حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اُدھر قومی اسمبلی میں جنوبی ایشیاء میں سلسلہء سہروردیہ کے سب سے بڑے پیر ، مخدوم شاہ محمود قریشی کا ’’پھٹے توڑ‘‘ خطاب جاری ہے۔
صبح جب اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے بعد قبلہ شاہ محمود قریشی نے خطاب شروع کیا۔ ابتدائی چند جملوں پر اپوزیشن بنچوں سے ان پر آوازیں کسی گئیں۔ سپیکر نے فوراً اجلاس ساڑھے بارہ بجے تک کے لئے ملتوی کردیا جوکہ لگ بھگ سوا دو گھنٹے کی تاخیر سے دوبارہ شروع ہوا۔
مرشد اس وقت بھی دھواں دھار خطاب کررہے ہیں۔ درمیان میں جذبات میں آکر انہوں نے ایک نعرہ بھی تین بار لگوایا ان کی تقریر کتنی طویل ہوتی ہے یہ صرف وہ جانتے ہیں۔ فی الوقت ان کا زور اسی بات پر ہے کہ ہماری حکومت ایک امریکی سازش کے تحت گرائی جارہی ہے۔
فرماتے ہیں 7مارچ کوامریکہ نے دھمکی دی اسی دن ہمیں سفارتی کیبل موصول ہوگئی۔ 8مارچ کو اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد جمع کروادی، پس ثابت ہوا کہ یہ تحریک عدم اعتماد امریکی سازش کا حصہ ہے۔
سوال پھر وہی ہے، 7مارچ کو اگر امریکی سازش کا پتہ چل گیا تو 27مارچ تک اس سازش کو پکانے اور مرچ مصالحہ ڈالنے کی ضرورت کیا تھی کسی تاخیر کے بغیر 8 نہیں تو 9مارچ کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی اور اگلے روز پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بلایا جاتا اور تفصیلات پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جاتیں زیادہ سے زیادہ 12مارچ تک اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کروادیا جانا چاہیے تھا
لیکن 7مارچ کی کی سفارتی کیبل سنبھال کر رکھ لی گئی۔ 27مارچ کو وزیراعظم نے اسلام آباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی دھمکی اور سازش کا ذکر کرتے ہوئے اپوزیشن پر غداری کا مرتکب ہونے کا الزام لگایا۔
7سے 27تک کے درمیانی 20دنوں میں کیا ہوا؟ اصل اور بنیادی سوال یہی ہے ،
ادھر اپوزیشن کے بعض رہنما الزام لگارہے ہیں کہ ان درمیانی دنوں میں مخدوم شاہ محمود قریشی کی نگرانی میں سفارتی کیبل میں ردوبدل کروائی گئی ، ان کے ساتھ اس سازش میں شاہ محمود قریشی، فواد چودھری، اسد عمر اور بابر اعوان کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ سچ ہے یا ا پوزیشن کا جواب دعویٰ یہ طے کیسے ہوگا۔
ایک ہی صورت ہے وہ آزادانہ تحقیقات۔ اس کے لئے چاروں صوبائی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن کا قیام۔ کیا فریقین اس کے لئے آمادہ ہوپائیں گے؟
بظاہر مشکل لگتا ہے کیونکہ جمعرات کی شام سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے جو فیصلہ سنایااسے لے کر تحریک انصاف سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ بعض جذباتیوں نے تو ججوں پر بھی ڈالر لینے کا الزام لگادیا ہے۔
یہ افسوسناک بات ہے حالانکہ اسی سپریم کورٹ نے بنی گالہ والے گھر کو عدالتی حکم پر قانونی حیثیت اس کے باوجود دلوائی کہ ثابت ہوگیا تھا کہ یونین کونسل کا کمپیوٹرائزڈ اجازت نامہ (این او سی) جعلی ہے۔
اسی سپریم کورٹ نے عمران خان کو صادق و امین قرار دیا۔ اس لیئے عمران خان سمیت جس جس کو جمعرات کے فیصلے پر افسوس ہے وہ ان دو پرانے فیصلوں پر بھی افسوس ظاہر کردے۔
ایک زیادہ جذباتی گروپ یہ کہہ رہا ہے اگر جمعرات کا فیصلہ درست ہے تو بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ بھی درست ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو چند برس قبل صرف نوازشریف کی نفرت میں پیپلزپارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں گیا تھا۔ مولا جٹ، وحشی جٹ، جٹ دا کھڑاک نامی فلمیں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھیں۔
بھٹو کی پھانسی کو پوری دنیا کے معروف قانون دانوں نے عدالتی قتل قرار دیا تھا۔ اس عدالتی قتل کے حوالے سے اسی بنچ کے رکن جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے، جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کا اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں موجود ہے کہ عدالتی بنچ پر جنرل ضیاء الحق کا دبائو تھا۔
یہاں تازہ کیس میں معاملہ کچھ اور ہے۔ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنی تقریر میں طنزیہ انداز میں اتوار کو تالے کھولنے کا ذکر کیا۔ یہ ذکر کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ پانامہ کیس میں عمران خان متعدد ٹی وی چینلوں پر اعتراف کرچکے کہ انہیں سپریم کورٹ کے ججوں ( انہوں نے نام بھی لئے تھے میں مصلحتاً نہیں لکھ رہا) نے بلاکر کہا کہاں سڑکوں پر دھکے کھاتے پھرتے ہو عدالت آجائو درخواست لے کر ہم کیس سنتے ہیں۔
یہ بات انہوں نے ایک بار پہلے بھی کی تھی مگر اس کا تذکرہ غیرضروری ہے۔
مکرر اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ حکومت 7مارچ کو سازش سے آگاہ ہوچکی تھی مگر 27مارچ تک خاموش رہی آخر کیوں؟
جو لوگ عمران خان کو کسی بھی حوالے سے قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اگر واقعی 7مارچ کو ان کے علم میں امریکی سازش کا معاملہ آگیا ہوتا تو انہوں نے کسی تاخیر کے بغیر اپوزیشن لیڈروں کے لئے پھانسی گھاٹ تیار کروادینا تھا۔
کیسے نہ کرتے وہ تو کرکٹ کی زندگی میں ایک معمولی بات پر قاسم عمر کے کیریئر کو پھانسی چڑھاگئے تھے یہ تو اقتدار کا معاملہ ہے ،
27مارچ کے بعد سے ان کالموں میں تواتر کے ساتھ مبینہ سازش، دھمکی اور غداری کے بھونڈے الزام پر نہ صرف عرض کرتا آرہا ہوں بلکہ اس حوالے سے مارکیٹ میں دستیاب کہانیاں بھی اپنے قارئین کے لئے لکھ چکا۔
خان صاحب کے حامی 27مارچ سے اب تک مسلسل ملک میں ایک مخصوص فضا بنانے میں مصروف ہیں یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ اس وقت محب وطن صرف عمران کے حامی ہیں باقی سب غداری اور ملک دشمن۔
گزشتہ شب بطور وزیراعظم عمران خان نے اپنے نشری خطاب (ریکارڈ شدہ) میں اپنے حامیوں سے اتوار کو عشا کے بعد امریکی سامراج کے خلاف احتجاج کے لئے باہر نکلنے کی اپیل کی۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، امریکی سامراج کے خلاف عوام کو گھروں سے باہر نکلنے کے لئے کہنے والے وزیراعظم نے لائیو کی بجائے ریکارڈ شدہ خطاب کیوں کیا؟
کیا یہ غلط ہے کہ خطاب کی ریکارڈنگ کے وقت وزیر اطلاعات و قانون ، مشیر پارلیمانی امور کے علاوہ بھی تین افراد موجود تھے۔ ان تین افراد کی نگرانی میں ہی ریکارڈ شدہ خطاب ایڈٹ ہوا؟
چلیئے ہم اصل موضع پر بات کرتے ہیں۔ ہم اپنی مرضی سے (ہم سے مراد وزیراعظم ہے) لائیو خطاب نہیں کرسکتے اور لڑیں گے امریکہ سے، ’’سبحان اللہ‘‘۔
پتہ نہیں کیوں ان دنوں خان صاحب کی وہ تقریر بار بار سننے کو جی چاہ رہا ہے جو انہوں نے ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فرانسیسی سفیر کو ملک سے باہر نکالنے کے احتجاج اور ’’دھوم دھڑکے‘‘ کے دوران کی تھی۔
تب خان صاحب کہتے تھے فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطلب یہ ہوگا کہ یورپی یونین کے ممالک ہم سے تجارت بند کردیں مگر آج "ناموس اقتدار” کے لئے امریکہ مخالف جذبات ابھار کر وہ کہتے ہیں یہ قومی غیرت کا سوال ہے۔
ان کے مشیروں اور معاونین میں کتنے غیرملکی شہری ہیں اس حوالے سے چند دن قبل صرف دو شخصیات کے امریکی پس منظر اور خدمات کا ذکر ان سطور میں کیا تھا۔
گزشتہ شب کی نشری تقریر میں انہوں نے ڈرون حملوں کے خلاف اپنی جدوجہد کی داستان پھر بیان کی۔
عالی جناب کو یاد دلانا ازبس ضروری ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف یہ تحریک جرمنی اور برطانیہ کی دو این جی اوز کا مشترکہ مشن تھا۔ ان این جی اوز نے جناب کی سابق اہلیہ جمائما خان کے توسط سے آپ کی خدمات حاصل کی تھیں ورنہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب 9/11 ہوا تو آپ نہ صرف مشرف کے ساتھ کھڑے تھے بلکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے حامی تھے۔
مشرف سے ناراضگی کسی اصول یا قومی غیرت پر نہیں ہوئی بلکہ آپ نے مشرف سے 2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 100سیٹیں اور وزارت عظمیٰ طلب کی تھی
2002ء کے انتخابات سے قبل پرویز مشرف جب شوکت خانم کے سالانہ ظہرانے پر آئے تو انہوں نے وہاں تقریر کے دوران خان صاحب کو مستقبل کا وزیراعظم بھی کہا۔
بعد میں اختلافات ہوگئے، کیوں، یہ الگ داستان ہے۔
ان اختلافات کے بہت بعد جب الیکٹرانک میڈیا کا دور آیا اور آپ اس الیکٹرانک میڈیا کے محبوب بنے تب جمائما خان کے توسط سے ڈرون گردی کے خلاف احتجاج کرنے والی این جی اوز نے آپ کی خدمات حاصل کیں۔
یاد رکھئے تکرار کے ساتھ ’’خدمات حاصل کی‘‘ عرض کررہا ہوں اور یہ مبہم نہیں کھلی بات ہے کہ خدمات کیسے حاصل کی جاتی ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر