حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی خط، دھمکی اور سازش کا بیانیہ عمران خان نے 27مارچ کی شام پریڈ گرائونڈ اسلام آباد میں اپنے حامیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنایا تھا تب سے اب تک وہ اسی پر طوفان اٹھائے ہوئے ہیں۔
اس طوفان سے وہ اپنے سارے مخالفین اور ’’مدد‘‘ نہ کرنے والوں کو بہا لے جائیں گے یا پھر ان کی کشتیاں بھنور میں پھنس جائیں گی؟
اس سوال کا ایک جواب تو ان کے حامی دیتے ہیں جن کا خیال ہے کہ خان دستیاب پاکستانی تاریخ کا سب سے ’’ایماندار، نڈر اور محب وطن‘‘ لیڈر ہے۔ اب اس نے امریکی غلامی سے نجات کی جس طوفانی تحریک کا آغاز کیا ہے یہ چوروں۔ موروں، لوٹوں اور ڈاکوئوں کو نیست و نابود کردے گی۔
خان فتح کے جھنڈے گاڑتا ہوا دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ واپس آئے گا۔ واپس آنے کے بعد وہ کیا کرے گا۔ انصافی پیاروں کا یہ والا "جملہ” کالم میں نقل نہیں کیا جاسکتا مگر بات اتنی سادہ بھی نہیں اور نہ یہ ممکن ہے کہ وہی ہوگا جو پی ٹی آئی کے لوگ کہتے یا چاہتے ہیں۔
خان اور اس کے ساتھی و ہمدرد یہ بھول جاتے ہیں کہ 7مارچ کو موصول ہوئی سفارتی کیبل پر 27مارچ کو بیانیہ اٹھایا گیا۔ درمیانی 20دنوں میں کیا ہوا؟ ایک رائے یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس سفارتی کیبل میں ردوبدل کروائی۔ ایک حلقہ دعویٰ کررہاہے کہ مخدوم صاحب اور چند دیگر افراد حکومت کے خاتمے تک تحقیقات کو غیرضروری قرار دیتے تھے ان کا موقف تھا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں معاملہ طے ہوگیا تھا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر واقعی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے امریکی سازش، دھمکی اور اپوزیشن کے امریکہ سے گٹھ جوڑ کی کہانی پر مہر ثبت کردی تھی تو اپوزیشن رہنمائوں اور ان کی جماعتوں کے خلاف کارروائی میں کیا امر مانع تھا؟
سفارتی کیبل 7مارچ کو ملی نیشنل سکیوٹری کمیٹی کا اجلاس تحریک انصاف کے 27مارچ والے جلسے کے بعد کیوں بلایا گیا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ ہم اس کالم میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کے اس موقف کو زیربحث نہیں لائیں گے جس کا اظہار انہوں نے جمعرات 14اپریل کی سپہر کیا۔
اس سے زیادہ اہم اور واضح جواب وہ ہے جو بین الاقوامی نیوز ایجنسی ’’رائٹر‘‘ کی طرف سے بھجوائے گئے سواب کے جوال میں عسکری حکام نے تحریری طور پر دیا۔ ’’رائٹر‘‘ کو بھجوائے گئے جواب میں کہا گیا تھا
’’معمول سے ہٹ کر غیرسفارتی زبان استعمال کئے جانے پر سفارتی احتجاج کی منظوری دی گئی‘‘۔ سازش یا امریکہ اور اپوزیشن میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کسی گٹھ جوڑ کا ثبوت نہیں ملا۔اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے لئے بیرونی فنڈنگ کی تصدیق نہیں ہوئی‘‘ نیز یہ کہ "حکومت کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ ہماری تحقیقات میں سازش ثابت نہیں ہوئی”۔
جمعرات کو آئی ایس پی آر کے سربراہ نے جو پریس کانفنس کی یہ انہیں 9اپریل سے قبل کرنی چاہیے تھی۔
اب جو بات سمجھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ کیا ایک اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ اتنا احمق ہے کہ وہ کسی ملک کے سفیر کو بلائے اور کہے کہ ’’اگر ایسا نہ ہوا تو ہم یہ کریں گے اور اگر ایسا ہوا تہ یہ ہوگا‘‘؟ اخبارات کی فائلوں اور نیوز ویب سائٹس پر سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد، بھارت میں سابق سفیر عبدالباسط کے بیانات موجود ہیں
ہردو جہاندیدہ سفارتکاروں کے بقول مداخلت تو بیان بازی سے بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ کہا جائے کہ امریکہ کو پاکستان میں انسانی حقوق، مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے معاملات پر تشویش ہے۔ ہم جواب میں کہیں گے یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔
سفارتی سطح پر اس طرح کے بیانات چلتے رہتے ہیں۔ سازش بتاکر تھوڑا ہی کی جاتی ہے۔
سابق ہائی کمشنر نفیس زکریا کے بقول غیرملکی سازش اور مداخلت میں فرق یہ ہے کہ مداخلت کو بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے جبکہ سازش ایک قابل سزا جرم ہے۔
انہوں (نفیس زکریا) نے 1980ء میں عالمی عدالت انصاف میں نکاراگوا کی جانب سے امریکہ کے خلاف دائر کیس میں مداخلت کے الزام کا تذکرہ بھی کیا۔ اس کیس میں نکاراگوا کی جانب سے ٹھوس ثبوت فراہم کئے جانے پر امریکہ کے خلاف فیصلہ آیا تھا۔ ان کے بقول مداخلت جیسے معاملات سفارتی سطح پر احتجاج اور بات چیت سے نمٹالئے جاتے ہیں۔
سازش کہہ دینا کافی نہیں ٹھوس ثبوت کا ہونا ضروری ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ نے بالفرض وہی کہا ہے جو عمران رجیم کے مطابق سفارتی کیبل میں لکھا ہے تو کیا سازش ہوگئی۔
اسسٹنٹ سیکرٹری نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور داخلی صورتحال پر جو تبصرہ کیا وہ مداخلت اور سازش پر پورا اترتا ہے ؟۔
سب ایسا ہی ہے جیسا عمران رجیم کہہ رہی ہے تو 20دن کی تاخیر کیوں کی گئی؟ بالائی سطور میں ایک وجہ عرض کرچکا دوسری وجہ یہ ہے کہ عالمی شہرت کے حامل ابراج گروپ کے عارف نقوی ان دنوں برطانوی حکومت کی تحویل میں ہیں۔ برطانیہ میں ان پر چند مالی گھٹالوں کے الزامات ہیں۔ انہی صاحب، عارف نقوی کے خلاف امریکہ میں 3سے 5ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات ہورہی ہے۔
عارف نقوی عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف اور ان کے بعض اداروں کے ڈونر ہیں۔ خیال کیا جارہا ہے کہ عارف نقوی کے منی لانڈرنگ کے کاروبار میں تحریک انصاف اور عمران خان کے دوسرے ادارے استعمال ہوئے۔
یعنی معقول حصے پر سہولت فراہم کی گئی۔ یاد رکھئے یہ ابھی خیال ہے تحقیقات کرنے والوں کا اس خیال نے اگر حقیقت کا روپ دھارلیا تو کیا ہوگا؟
عارف نقوی کے ساتھ (جنہیں ایک معاہدہ کے تحت برطانیہ نے امریکہ کے حوالے کرنا ہے) عمران خان، ان کی جماعت اور ادارے بھی امریکی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
خدانخواستہ ایسا ہوا تو کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو جیسا کہ امریکی تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ 3سے 5ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوئی اور اس رقم کا کچھ حصہ افغان طالبان تک پہنچا۔
یہ درست ثابت ہونے کی صورت میں عمران خان، پی ٹی آئی، اور عمران کے ذاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کے لئے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
سو ایک رائے یہ ہے کہ عمران خان جانتے ہیں کہ عارف نقوی کی برطانیہ سے امریکہ کو حوالگی کے بعد منظرنامہ کیا ہوگا۔ انہوں نے امریکی سازش، دھمکی اور غدار اپوزیشن والا بیانیہ پیشگی دفاعی حکمت عملی کے تحت بنایا ہے تاکہ اگر مستقبل میں ایسا ہی ہو جس کا خدشہ ہے تو وہ یہ کہہ سکیں میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا امریکہ مجھ سے خوفزدہ ہے میرے خلاف سازشیں کررہا ہے۔
پہلے اپوزیشن کو ساتھ ملاکر مجھے اقتدار سے نکلوابا اب مجھے عارف نقوی کے ساتھ منی لانڈرنگ میں ملوث کرکے میری کردار کشی کی جارہی ہے۔
اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں مبینہ دھمکی والے خط اور غدار اپوزیشن کے خلاف تحقیقات کو غیرضروری قرار دینے والے تحریک انصاف کے رہنما اب سپریم کورٹ سے کمیشن بنانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کمیشن بنا دیا جانا چاہیے۔ حکومت بھی فوراً تحریری طور پر سپریم کورٹ سے کمیشن کے قیام کے لئے درخواست کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ انتظام بھی کیا جائے کہ عارف نقوی کے برطانوی گھٹالوں میں پی ٹی آئی کے تعلق یا امریکہ میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے اب تک کی تفتیش کے حوالے سے سرکاری طور پر درخواست کی جائے کہ ضروری معلومات تک رسائی کے لئے سپریم کورٹ کے کمیشن (اگر بنتا ہے) کو رسائی دی جائے۔ مکرر عرض ہے معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے عمران رجیم کا بیانیہ سفارتی کیبل پر ہے اس میں ردوبدل کا الزام لگایا جارہا ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چودھری اور بابر اعوان پر سازش (کیبل میں ردوبدل) کا الزام لگ رہا ہے۔
عارف نقوی والے معاملات بھی نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عمران خان کا موقف، یہ ساری باتیں اس امر کی متقاضی ہیں کہ کسی تاخیر کے بغیر کمیشن بنایا جائے تاکہ پورا سچ عوام کے سامنے آسکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر