مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروجیکٹ عمران خان(3)|| آفتاب احمد گورائیہ

ڈکٹیٹرشپ کے دور میں تو میڈیا کو بدترین حالات سے گزرنا پڑتا رہا ہے لیکن نام نہاد جمہوری پراجیکٹ عمران خان کا دور بھی ہر قسم کے میڈیا کے لیے کسی آمرانہ دور سے کم ثابت نہیں ہوا حالانکہ پراجیکٹ عمران خان کے خالی غبارے میں ہوا بھرنے میں میڈیا کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پراجیکٹ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور زراعت اور کسانوں پر بھی بہت بھاری گزرا۔ قومی پیداوار میں چوبیس فیصد کما کر دینے والا شعبہ زراعت کبھی بھی پراجیکٹ عمران خان کی توجہ حاصل نہ کر سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گندم کی پیداوار میں خود کفیل پاکستان جو پوری دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ملکوں میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم امپورٹ کرنے پر مجبور ہو گیا۔ پراجیکٹ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں کبھی بھی گندم کا پیداواری ہدف حاصل نہ ہو سکا۔ کسان گندم کی امدادی قیمت میں اضافے، ڈی اے پی اور یوریا کی فراہمی کے لیے احتجاج کرتے نظر آئے لیکن نہ تو کبھی کسان کو گندم کی مناسب قیمت مل سکی اور نہ ہی وقت پر ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم ہو سکی۔ پچھلے سال لاہور میں کسانوں کے مظاہرے پر ہونے والے پولیس تشدد سے دو کسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے لیکن حکومت کے کان پر جوں بھی نہ رینگ سکی۔ زراعت کے بارے پراجیکٹ عمران خان کی مسلسل عدم توجہی کے باعث تکلیف دہ امر یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں زرِ کثیر کمانے والی ہماری اجناس کپاس، گندم اور چاول کی پیداوار میں مسلسل کمی کا رحجان رہا جس کے نتیجے میں ہمارا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا چلا گیا۔

پولیس ریفارمز ایک اور ایسا سبز باغ تھا جو پراجیکٹ عمران خان کے بہت سارے دوسرے وعدوں میں سے ایک تھا لیکن پراجیکٹ عمران خان کے ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں کی طرح پولیس ریفارمز کا وعدہ بھی محض ایک سبز باغ ہی رہا۔ پاکستان کے عوام یقیننا یہ سوچتے تو ہوں گے کہ وہ کون سی عالمی سازش تھی جس نے سابق وزیراعظم عمران خان کو پولیس ریفارمز کے وعدے کی تکمیل سے بھی روکے رکھا حالانکہ اس وعدے کی تکمیل کے لیے نہ کسی بہت بڑے بجٹ کی ضرورت تھی نہ اپوزیشن اس کام میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کر سکتی تھی۔ اگر ضرورت تھی تو صرف نیت اور ارادے کی، لیکن شائد نیت اور ارادے کی ہی کمی تھی کہ یہ کام بھی نہ ہو سکا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی جی وغیرہ کی تعیناتی تین سال کے لیے ہونی چاہئیے تاکہ وہ آرام سے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے فرائض سرانجام دے سکیں لیکن اسی عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں صوبہ پنجاب میں چھ سات آئی جی تبدیل کیے گیے۔ محکمہ پولیس کے تقرر و تبادلوں میں سیاسی مداخلت عروج پر رہی۔ پنجاب کے سنئیر وزیر عبدالعلیم خان کے مطابق ہر پوسٹنگ کا ریٹ مقرر تھا جس میں خاتون اوّل کی فرنٹ لیڈی فرخ شہزادی کا نام زبان زدِ عام ہے۔ پراجیکٹ عمران خان کے شروع کے دنوں میں ہی جس طرح خاتون اول کی بیٹی اور سابقہ خاوند کے پولیس ناکے پر نہ رکنے پر ہونے والی پولیس کاروائی جس کے نتیجے میں ڈی پی او پاکپتن کو وزیراعلی ہاؤس بلوا کر گالیاں دی گئیں اور معطل کر دیا گیا یہ پولیس کے فرائض میں مداخلت کا نقطعہ آغاز تھا، اس کے بعد ایک دو اور ایسے واقعات ہوئے جن میں پولیس کو فرائض کی آزادانہ انجام دہی سے روکا گیا جس کے نتیجے میں خیبرپختونخواہ کے سابق آئی جی ناصر درانی جنہیں پولیس ریفارمز کی ذمہ داری دی گئی تھی یہ کہہ کر استعفی دے گیے کہ پولیس کے کام میں جس طرح کی سیاسی مداخلت کی جا رہی ہے نہ تو پولیس ریفارمز ممکن ہیں اور نہ ہی میرے لیے اس پراجیکٹ پر مزید کام جاری رکھنا ممکن ہے۔ ناصر درانی کے استعفی کے ساتھ ہی پولیس ریفارمز کے پراجیکٹ کو لپیٹ کر سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔

صحت کے شعبے میں پراجیکٹ عمران خان کی جانب سے صحت کارڈ کا بہت چرچا کیا جاتا ہے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ صحت کارڈ عمران حکومت کا سب سے بڑا سکینڈل ثابت ہو گا۔ بجائے سرکاری ہسپتال بنانے کے چار سو ارب روپیہ صحت کارڈ میں جھونک دیا گیا۔ چار سو ارب روپے کی اس خطیر رقم سے پبلک سیکٹر میں صحت کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جا سکتا تھا لیکن ذاتی پبلسٹی اور پرائیویٹ ہسپتالوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے اتنی بڑی رقم ڈبو دی گئی۔ صحت کارڈ کے حوالے سے بہت سی شکایتیں بھی سننے میں آئیں کیونکہ بہت سارے ہسپتال تو پینل پر نہ ہونے کی وجہ سے صحت کارڈ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سب سے بڑی شکایت اوور چارجنگ کی رہی کیونکہ چھوٹے موٹے آپریشن یا پروسیجر کے لیے بھی دگنے تگنے اخراجات صحت کارڈ سے کاٹے جاتے رہے۔ صحت کارڈ کا پروپیگنڈہ البتہ بہت کیا جاتا رہا۔ پراجیکٹ عمران خان کے دور میں دوائیوں کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پراجیکٹ عمران خان کے پہلے وزیر صحت طارق کیانی پر فارماسوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ مل کر اربوں روپے کی کرپشن کرنے کا سکینڈل سامنے آیا لیکن اس کی کوئی تحقیقات کی گئیں نہ نیب حرکت میں آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی کرپشن نہیں کی گئی تو دوائیوں کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافے کا جواز کیا تھا؟ اور ایک پراپرٹی ڈیلر کو وزیر صحت لگانے میں عمران خان کی کیا حکمت تھی؟

پراجیکٹ عمران خان کا ایک اور بڑا دعوی سٹیٹس کو توڑنے کا بھی تھا اور کہا جاتا تھا کہ ہم پروٹوکول نہیں لیں گے لیکن ہالینڈ کےوزیراعظم کے سائکل پر دفتر جانے کی مثالیں دینا والا پراجیکٹ عمران خان کا وزیراعظم دفتر آنے جانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتا رہا جس کے لیے روزانہ تقریباً چار لاکھ کا اضافی خرچہ قومی خزانے کو برداشت کرنا پڑا جبکہ پروٹوکول نہ لینے کا دعوی کرنے والوں کے کتے بھی قیمتی سرکاری گاڑیوں اور ہیلی کاپٹروں میں سفر کرتے رہے۔ پرائم منسٹر ہاؤس، گورنر ہاؤس اور دوسرے بڑے بڑے گھر بھی پراجیکٹ عمران خان کے وعدوں کے مطابق یونیورسٹیاں نہ بن سکے۔

ڈکٹیٹرشپ کے دور میں تو میڈیا کو بدترین حالات سے گزرنا پڑتا رہا ہے لیکن نام نہاد جمہوری پراجیکٹ عمران خان کا دور بھی ہر قسم کے میڈیا کے لیے کسی آمرانہ دور سے کم ثابت نہیں ہوا حالانکہ پراجیکٹ عمران خان کے خالی غبارے میں ہوا بھرنے میں میڈیا کا بڑا اہم کردار رہا ہے۔ اپوزیشن کے دنوں میں عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں کی جس طرح لمحہ بہ لمحہ کوریج اور میراتھن ٹرانسمیشنز چلائی جاتی رہیں ایسی سہولت کسی دوسری سیاسی جماعت کو میسر نہہں رہی۔ کئی اینکر حضرات اب تسلیم کرتے ہیں کہ کیسے دھرنے کے دنوں میں انہیں ہدایات دی جاتی تھیں کہ خالی کرسیاں نہ دکھائی جائیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عمران حکومت کی جانب سے اسی میڈیا کو بدترین سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے چلتے ہوئے انٹرویوز رکوائے گیے، کئی اینکرز کو آف ائیر کروایا گیا اور بہت سے صحافیوں اور اینکرز کو زبردستی ان کے اداروں سے نکلوا دیا گیا۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ کئی صحافیوں کو اپنی ماتحت ایجنسیوں کے ذریعے اٹھوا کر راہ راست پر لانے کی کوشش بھی کی گئی۔ میڈیا کی آزادی کے حوالے سے پراجیکٹ عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور کسی آمرانہ دور ہی کی طرح سیاہ دور تصور کیا جائے گا۔

تحریک انصاف جس کے بنانے کا مقصد قانون اور انصاف کی حکمرانی بتائی جاتی تھی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پراجیکٹ عمران خان نے یہ قلعی بھی پوری طرح کھول کر رکھ دی کہ پراجیکٹ عمران خان کا قانون اور انصاف سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ پراجیکٹ عمران خان کی حکومت کی بنیاد ہی دھاندلی پر رکھی گئی تھی شائد یہی وجہ تھی کہ ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں جہاں ان کا بس چلا ضمنی انتخابات، ڈسکہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں دھاندلی کی نئی داستانیں رقم کی گئی۔ دھونس دھاندلی زدہ ان انتخابات کی تفصیل میں جائے بغیر قانون و انصاف کی پاسداری کے دعویدار عمران خان نے اس وقت قانون کو کھلم کھلا چیلنج کیا جب الیکشن کمیشن نے سابق وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور کو کشمیر بدر کرنے کے احکامات جاری کر دئیے لیکن عمران خان نے بطور وزیراعظم قانون کو کھلم کھلا چیلنج کرتے ہوئے علی امین گنڈہ پور کو اپنے ساتھ سٹیج پر بٹھا کر تقریر فرمائی۔ خیر آئین اور قانون عمران خان کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ تو عمران خان کے حکومت سے نکلنے کے بعد کے اقدامات سے سب کو بخوبی ہو گیا ہو گا کہ اپنے مفاد اور اقتدار کے لیے عمران خان نہ تو آئین کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے حکم کی اور ستم یہ ہے کہ ایسا شخص ساڑھے تین سال پاکستان کا حکمران بھی رہ چکا ہے۔

پراجیکٹ عمران خان نے ساڑھے سال تین میں صرف ایک کام کیا ہے اور وہ ہے جھوٹا پروپیگنڈہ۔ عمران خان اس فن میں طاق ہے جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے کا کام عمران خان اور اس کی جماعت سے بہتر کوئی اور نہیں کرسکتا۔ اس کام کے لیے درجنوں ترجمان، یو ٹیوبرز اور سرکار کے کھاتے سے بڑی بڑی تنخواہوں پر سوشل میڈیا ایکسپرٹ بھرتی کیے گئے جن کا کام ہی یہ تھا کہ ایسا ماحول بنا کر رکھا جائے کہ عام عوام کو یہی محسوس ہو کہ نہ تو عمران خان سے بڑا لیڈر کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہو گا۔ ابھی یہ ہی دیکھ لیں کہ ایک نام نہاد مراسلے کا سہارا لے کر بڑی کامیابی سے پراجیکٹ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ بدترین کارکردگی کو چھپا کر عوام کو تبدیلی کے سبز باغ سے نکال کر غلامی سے آزادی کی ایک نئی لال بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔

پراجیکٹ عمران خان تو ساڑھے تین سال میں ہی اپنی نالائقی اور نااہلی کے سبب اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے لیکن عمران خان کی جانب سے جس نفرت اور شدت پسندی کا مسلسل پرچار کیا جا رہا ہے اس نفرت اور شدت پسندی نے قوم میں جو تقسیم پیدا کردی ہے اس لکیر کو پاٹنے میں بہت عرصہ لگے گا۔ عمران خان کے گمراہ کردہ یہ لوگ عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہو چکے ہیں۔ یہ لوگ پروپیگنڈے کے اتنے زیر اثر ہیں اور شخصی غلامی کے اتنے بلند ترین درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں سے لے کر آئین اور پاکستان سے بھی بڑھ کر عمران خان کے وفادار ہیں۔ عمران خان کی ایک آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخلی کے بعد جس طرح قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا، قومی پاسپورٹ اور جھنڈے جلائے گیے ایسی مثال کسی دوسرے وزیراعظم اور سیاسی جماعت کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ہے اصل چہرہ اس شخص اور سیاسی جماعت کا جو اپنے سوا باقی سب کو غدار سمجھتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو انتہائی غم و غصے اور سوگواری کے باوجود بھی وہاں سے جو نعرہ بلند کیا گیا وہ نعرہ تھا “پاکستان کھپے”۔ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد اب یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار۔

۔

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

آفتاب احمد گورائیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: