دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر معید یوسف کون ہے اور ’’یو ایس پی آئی‘‘ کیا ہے۔؟ ||حیدر جاوید سید

ہمارے صحافی دوست شیراز پراچہ نے پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے ’’امریکی مہروں‘‘ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ کسی دن اس مضمون کے اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاست دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید احمد کہہ رہے ہیں ’’یہ نالہ لئی پراجیکٹ ہی منحوس ہے جب بھی اس کی تعمیر کا منصوبہ منظور ہونے کےقریب پہنچتا ہے حکومت ختم ہوجاتی ہے‘‘۔ یہ بھی کہا میں عیدالفطر کے بعد ایک ٹی وی چینل پر اینکر بن جائوں گا۔ پنجاب کے مستعفی ہونے والے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے کی قانونی حیثیت پر بحث چھڑ گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ استعفیٰ گورنر پنجاب کو دینے کی بجائے وزیراعظم کو دیا گیا اس لئے یہ قواعد کے خلاف ہے اور گورنر آفس کا استعفیٰ منظور کرنے کا نوٹیفکیشن بھی غیرقانونی ہے۔ دیکھتے ہیں اس قانونی بحث میں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔
ادھر پرویزالٰہی کے مقابلہ میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز ہیں۔ فواد حسین چودھری جنہیں اب وزارت قانون بھی سونپ دی گئی ہے کہہ رہے ہیں کہ حکومت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانتیں منسوخ کروانے کے لئے عدالت جائے گی۔
اسلام آباد کے ایک وکیل قومی اسمبلی کا اجلاس رکوانے کے لئے عدالت پہنچ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک ’’لیٹر لیکس‘‘ (غیرملکی دھمکی، سازش اور فنڈنگ کے حوالے سے وزیراعظم کے الزامات پر مبنی خط) کی تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتیں قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کو روک دیا جائے ، یہ درخواست چھ اعتراضات کے ساتھ مسترد کردی گئی ہے
وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کی شام ’’سینئر‘‘ صحافیوں سے بڑی ’’دبنگ‘‘ گفتگو کی۔ ان کے ایک انٹرویو کو حکومت کے ایک پسندیدہ چینل پر بھی چلایا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں تین آپشنز دیئے ’’استعفیٰ، عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا، عام انتخابات کا قبل از وقت اعلان‘‘۔
بعض اخبارات اور چینلز نے اسے یوں بیان کیا کہ ’’اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن سے طرف سے یہ تین آپشنز لے کر آئی تھی‘‘۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع کہتے ہیں ’’وزیراعظم کو تین آپشنز نہیں دیئے گئے البتہ انہوں نے درخواست کی تھی کہ اپوزیشن سے بات کرکے درمیانی راستہ نکالا جائے‘‘ اپوزیشن کا موقف ہے کہ "ہم نے کسی کی معرفت تین شرائط نہیں بھیجیں”۔
وزیراعظم نے گزشتہ روز دو باتیں اور کہیں اولاً یہ کہ ’’میری جان کو خطرہ ہے ثانیاً سازشی عناصر میری اہلیہ اور ان کی دوست کی کردار کشی کریں گے، کوئی آڈیو ٹیپ بھی نکال کر لائی جاسکتی ہے‘‘۔
اہلیہ کی دوست وہی ہیں جن پر یہ الزام لگایا جارہا تھا کہ بزدار کو وزیراعلیٰ ان کے کہنے پر بنایا گیا اور اس سارے عرصہ میں پنجاب کے اصل حکمران یہی دو میاں بیوی تھے۔
جو بات غور طلب ہے وہ یہ کہ اگر تین آپشنز اسٹیبلشمنٹ لائی تھی تو پھر غیرملکی دھمکی آمیز خط، امریکی سازش، اپوزیشن کو بیرونی فنڈنگ، اپوزیشن کا امریکی مہرہ بننا جیسے الزامات کا کیا کرنا ہے کیونکہ یہاں تو امریکہ مخالفت سے بھرے جذبات کے سات سمندر "اچھل مچل” رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکام امریکہ کو محفوظ کرنے کے لئے آسمان کو چھوتی دیوار اٹھانے کے منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
وائٹ ہائوس اور پینٹاگون کی ’’کانپیں ٹانگیں ‘‘ والی حالت ہے۔ وزیراعظم کا دعویٰ ہے ’’قوم غداروں کو معاف نہیں کرے گی‘‘۔ انہیں احساس نہیں کہ بات اگر اس نہج پر آگے بڑھے تو پہلا سوال یہ ہوگا کہ جس حکومت میں کم و بیش درجن بھر غیرملکی شہری مشیرومعاون رہے خود اس کی حب الوطنی کیا ہوگی؟

تکرار تو ہوگی لیکن پھر یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ سیاست میں مذہبی جذبات ابھارنا اور حب الوطنی و غداری کے کاروبار کو بڑھاوا دینے کے کام کوئی بھی کرے یہ غلط ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل وزیراعظم سے یہ سوال کیوں نہ پوچھ لیا جائے کہ جس امریکہ پر وہ دھمکی آمیز خط کا الزام لگاتے ہوئے کہہ رہے ہیں وہ (امریکہ) میری حکومت گرانا چاہتا ہے اسی امریکہ کے ایک ادارے "یو ایس آئی پی” میں ایشیاء کے لئے ایسوسی ایٹ نائب صدر رہنے والے ڈاکٹر معید یوسف کو انہوں نے قومی سلامتی کا مشیر کیوں بنایا؟
واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) کے نام سے کام کرنے والا یہ ادارہ 1986ء میں قائم ہوا اس کے قیام کی منظوری اس وقت کے امریکی صدر رونالڈریگن نے دی۔ اس ادارے کو کانگریس سے باضابطہ امداد ملتی ہے۔
یو ایس آئی پی امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے ساتھ شراکت میں کام کرتا ہے۔ یو ایس آئی پی کو امریکی سی آئی اے کا تھنک ٹینک بھی سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں عراق، ایران، لیبیا، شام وغیرہ کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کی وضع کاری اور انہیں آگے بڑھانے میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے۔
اس ادارے میں ایشیا کے لئے ایسوسی ایٹ نائب صدر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر معید یوسف کو امریکہ سے بلواکر قومی سلامتی کا مشیر وزیراعظم نے بنوایا گیا ، کیا وزیراعظم ان کی پروفائل، خدمات اور پاکستان بارے خیالات سے ناواقف تھے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب معید یوسف قومی سلامتی کے مشیر بنائے گئے تو انہوں نے کہا تھا ’’میں تو اپنے بیمار والدین کی عیادت کے لئے پاکستان آیا تھا یہاں مجھ سے درخواست کی گئی کہ آپ یہ منصب سنبھالیں اور امریکہ سے بہتر تعلقات کے لئے کام کریں‘‘۔ ایک ایسا امریکی ادارہ جو صدارتی فرمان پر قائم ہوا ہو، کانگریس کی فنڈنگ پر وزارت دفاع اور خارجہ کے ساتھ ملک کر کام کرتا ہوں اس کی عمومی شہرت سی آئی اے کے تھنک ٹینک کی ہو اس کے ایک ریجنل ایسوسی ایٹ نائب صدر کی پوسٹ پر فائز ڈاکٹر معید یوسف کو راہ چلتے ہوئے بلاکر مشیر قومی سلامتی کی حیثیت عطا کردی گئی ہوگی؟
یو ایس آئی پی کا ایشیا کے لئے نائب صدر ، جناب عمران خان کا مشیر قومی سلامتی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں امریکہ میرے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ مجھے دھمکی آمیز خط بھجوایا گیا ہے۔ امریکی مجھے وزیراعظم کے منصب پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ اپوزیشن امریکی سازش کا مہرہ ہے۔
حد ہوتی ہے لیکن یہاں کوئی حد نہیں۔ پھر بھی بہت احترام کے ساتھ یہ پوچھ نہ لیا جائے کہ حضور امریکی انتظامیہ کا منظور نظر آپ کا قومی سلامتی کا مشیر ہے امریکہ کو آپ سے کیا خطرہ ہونا ہے؟
معاف کیجئے گا معاملہ صرف ڈاکٹر معید یوسف تک ہی محدود نہیں، وزیراعظم کی ایک معاون تانیہ ادریس ہوا کرتی تھیں، ’’ڈیجیٹل پاکستان‘‘ کے لئے وزیراعظم کی خصوصی معاون۔ وہ ’’بوزایلن ہیملٹن‘‘ نامی ادارے میں خدمات سرانجام دیتی رہیں بعد میں وہ ’’گوگل‘‘ سے منسلک ہوگئیں گوگل سے ہی پاکستان پہنچیں۔ کیا وزیراعظم یا ان کا کوئی بھی ساتھی اس بات سے واقف نہیں تھا کہ تانیہ ادریس کی سابق ملازمت والا ادارہ ’’بوز ایلن ہیملٹن‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ منافع بخش جاسوس ادارے کی ساکھ رکھتا ہے ؟ ۔
اس ادارے میں ملازمت کے لئے سکیورٹی کلیئرنس پہلی شرط ہے۔ مکرر عرض ہے کیا ڈاکٹر معید یوسف کو یو ایس آئی پی کا ایشیا کے لئے ایسوسی ایٹ نائب صدر امریکیوں نے کسی سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ہی بنادیا تھا؟
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں معلومات کے حصول کا شوق نہیں جس طرح کی معلومات کے تجسس کی یہاں "چہل پہل” ہے اس کا ذکر ان سطور میں نرم سے نرم الطاف میں بھی نہیں کہا جاسکتا۔

یہاں وزیراعظم کے امریکی گرین کارڈ ہولڈر، معاون شہباز گل کی امریکی ملازمت اور تنخواہ یا پاکستان کی دو یونیورسٹیوں سے ان کی ماضی میں برطرفی کی وجوہات کا ذکر اور اس پر بحث اٹھانا غیرضروری ہوگا مگر یہ سوال اہم ہے کہ پاکستانی عوام کیسے یقین کرلیں گے کہ غیرملکی مشیر و معاونین کا لشکر رکھنے والے وزیراعظم کے خلاف امریکہ سازش کررہا ہے اور اپوزیشن والے اس سازش کے مہرے ہیں؟
ہمارے صحافی دوست شیراز پراچہ نے پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے ’’امریکی مہروں‘‘ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ کسی دن اس مضمون کے اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کو امریکہ کی مخالفت کرنے سے قبل نئے امریکہ مخالف قائد سے کچھ سوالات ضرور دریافت کرنے چاہئیں ان میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر معید یوسف کو قومی سلامتی کا مشیر کس کے کہنے پر لگایا گیا؟۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author