رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرتی رویے اور سماجی رنگ پُر رونق تو ہیں مگر حقائق روزِ روشن کی طرح عیاں ہی کیوں نہ ہوں‘ شک کی گنجائش ہم نکال لیتے ہیں۔ کسی معاملے پر آپ سارا دن مغز ماری کریں‘ دلائل کا انبار لگا دیں اور سب کچھ سامنے رکھ دیں‘ دیکھنے اور سننے والے پھر بھی یہی کہیں گے: آخر اندر کی بات کیا ہے؟ چند ماہ سے پارلیمان کے اندر‘ باہر اور ہر سیاسی میدان کی جو فضا رہی ہے‘ اور جس تیزی سے ہماری قومی سیاست نے غیر موسمی رخ بدلا ہے‘ ہمارا بھی دل بار بار تقاضا کرتا ہے کہ آخر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا ہے؟ کس کو معلوم نہیں کہ ہم اس بحران میں کیسے پھنسے تھے‘ مگر کچھ زمینی حقائق اور خلائی معاملات کا ذکر کرنا ضروری ہے‘ کم از کم ہماری عقل جن کا احاطہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اس لیے ہم انہیں خلائی زمرے میں ڈال کر آپ کے حوالے کرتے ہیں کہ آپ بھی اپنی عقلی زور آزمائی کر کے اگر اس سے کچھ نکالنا چاہیں‘ اور اگر ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں بھی ضرور آگاہ کریں گے۔ بہتوں کا بھلا ہو گا۔
جو سامنے نظرآ رہا ہے‘ اسے اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی اکثریت والی قومی سیاست جماعت کے طور پر ابھری تو روایتی خاندانی جماعتوں کے ہوش اُڑ گئے۔ نصف صدی کی سیاست کا جمود ٹوٹا‘ ایک نیا لیڈر اپنی ذاتی کاوش‘ کردار‘ فلاحی خدمات اور ایک نئے بیانیے اور وژن کی نمائندگی کرتے ہوئے قومی افق پر ابھرا۔ بے شک آپ اس سے اتفاق نہ کریں‘ مگر اس سے کسی کو انکار نہیں کہ تین چار طاقت ور خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کا سکّے میں ڈھلا مضبوط بت پاش پاش کر دیا‘ اور پھر ان کی کرپشن کے ایسے چرچے روزانہ کی بنیاد پر گلی گلی‘ کوچے کوچے اور ملکوں ملکوں کئے کہ اگر معاشرے میں جان ہوتی تو وہ منہ چھپاتے پھرتے۔ اداروں میں سکت اور قانون کی حکمرانی ہوتی تو ان کے خلاف الزامات کا فیصلہ ہو پاتا۔ جب پشت پناہی مضبوط ہاتھوں میں ہو یا حساب کتاب کرنے والے ساتھ ہوں تو سب ثبوتوں کے ہوتے ہوئے وہ ان غریب اور بھوکے عوام کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں۔ معاملہ ہی ہاتھوں کی صفائی کا ہے۔ قانون اور عدالت کے معاملات ہم وہاں ہی رہنے دیتے ہیں‘ مگر سیاسی میدان میں کپتان نے ان خاندانوں کا جو حلیہ دکھایا ہے‘ یا اس کے مخالفین کے مطابق حلیہ بگاڑا ہے‘ اس کا عکس تاریخ کے صفحات سے آنے والی نسلوں تک نہیں مٹ سکے گا۔ اس لیے جونہی نتائج گزشتہ انتخابات کے نشر ہونا شروع ہوئے‘ سب پُرانے سیاسی حریف اسی رات کی تاریکی میں سورج طلوع ہونے سے پہلے دوست اور اتحادی بن چکے تھے۔
کپتان کے پاس اپنی جماعتی اکثریت نہیں تھی۔ یہ درویش ان مبصرین میں سے تھا‘ جو اپنی روش میں بغیر مانگے مشورہ دیتے ہیں کہ روایتی سیاست کو توڑنا ہے تو کچھ اور کرنا پڑے گا‘ اس کے طور طریقے استعمال کرنا اسی سیاست کو برقرار رکھے گا۔ حکومت انہیں بنانے سے گریز کرنے کی ہم نے تلقین کی تھی اور یہ بھی کہ کراچی اور گجرات والے ہوں یا اڑتے پھرتے موسمی پرندے‘ جو آج آپ کی منڈیر پر چوں چوں کر رہے ہیں‘ کسی وقت بھی آپ کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔ ایسے اتحادوں میں حکومت اور اقتدار ہی پیشِ نظر ہوتے ہیں‘ نہ کہ کوئی نظریہ‘ کوئی مشترکہ منشور یا منزل۔ اب وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں اپوزیشن میں بیٹھنا چاہئے تھا۔ بیساکھیوں کا سہارا ظاہر ہے‘ انہوں نے اقتدار کی خواہش میں لیا۔ خواہش جائز تھی‘ مگر جو راستہ انہوں نے چنا‘ اس کے نتائج تو وہی ہونے تھے‘ جو ہم نے عدم اعتماد کی صورت میں دیکھے۔
عمران خان اپنی اکثریت کھو چکے تھے۔ انہیں تو اندازہ ہم سب سے پہلے ہونا چاہئے تھا۔ آخری گیند تک آپ پارلیمانی نظام میں اس وقت تک کھیل سکتے ہیں‘ جب پورے مطلوبہ کھلاڑی آپ کے ساتھ میدان میں موجود ہوں۔ پہلے خبریں آئیں کہ تحریکِ انصاف کے اراکین اسمبلی منحرف ہو کر حزبِ اختلاف کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں‘ یعنی جہاں سے اڑ کر آئے تھے‘ وہیں دوبارہ چلے گئے۔ جب ہمارے نمائندے ایسی قلا بازیاں کھاتے ہیں تو ان کے پاس جواز کے لیے بہت کچھ پہلے سے پکا پکایا مواد تیار ہوتا ہے۔ وہی پُرانی لائنیں‘ وہی پُرانی باتیں‘ وہی فرسودہ بیانات۔ اتحادی جماعتوں نے بھی معنی خیز ابہام سے کام لیتے ہوئے اپنی نئی منزل کی نشان دہی کر دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا‘ جب عمران خان اور ان کے مشیر کچھ بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے۔ وہ خواہ مخواہ روٹھوں کو منانے کی کاوش میں بہت وقت ضائع کر بیٹھے۔ انہیں درست اندازے اور جرات مندانہ فیصلوں کی ضرورت تھی۔ کئی تقاریر جھاڑنے کے بجائے صرف ایک ہی تقریر کافی تھی‘ کہتے: اب ہمارے پاس اکثریت نہیں رہی‘ ہمارے اراکین کو خریدا گیا ہے اور آئندہ کی حکومت کا فیصلہ عوام کریں گے۔ یہ کہہ کر اسمبلی توڑ دیتے۔ اب خود دیکھ رہے ہیں کہ اگلی حکومت کے فیصلوں کا اختیار کن چند ہمارے محترم خاندانی سیاست بازوں کے ہاتھ چلا گیا ہے۔ ابھی تو لگتا ہے کہ میدان مار لیا ہے۔
اندر کی بات اب اتنی بھی اندر کی بات نہیں رہی‘ اور دھیمے لہجے میں سب کہہ رہے ہیں‘ مگر اسے وہیں رہنے دینے کو ترجیح دیں گے‘ جہاں ہے۔ بیرونی سازش ہو سکتی ہے‘ مگر ابھی تک شواہد ایسے نہیں کہ یہ صرف باہر سے برآمد کیا ہوا سیاسی طوفان تھا جو کپتان کی حکومت کو لے ڈوبا۔ اس بیانیے پر زور دینا شاید کچھ مغرب اور امریکہ مخالف حلقوں میں جگہ بنا سکے‘ مگر یہ کسی انقلاب کا پیش خیمہ اس وقت کے سیاسی حالات میں شاید ثابت نہ ہو سکے۔ بات تو ظاہر ہے ان بیساکھیوں کی ہے‘ جن کا سہارا خان صاحب نے لیا تھا۔ وہ خوش نہ رہے تھے‘ بلکہ اختلافات حد سے بڑھ گئے۔ حکومتی اور خاجہ امور پر بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا دشوار ہوا تو راستے بدل گئے۔ پھر اچانک مہمان پرندے اڑنے لگے اور اتحادیوں کو کالے باغ بھی سبز نظر آنے لگے۔ عملیت اور حقیقت پسندی کے بغیر نظریاتی سیاست بھی بڑے سے بڑے لیڈر کو کمزور کر دیتی ہے۔
اگلا مرحلہ مقابلے کا تھا‘ اور وہ ہر صورت میں آئین اور قانون کے تابع رہنے کا تقاضا کرتا تھا‘ مگر جو اسمبلی میں سرپرائز دیا گیا‘ وہ ہر لحاظ سے غیر آئینی قدم تھا۔ با وقار طریقہ یہ تھا کہ عدم اعتماد کا سامنا کھلے دل سے کرتے اور عدالت عالیہ کو مداخلت کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس سے ان کی سبکی ہوئی۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھ کر اپنا پارلیمانی کردار ادا کریں۔ شاید ایسا بھی ہو مگر آثار یہ بتاتے ہیں کہ وہ ٹکرائو کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں اور غالباً زیادہ تر سیاست پارلیمان سے باہر سڑکوں پر ہو گی۔ سیاسی لوگ اپنا فائدہ سوچتے ہیں‘ مگر ایک لمحے کے لیے عوام اور ملک کا سوچیں تو ہمیں یہ سیاسی لڑائیاں اقتدار کی باریاں‘ غریب‘ پس ماندہ اور بے سکون رکھیں گی۔ نئے انتخابات کی صورت میں راستہ ملنے کی توقع تھی‘ جو پوری نہیں ہوئی۔ نئی حکومت بن بھی جائے‘ حالات سدھرتے نظر نہیں آتے۔ کھلاڑی بغیر قانون اور قاعدے کے کھیلیں گے‘ تو یہی ہو گا۔ بس تماشا دیکھتے رہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر