے ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں آپ نے بس گھبرانا بالکل نہیں اصولی طور پر گھبرانے کی ذمہ داری نئی حکومت کو اٹھانا چاہئے خیر ادھر ہمارے خان صاحب سازش سے غلطی پر آگئے ہیں کہہ رہے ہیں کہ غلطی جس سے بھی ہوئی وہ اسے سدھارے اور فوری الیکشن کروائے فقیر راحموں پوچھ رہے ہیں شاہ جی فوری الیکشن لالے جوبائیڈن نے کروانے ہیں یا پنڈی والے لالے نے ؟

اس سوال پر ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے ، نئی حکومت کے وزیر خزانہ ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وفاقی مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف کے حکام سے مذاکرات کے لئے امریکہ روانہ ہوگئے ہیں تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ابتدائی رسمی ملاقات ہوچکی ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے سربراہ رضا باقر پہلے ہی امریکہ پہنچ چکے۔ گزشتہ سے پیوستہ روز مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ سابقہ حکومت نے تین سال کے دوران 20ہزار ارب روپے کا قرضہ لیا مگر ایک ڈالر کا قرضہ بھی واپس نہیں کیا۔

یہ بھی کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے سابق حکومت کے وزراء کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف پروگرام کو ٹریک پر لانے اور عوام دوست بجٹ بنانے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ روپے کی قدر مزید کم نہیں ہوگی۔ مخلوط حکومت کے وزیر خزانہ نے یہ حیران کن دعویٰ بھی کیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے نئی حکومت کو مشکلات سے دوچار کرنے کے لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی حالانکہ جناب مفتاح اسماعیل سمیت اُس وقت کی اپوزیشن کے درجنوں رہنما تب یہ کہا کرتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت پٹرولیم مصنوعات مہنگے داموں فروخت کرکے عوام کے لئے مشکلات کھڑی کررہی ہے۔

ان کےتازہ دعویٰ پر تو یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ کون سی بات درست ہے پچھلے دور کا موقف یا گزشتہ روز کہی بات؟ البتہ یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ سابق دور میں جب پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دیا گیا تھا تو آئی ایم ایف نے اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نہ صرف 92کروڑ ڈالر کی قسط روک لی بلکہ حکومت سے مذاکرات کو بھی معطل کردیا تھا ، بہر حال سابق متحدہ اپوزیشن جوکہ اب حکمران اتحاد ہے، اس کا اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ اپنے پرانے دعوئوں کے مطابق ایسی معاشی پالیسی لائے جس سے آئی ایم ایف کی بالادستی بھی کم ہو اور عوام پر بھی کوئی منفی اثر نہ پڑنے پائے۔

اس پہ دو آراء نہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے سے 6ارب ڈالر قرضہ پروگرام کے حصول کے لئے ابتدائی مذاکرات اس وقت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے کئے تھے بعدازاں جب شوکت ترین وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے پچھلے برس رواں مالی سال کی بجٹ تقریر کے دوران اس امر کا اعتراف کیا کہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم نے ملکی مفادات اور عوام کی معاشی حالت دونوں کو مدنظر نہیں رکھا اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان لیں۔ ستم مگر یہ ہوا کہ خود شوکت ترین بھی جب وزیر خزانہ کی حیثیت سے عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کے لئے گئے تو وہ سخت شرائط میں رتی برابر نرمی نہ کرواسکے بلکہ ماضی کے مقابلہ میں مزید سخت شرائط کا طوق گلے میں ڈلوا آئے۔

وطن واپسی پر جب انہیں مختلف حلقوں نے آڑے ہاتھوں لیا تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑاگئے کہ ’’ہم نے اپنے طور پر آئی ایم ایف کو شرائط میں نرمی کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی مگر ہمیں بتایا گیا کہ یہ سخت شرائط امریکہ کے حکم پر ہیں‘‘۔ اصولی طور پر تو شوکت ترین کو چاہیے تھا کہ وہ وزیر خارجہ کے ہمراہ امریکی حکام سے بات کرتے پاک امریکہ تعلقات کی اس دراڑ کو بھرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کے خیال میں آئی ایم ایف حکام کا موقف اپنے لوگوں کو بتادینا ہی کافی تھا حالانکہ انہیں مبتال ذرائع تلاش کرنا چاہیں تھے

6ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کے حصول کے حوالے سے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور معاہدوں کے وقت موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اعدادوشمار اور دلائل کا انبار لگاتے ہوئے قوم کو یہ بتایا کرتے تھے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنی معاشی پالیسیوں کی ناکامی اور دوسرے معاملات کا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال کر عوام کو گمراہ کررہی ہے۔

اب مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ ہیں انہیں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہی نہیں کرنے بلکہ سخت شرائط میں نرمی لانے پر آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہے کہ معاشی پالیسی وضع کرنے اور نفاذ کے عمل سے عام آدمی کی زندگی کسی مشکل میں نہ پڑے۔

عام آدمی جو مہنگائی، بیروزگاری اور دوسرے مسائل سے تنگ ہے اس کے بڑے حصہ کا مسئلہ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن ہے یہ عدم توازن اصل میں بھاری بھرکم یوٹلٹی بلز اور مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے ہے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ جادو کی چھڑی سابقہ وزرائے خزانہ کے پاس تھی نہ جناب مفتاح اسماعیل کے پاس۔

ویسے بھی جادو کی چھڑیوں سے بہتری بھی نہیں لائی جاسکتی۔ بہتری کے لئے دانش مندی، خودانحصاری اور ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن کا بوجھ معاشرے کے عام طبقات پر نہ پڑے۔ بہرطور ہم امید کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے وقت وہ پچھلے دور کے اپنے بیانات اور اعدادوشمار سے رہنمائی ضرور لیں گے تاکہ عملی طور پر ثابت کرسکیں کہ اُن وزرائے خزانہ میں لیاقت اور دردمندی کی کمی تھی اس لئے وہ ملک و قوم کا مقدمہ صحیح طور پر نہیں پیش کرسکے۔

جہاں تک زرمبادلہ کے ذخائر اور دیگر معاملات کے حوالے سے ان کے اس موقف کا تعلق ہے جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ سے پیوستہ روز کیا تو اس ضمن میں بھی ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا چاہیے کہ وہ میڈیا بریفنگ میں دستیاب اعدادوشمار کے ساتھ سارا معاملہ عوام کے سامنے رکھ دیں تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ والے دن زرمبادلہ کے ذخائر 19ارب ڈالر تھے یا 11.5 ارب ڈالر اور ان میں سے 6ارب ڈالر ’’امانت‘‘ ہیں جو زرمبادلہ کے استحکام کے لئے دوست ملکوں سے حاصل کئے گئے ہیں۔

عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ ان 6ارب ڈالر کا سالانہ سود کیا ہے۔ امید واثق ہے کہ نئی حکومت کے وزراء سابق دور پر بھڑاس نکالتے رہنے کی بجائے اصلاح احوال کے لئے اپنی ان پالیسیوں کو بروئے کار لائیں گے جنہیں ماضی میں پیش کرکے وہ کہتے تھے کہ اگر ہم ہوتے تو یہ بدحالی ہرگز نہ ہوتی۔ یہاں یہ عرض کردینا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین پونے چار برسوں کے دوران لگ بھگ 2 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے گئے موجودہ حکومت کا فرض ہے کہ ان لوگوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے فوری اقدامات کرے اور مہنگائی کو کم کرنے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات پر توجہ دے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author