دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئین شکنی ایک خالص دیسی ڈِش ||علی عبداللہ ہاشمی

مفروضے سچ تو نہیں ہوتے مگر سچ تک پہنچنے وسیلہ ضرور ہوتے ہیں۔ اگر سحر زریں بندیال کا استعفٰی یکم اپریل ہی کو آیا ہے تو پھر یہی مفروضے سوالات بن کر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور انکی ڈوریں ہلانے والوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔

علی عبداللہ ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئین شکنی ایک خالص پاکستانی ڈِش ہے جو تاریخی اعتبار سے ہمیشہ دو اجزا یعنی ایوبی گوشت اور منیری مصالحہ جات کا مرکب رہی ہے۔ الحال پہلی مرتبہ اسمیں سویلین تڑکہ لگا ہے جسکے اثرات سے پاکستان اسوقت دوچار ہے۔ عمران خان تاریخ کا پہلا سویلین وزیراعظم ہے جس نے آئین کو ڈنکے کی چوٹ پر توڑا ہے۔ کچھ لوگ اسے بیوقوفی اور باقی خان صاحب کی جہالت سے تعبیر کر رہے ہیں مگر میرے خیال میں 18ویں ترمیم کے بعد زخم چاٹتے ایوب خان اور کیڑا لگے منیری مصالہ جات نے عمرانی تڑکے کو ملا کر ایک تیسرا رستہ نکالا ہے جسے آصف زرداری اور انکے دوست 18ویں ترمیم کو خلق کرتے وقت دیکھ نہیں پائے تھے۔

سابق وزیراعظم عمران نیازی نے 3 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش کا رنگ دیکر جو آئینی بحران پیدا کیا تھا، بظاہر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس پر سوو موٹو لیکر ایک بنچ تشکیل دے دیا ہے جسکی سربراہی وہ بذاتِ خود کر رہے ہیں مگر میرے خیال میں ایوبی گوشت پوست اور منیری مصالحہ جات کے شراکت داری کے بنا آئین شکنی کی ڈش کا پکنا ممکن ہی نہیں ہے لہذا مضمون زیر نظری میں ہم سانجھے کی اس ہنڈیا کے ڈھکن کو اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آخرکار یہ پکی کیسے؟

پاکستان پر خاکی آسیب کا سایہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کیوجہ سے مسلط ہوا۔ ہو سکتا ہے جسٹس منیر کے خاندان نے اس فیصلے کے عوض بہت سی مراعات حاصل کی ہوں مگر ایک خاندان کی ذاتی منفعت نے پوری قوم کو جسطرح ایک ادارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اسکے زخم پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کے بدن پر موجود ہیں۔ لاکھوں لوگ ماورائے عدالت قتل کر دیئے گئے، پاکستان دولخت ہوا، وزراء عظام کی بے توقیری کی گئی، انہیں قید سے لیکر قتل کرنے میں اداروں کو کبھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی کیونکہ جسطرح ہر آنے والا آرمی چیف ایوب خان ہی نکلا اُسی طرح چیف جسٹس منیر کی روح آواگوان کے ذریعے آنے والے ہر چیف جسٹس میں حلول کرتی گئی جس نے عوامی اداروں پر ایوب خان کی گرفت کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا۔

ایوبی گوشت اور منیری مصالحوں کا گٹھ جوڑ معلوم تاریخ میں دورِ یزید سے رائج ہے۔ یزید ایک ناجائز خلیفہ اور اپنی فوج کا آرمی چیف تھا جبکہ قاضی شریح اسکا چیف جسٹس تھا۔ اقتدار سے آمدہ غرور و تکبر نے ان دونوں کے دماغی توازن کو اسقدر بگاڑ رکھا تھا کہ قاضی شریح نے اس دور کے ایوب خان کی سپورٹ میں اولادِ نبیؐ کے قتل کا فتوی جاری کر دیا جسکی وجہ سے یزیدی فوج نے اللہُ اکبر کے نعروں کی گونج میں حسینؑ ابنِ علیؑ اور انکے خانوادے کو کربلا میں تہہِ تیغ کر دیا۔ یہ تو بھلا ہو اللہ تعالٰی کا کہ جس نے تاریخ کا فیصلہ اپنی قدرت کے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور جس نے یزید کی مطالعہ پاکستان اور حسینیت کے موقف کو کبھی گڈ مڈ نہیں ہونے دیا۔ اگر اللہ تبارک و تعالٰی نے تاریخ بھی ایوب و منیر کی دسترس میں دیدی ہوتی تو مجھے یقین ہے حق سچ نام کی کوئی چیز اس دنیا میں باقی نہ ہوتی۔

مثالوں سے بات کہیں اور نکل جائے گی۔۔ تو حالیہ آئین شکنی وقوع پذیر ہوئی 3 اپریل 2022 کو جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے سوو موٹو لیا اور ایک بنچ تشکیل دیکر اسکی سربراہی کو اپنے لیئے پسند فرما لیا۔ 5 اپریل کو یہ خبر نکلی کہ عمران خانی سرکار نے 2018 میں موجودہ چیف جسٹس کی بیٹی سحر زریں بندیال کو بطور ممبر پیمرا کونسل آف کمپلینٹس میں لاہور تعینات کیا تھا جس پر فوراً ہی عوامی ردِ عمل آنا شروع ہو گیا اور مطالبہ کیا جانے لگا کہ "Conflict of Interest” کے تحت چیف جسٹس خود کو بنچ کی سربراہی سے الگ کر لیں. مطالبہ ذور پکڑتا گیا اور بالآخر 6 اپریل رات گئے سوشل میڈیا پر ایک مُڑا تُڑا استغفٰی ڈال دیا گیا کہ جیسے سحر زریں بندیال نے یکم اپریل 2022 کو پہلے ہی اپنی نوکری سے استعفٰی دیدیا ہوا ہے۔

کہتے ہیں جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اور یہی کارن ہے کہ جھوٹ کی رات بھلے 11 برس کی ہو جائے، ایکدن سچ کا سورج اسکا خاتمہ کر دیتا ہے۔ مگر یہ بھی نہیں کہ سچ 11 برس تک سویا رہتا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی سچ کے سُوتے پھُوٹتے رہتے ہیں اور معتوب علیہان کو امید کے دامن کیساتھ گانٹھتے رہتے ہیں۔ سحر زریں بندیال کے استغفے نے سچ کے اُسی سُوتے سے مجھے روشناس کرایا ہے اور جو روشنی مجھ تک پہنچی ہے، میرا یہ فرض ہے اندھیروں میں پڑے دوستوں کو امید کے دامن کیساتھ باندھتا چلوں۔

فرض کریں کہ سحر بندیال نے یکم اپریل کو استعفٰی دیا تھا۔ تو یقیناً اسکی کوئی معقول وجہ رہی ہو گی اور اتنے بڑے عہدے کو چھوڑنے کے پیچھے یقیناً وجہ بھی بہت بڑی رہی ہو گی۔ کیونکہ حالیہ دنوں کا سب سے بڑا واقع آئین کا ٹوٹنا اور انکے والد کا اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے بنچ کی سربراہی کرنا ہے تو ایکمرتبہ پھر فرض کیجیئے کہ 31 مارچ کو بندیال صاحب نے اپنی بیٹی سے درخواست کی کہ چونکہ پاکستان کو عالمی سازش سے بچانے کیلئے آنے والے دنوں میں انکا اس بنچ کی سربراہی کرنا ضروری ہے لہذا وہ اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیں۔ اب کیونکہ سحر بندیال ن لیگی ممبر قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک کی بہو اور ممبر قومی اسمبلی علی پرویز ملک کی بھاوج ہیں۔ مجھے امید ھیکہ اپنی ساس اور دیور کے علم میں لائے بغیر وہ استغفٰی نہیں دے سکتیں تھیں کیونکہ انکی ساس کی جماعت تو مرکز اور پنجاب میں حکومت قائم کرنے جا رہی تھی۔ تو فرض لیتے ہیں کہ سحر بندیال نے اپنی ساس اور شوھر سے چھپا کر چپکے سے استغفٰی اپنے والد یا پھر پیغام رساں کے ہاتھوں چیئرمین پیمرا کو بھجوا دیا تھا جسکا بحرحال کسی اخبار، مراسلے یہاں تک کہ انکے ادارے میں بھی کسی کو علم نہیں ہے۔

اس استعفے کو سچا مان لینے کا سب سے بڑا نقصان دراصل موجودہ چیف جسٹس کو ہو گا کیونکہ اگر ہم مان لیں کہ سحر بندیال نے یکم اپریل کو استعفٰی دیا تھا تو کہنے والے کہہ دیں گے کہ اسے 3 اپریل والے اقدام اور اس پر بننے والے کمیشن یہاں تک کہ ہونے والے فیصلے بارے بھی اچھی طرح علم تھا اور اگر یہ مان لیا جائے تو سحر بندیال کی اطلاعات کا سورس چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ سحر بی بی کا استعفٰی جہاں اسکے والد کو آئین شکنی کے تدارک کیلئے قائم کردہ بنچ پر بنائے رکھنے کیلئےاکسیر کی سی حیثیت رکھتا ہے وہیں اسکا شائستہ پرویز ملک اور انکے بیٹوں سے چھپایا جانا سحر بی بی کی نِجی زندگی میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ ن لیگی قیادت پرویز ملک کی دیرینہ خدمات کے عوضانے کے طور پر اگر بیگم شائستہ ملک اور انکے بیٹے علی پرویز ملک کو ممبر قومی اسمبلی بنا سکتی ہے تو آئین شکنی جیسے معاملے میں بالخصوص جبکہ اسکا بینیفیشری شریف خاندان تھا، پرویز ملک کی بہو کی شراکت داری کو اگنور کرنا شائید شہباز شریف اور حمزہ شہباز کیلئے ممکن نہ رہے۔

مفروضے سچ تو نہیں ہوتے مگر سچ تک پہنچنے وسیلہ ضرور ہوتے ہیں۔ اگر سحر زریں بندیال کا استعفٰی یکم اپریل ہی کو آیا ہے تو پھر یہی مفروضے سوالات بن کر چیف جسٹس سپریم کورٹ اور انکی ڈوریں ہلانے والوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ عمران خان تو شاید ایوبی گوشت اور منیری مصالحوں کی تڑکہ لگی بریانی کھانے میں کامیاب ہو جائے، کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے مگر اس استعفے سے جو آگ سحر بندیال کے گھر میں لگے گی وہ شاید چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی بجھائی نہ جا سکے گی۔ وہ وفاداری جس پر رہتے ہوئے مرحوم پرویز ملک نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی، وہ دوستی جسکے لیئے اسکے بھائی جسٹس ملک قیوم نے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے تا ابد خیانت کا ٹیکہ ماتھے پر سجایا، وہ دوستی و وفاداری آج پرویز ملک کی بہو نے تشکیک کے دائرے میں کھڑی کر دی ہے۔ لیگی ممبر قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک کو اپنی بہو اور علی پرویز ملک کو اپنی بھابھی کے استعفے بارے اگر علم نہیں بھی تھا تو بھی شہباز شریف اور انکا بیٹا جب جب اپنی سِلی ہوئی اچکنوں پر نظر ڈالیں گے انہیں عمر عطاء بندیال کی بیٹی اپنی صفوں میں کھڑی نظر آئے گی اور اگر شائستہ بی بی کا خاندان اس پُتلی تماشے کے بارے میں علم رکھتا تھا تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ بیگم شائستہ ملک کا روجھان نواز فیملی کیجانب ہے یا پھر شہباز شریف کیطرف۔ دونوں صورتوں میں دھواں قاضی شریح کے گھر سے اٹھتا رہے گا۔۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author